شموئل احمد کا افسانہ ’’سنگھار دان‘‘ ۔۔۔ طارق چھتاری

ہم عصر افسانہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بعض اہل دانش کے نزدیک معدوم ہو چکی ہے تو بعض اہل نظر اسے معاصر ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی سب سے زیادہ نمایاں اور متحرک تصویر تسلیم کرتے ہیں لیکن شموئل احمد کا افسانہ ’’سنگھار دان‘‘ اردو کی ان چند تخلیقات میں سے ایک ہے جن کی اہمیت سے کسی نقاد اور کسی افسانہ نگار کو انکار نہیں۔ شموئل احمد نے اس افسانے میں کیا کیا ہنر دکھائے ہیں! فکر انگیز موضوع، دلچسپ واقعات، سیدھی سادی سی پیچیدگیاں، ایجاز و اختصار، زبان کا برملا اور برجستہ استعمال اور چند لفظوں کے آدھے ادھورے جملے سے ایک مکمل منظر کی تصویر کشی۔۔ مثلاً افسانے کا پہلا جملہ،

’’فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں۔،،‘‘

کیا Paradox ہے اور کیا Irony ہے کہ جو لٹنے کا پیشہ کرتی ہیں اور لوٹنے پر یقین رکھتی ہیں، فسادیوں نے آج انھیں بھی لوٹ لیا۔

’’فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں۔‘‘ اس مختصر لیکن مؤثر جملے کی خوبی یہ ہے کہ افسانے کا یہ پہلا جملہ بے شمار واقعات کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ نتیجتاً شدت، نفرت اور بربریت، حس جمال کی پستی اور حیوانیت جیسے جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ قاری کے ذہن میں وہ تمام مناظر بھی روشن ہونے لگتے ہیں جو افسانہ نگار نے کاغذ پر تو نہیں لکھے مگر قاری کے دل پر نقش کر دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قارئین کی اکثریت کو یہ افسانہ بے پناہ متاثر کرتا ہے۔ بس مشکل اس وقت ہوتی ہے جب کسی افسانہ نگار کو اس پر لکھنا ہو اور وہ بھی بحیثیت قاری یا نقاد نہیں بلکہ بحیثیت افسانہ نگار ہی لکھنا ہو۔ وہ دخل اندازی کی بری عادت سے باز نہیں آتا۔ ہر منظر، ہر واقعے اور کرداروں کے ہر عمل کو اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے۔ کہیں اعتراض کرتا ہے، کہیں داد دیتا ہے اور کہیں رشک کرتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ چند بے ترتیب خیالات ظاہر کرنے کے سوا اور کیا کر پائے گا؟ بہرحال اپنے خیالات کو کسی حد تک ترتیب سے بیان کرنے کی کوشش میں پھر پہلے جملے پر پہنچتے ہیں کہ فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں۔

رنڈیوں کا لوٹا جانا، بظاہر نہ تو نادر واقعہ ہے اور نہ ہی حیرت انگیز۔ رحم اور ہمدردی کے جذبات بھی نہیں ابھرتے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ واقعہ قاری کے تجسس میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے اور یہ افسانے کی پہلی کامیابی ہے۔ قاری کا یہی تجسس سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ افسانہ نگار نے یہ اطلاع کیوں دی؟ گویا ہم تسلیم کر چکے تھے کہ بے آبرو اور ناچار، بدنصیب اور نادار طوائفوں کے پاس لوٹنے لائق ہے ہی کیا؟ بس یہیں سے قاری کو طوائفوں سے ہمدردی ہونے لگتی ہے۔ طوائفوں کا لوٹا جانا ایک نادر واقعہ محسوس ہوتا ہے، قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور تفصیلات جاننے کی جستجو میں وہ اگلا پیراگراف پڑھنے کو بے تاب ہو جاتا ہے۔

’’برج موہن کو نسیم جان کا سنگھار دان ہاتھ لگا تھا۔ سنگھار دان کا فریم ہاتھی دانت کا تھا، جس میں قد آدم شیشہ جڑا ہوا تھا اور برج موہن کی لڑکیاں باری باری سے شیشے میں اپنا عکس دیکھا کرتی تھیں۔ فریم میں جگہ جگہ تیل، ناخن پالش اور لپ اسٹک کے دھبے تھے، جس سے اس کا رنگ مٹ میلا ہو گیا تھا اور برج موہن حیران تھا کہ ان دنوں اس کی بیٹیوں کے لچھن۔۔،‘‘

لفظ ’’لچھن‘‘ اس طرف ہلکا سا اشارہ تو کرتا ہے کہ برج موہن کی بیٹیوں کے رنگ ڈھنگ طوائفوں جیسے ہوتے جا رہے ہوں گے مگر ان کی تفصیلات اور جزئیات جاننے کا تجسس قاری کو وہ منظر جلد از جلد دیکھنے کو اکساتا ہے جسے افسانہ نگار نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

آج بھی تینوں کی تینوں بالکنی میں کھڑی آپس میں اسی طرح چہلیں کر رہی تھیں اور برج موہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ یکایک بڑی نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔ اس کے جوبن کا ابھار نمایاں ہو گیا۔ منجھلی نے جھانک کر نیچے دیکھا اور ہاتھ پیچھے کر کے پیٹھ کھجائی۔ پان کی دکان کے قریب کھڑے ایک نوجوان نے مسکرا کر بالکنی کی طرف دیکھا تو چھوٹی نے منجھلی کو کہنی سے ٹہوکا دیا اور پھر تینوں ہنسنے لگیں اور برج موہن کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔‘‘

اب ذرا یہ دیکھیں کہ اس منظر کو خود افسانہ نگار کس جگہ کھڑے ہو کر دیکھ رہا ہے۔ لیکن اس کا راوی تو Third Person ہے یعنی Omniscient Narrator، ایک ہمہ داں راوی، جوہر جگہ موجود ہوتا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ اسے کرداروں کے جذبات کا بھی علم ہوتا ہے، جن کا احساس خود کرداروں کو نہیں ہوتا۔ ایسے راوی کی ہمدردیاں تو چند مخصوص کرداروں کے ساتھ ہو سکتی ہیں مگر اس کا رویہ سبھی کرداروں کے ساتھ یکساں ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی ایک Situation کو وہ ایک کردار کی نظر سے دیکھتا ہے تو دوسری Situation کو دوسرے کردار کی نظر سے۔ یعنی اس کا Point of View تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’سنگھار دان‘‘ کا راوی بالکنی میں کھڑی برج موہن کی بیٹیوں کی نقل و حرکت کس کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے؟ یہ منظر افسانہ نگار کے ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔

’’آج بھی تینوں کی تینوں بالکنی میں کھڑی آپس میں اسی طرح چہلیں کر رہی تھیں اور برج موہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ یکایک بڑی نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔‘‘ یہ بیان راوی کا ہے مگر یہ طے ہے کہ دیکھ رہا ہے برج موہن، لڑکیوں کا باپ۔ کیا باپ کی نظر سے بیٹی کو انگڑائی لیتے ہوئے دیکھنے کے بیان میں لفظ ’’بھرپور‘‘ کا استعمال مناسب ہے؟ یا یہ بیان کہ ’’اس کے جوبن کا ابھار نمایاں ہو گیا؟‘‘ ہاں اگر صرف یہ لکھا گیا ہوتا کہ ’’برج موہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا تھا۔‘‘ اور بیان میں، وہ ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا، شامل نہ ہوتا تو یہ محض افسانہ نگار کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے منظر کا بیان ہو سکتا تھا، لیکن موجودہ صورت میں قاری یہ ماننے پر مجبور ہے کہ یہاں وہی بیان کیا گیا ہے جو برج موہن دیکھ رہا ہے اور محسوس کر رہا ہے، بس زبان راوی کی ہے۔

اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جو دکھایا گیا ہے، کیا وہ ایک باپ کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے؟ کم از کم عام حالات میں تو کوئی باپ اپنی بیٹیوں کو اس نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتا۔ لیکن یہ عام صورت حال نہیں ہے۔ در اصل یہ Prediction ہے، ایک پیش خیمہ ہے اس امر کا، کہ برج موہن کے نظریے میں، کردار میں، اخلاق میں اور رویے میں کوئی بڑی تبدیلی ہونے والی ہے۔ مگر ابھی وہ پورے طور پر یہ تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں، اسی لیے ایک انجانے خوف سے اس کا دل دھڑکنے لگتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ’’آخر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔‘‘ اب یہ بھی تو معلوم ہو کہ ہوا کیا تھا۔

’’برج موہن اور اس کے ساتھی دندناتے ہوئے نسیم جان کے کوٹھے پر چڑھ گئے تھے۔ نسیم جان خوب چیخی چلائی تھی۔ برج موہن جب سنگھار دان لے کر اترنے لگا تھا تو اس کے پاؤں سے لپٹ کر گڑگڑانے لگی تھی۔‘‘

’’یہ موروثی سنگھار دان ہے اس کو چھوڑ دو بھیا۔۔،‘‘

لیکن برج موہن نے اپنے پاؤں کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔

’’چل ہٹ۔۔ رنڈی۔۔،‘‘

اور وہ چاروں خانے چت گری تھی۔ اس کی ساڑی کمر تک اٹھ گئی تھی۔ لیکن پھر اس نے فوراً ہی خود کو سنبھالا تھا اور ایک بار پھر برج موہن سے لپٹ گئی تھی۔

’’بھیا۔۔ یہ میری نانی کی نشانی ہے۔۔،‘‘

اس بار برج موہن نے اس کی کمر پر زور کی لات ماری۔ نسیم جان زمین پر دوہری ہو گئی۔ اس کے بلاؤز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھولنے لگیں۔

برجموہن نے چھرا چمکایا۔

’’کاٹ لوں گا۔‘‘

نسیم جان سہم گئی اور دونوں ہاتھوں سے چھاتیوں کو ڈھکتی ہوئی کونے میں دبک گئی۔ برج موہن سنگھار دان لیے نیچے اتر گیا۔‘‘

یہاں موروثی سنگھار دان لوٹے جانے کے کرب کو ابھارنے کی بجائے لات کھانے، بلاؤز کے بٹن کھل جانے اور ساڑی کمر تک اٹھ جانے کے واقعے کو پیش کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہ تو تحقیق کا موضوع ہے کہ لات کھا کر چاروں خانے چت گرنے کی صورت میں ساڑی کمر تک اٹھ سکتی ہے یا نہیں اور کمر پر لات مارنے سے نسیم جان کے بلاؤز کے بٹن کھل سکتے ہیں یا نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا کسی شریف زادی، پردہ نشین یا گھریلو خاتون کے ساتھ ہوا ہوتا تو اس کے نیم برہنہ ہو جانے کا کرب قاری زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتا۔ یہ افسانہ نگار کی شرافت ہے یا شرارت کہ اس نے واقعے کی المناکی ظاہر کرنے کے لیے عریاں کیا بھی تو ایک طوائف کو۔ بہرکیف اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ افسانہ نگار کے اندر ایک حساس، رحم دل اور ہمدرد انسان موجود ہے جو عام لوگوں کی طرح بازار اور گھریلو عورتوں میں تفریق نہیں کرتا، منٹو کی طرح طوائف کے اندر ایک عورت تلاش کرتا ہے اور اس کی بے حرمتی پر تڑپ اٹھتا ہے۔

شموئل احمد نے لٹنے کے بعد نسیم جان کی دردناک روداد بیان کرنے کی بجائے لوٹنے والوں کا انوکھا حشر بیان کر کے اس افسانے کو نہ صرف عام افسانہ ہونے سے بچا لیا ہے بلکہ اسے ایک وسیع تناظر عطا کیا ہے۔ جب برج موہن سنگھار دان لوٹ کر اپنے گھر میں لاتا ہے اور سنگھار دان کے اثرات گھر کے افراد پر مرتب ہونے لگتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ ’’نسیم جان شیشے میں بند ہو کر چلی آئی ہے اور ایک دن شیشے سے نکل کر گھر کے چپے چپے میں پھیل جائے گی۔‘‘ ہوا بھی یہی۔ ’’آہستہ آہستہ گھر کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے۔ بیوی اب کولھے مٹکا کر چلتی تھی اور دانتوں میں مسّی بھی لگاتی تھی، لڑکیاں پاؤں میں پائل باندھنے لگی تھیں اور نت نئے ڈھنگ سے بناؤ سنگھار میں لگی رہتی تھیں۔ ٹیکہ، لپ اسٹک اور کاجل کے ساتھ وہ گالوں پر تل بھی بناتیں۔ گھر میں ایک پاندان بھی آ گیا تھا اور ہر شام پھول اور گجرے بھی آنے لگے تھے۔‘‘

اس تبدیلی کی انتہا یہ ہے کہ آخر کار برج موہن خود بھی اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے اور ایک دن محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کا باپ نہیں ایک دلال ہے۔ یہی افسانے کا نقطۂ عروج ہے اور یہی اختتام۔ افسانہ ان جملوں پر ختم ہوتا ہے،

’’برج موہن کی بیوی اس کے کانوں میں آہستہ سے پھسپھسائی، ہائے راجہ۔۔ لوٹ لو بھرت پور۔۔،‘‘

برج موہن نے اپنی بیوی کے منھ سے کبھی ’’اوئی دیا‘‘ اور ’’ہائے راجہ‘‘ جیسے الفاظ نہیں سنے تھے۔ اس کو لگا یہ الفاظ نہیں سارنگی کے سر ہیں جو نسیم جان کے کوٹھے سے بلند ہو رہے ہیں اور تب۔۔ اور تب فضا کا سنی ہو گئی تھی۔۔ شیشہ دھندلا گیا تھا۔۔ اور سارنگی کے سر گونجنے لگے تھے۔۔

برج موہن بستر سے اٹھا۔ سنگھار دان کی دراز سے سرمہ دانی نکالی، آنکھوں میں سرمہ لگایا، کلائی پر گجرا لپیٹا اور گلے میں لال رو مال باندھ کر نیچے اتر گیا اور سیڑھیوں کے قریب دیوار سے لگ کر بیڑی کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔‘‘

ٹھیک ہوا، خوب سزا ملی، ایک طوائف کا سنگھار دان لوٹ کر نہ جانے کس زعم میں تھا کہ آج بے شرم طوائفوں کی مانند اس کی اپنی بیوی بھرت پور لوٹنے کی دعوت دے رہی ہے۔ یہ ایک فوری تاثر ہے اور قاری کا یہ تاثر افسانے کا وہ جز ہے جسے تنقیدی زبان میں غالباً وحدت تاثر کہتے ہیں۔ افسانے کے شروع میں نسیم جان کا سنگھار دان لوٹنے اور آخر میں بھرت پور لوٹنے میں فنی ربط قائم کر کے ایک Ironical طنز کرنے کی کوشش قابل تحسین ہے۔ بلاشبہ سنگھار دان فنی نقطۂ نظر سے ایک کامیاب افسانہ ہے اور ہر کامیاب افسانے کا موضوع اتنا رقیق ہوتا ہے کہ ہمارے ناقدین اسے اپنے اپنے تنقیدی نظریات کے سانچے میں آسانی سے ڈھال لیتے ہیں۔ اگر طے شدہ نظریات کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اس افسانے میں موجود اشاروں پر غور کیا جائے تو شاید ہم موضوع کے زیادہ قریب پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں۔

(فرض کیجیے کہ برج موہن جب سیڑھیاں اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی ہو گی کہ سنگھار دان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔ یقیناً یہ موروثی سنگھار دان تھا جس میں اس کی پرنانی اپنا عکس دیکھتی ہو گی۔ پھر اس کی نانی اور اس کی ماں بھی اسی سنگھار دان کے سامنے بن ٹھن کر گاہکوں سے آنکھیں لڑاتی ہو گی۔ برج موہن یہ سوچ کر خوش ہونے لگا ہو گا کہ بھلے ہی نسیم جان اس سے اچھا سنگھار دان خرید لے لیکن یہ موروثی چیز تو اب اسے ملنے سے رہی۔۔ تب ایک پل کے لیے برج موہن کو لگا ہو گا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقیناً احساس کی لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقے کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہیں)

اس مفروضے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک فرقے کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش اس افسانے کی بنیاد ہے۔ ہمارے عہد میں ایسا ہو بھی رہا ہے۔ اگر یہ جدیدیت کا دور ہوتا تو افسانہ اس صورت حال سے پیدا ہونے والے داخلی خلفشار کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا اور اگر ترقی پسند کا دور ہوتا تو طوائفوں کے احتجاج اور احتجاج کی قوت کو افسانے کا موضوع بنایا جاتا مگر اب معاصر افسانہ ان دونوں رویوں کا تابع نہیں رہا ہے، لہٰذا ہم عصر افسانہ نگار نظریاتی طور پر آزاد ہے۔ اس لیے شموئل احمد کسی کی وراثت چھیننے یا لوٹنے کے نتائج سے متعلق اپنی ایک Theoryپیش کرتے ہیں اور برج موہن یا اس کے ہم خیالوں سے صاف صاف کہہ دینا چاہتے ہیں کہ کسی فرقے کی وراثتیں، روایتیں اور قدریں چھیننے کی سازش تو کی جا سکتی ہے مگر انھیں سر سے سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ کہیں نہ کہیں زندہ رہتی ہیں۔ کبھی کبھی چھیننے والے ہی ان کے اسیر ہو جاتے ہیں اور اپنی موروثی اقدار لٹا بیٹھتے ہیں۔

افسانے کا موضوع یہی ہے، مگر اس موضوع پر افسانہ لکھنے کے لیے شموئل احمد ایک طوائف کے سنگھار دان کی بجائے کسی دوسری شے کو بھی ایک مخصوص فرقے کی وراثت کا استعارہ بنا سکتے تھے لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ انھوں نے اپنے فن پاروں کے لیے جس خاص کینوس یا پس منظر کا انتخاب کیا ہے، اس کے مطابق ایک طوائف کے سنگھار دان کو علامت بنانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا مناسب اور پسندیدہ Option نہیں تھا۔

میرے لحاظ سے شموئل احمد اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ برج موہن نے سنگھار دان لوٹا تھا مگر شموئل احمد نے اردو کے قارئین کو سنگھار دان تحفے میں دیا ہے۔ ایک خوبصورت تحفہ۔۔ اور لوٹی ہوئی چیز کے اخلاق پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، تحفے میں ملی ہوئی شے کے نہیں۔

بحوالہ ریختہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے