کرشن چندر نے ’طوفان کی کلیاں‘ میں لکھا ہے کہ عورت کو بے وفائی کا حق ہے۔ بہت ممکن ہے کرشن نے کسی شادی شدہ عورت کا ایک غیر مرد سے وابستگی کا جواز ڈھونڈا ہو، لیکن یہ طریقہ اظہار یقیناً بھونڈا ہے۔ شاید کرشن کہنا چاہتے ہیں کہ عورت کو محبت کا حق ہے جو وفا کے پیمانے سے بالاتر ہے۔ عورت کے تئیں کرشن کے اس رویہ کو مخلصانہ کہا جا سکتا ہے۔ شاید وہ دوستی کے رشتے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ بیدی کی نظر میں عورت اور مرد کے مابین ایک ہی رشتہ ممکن ہے اور وہ ہے رشتۂ ازدواج۔۔۔۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بیدی کے افسانے میں رشتۂ ازدواج سے بندھی عورت بیوی بن کر بھی طوائف ہے۔ ان کے افسانوں میں بے وفا عورتوں کا ذکر نہیں ملتا۔ ان کے یہاں عورتوں کا ایک ہی روپ ہے۔۔۔۔وہ ہے دروپدی۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ ادب عالیہ ہو یا کلاسیکی ادب، لوک کتھائیں ہوں یا دیومالائی قصے عورت ہر جگہ مرد کی جارحیت کا شکار نظر آتی ہے اس کی وجہ شاید وہ تخلیقی عمل ہے جس سے عورت وجود میں آئی۔ خدا نے انسان کی تخلیق کی تو اس کو سربلندی عطا کی۔ دوسری مخلوق کی ساخت ایسی بنائی کہ اس کا سر زمین کی طرف جھکا دیا یعنی پستی کی طرف اور آدمی کو پاؤں پرا ستادہ کیا تاکہ فلک پر نگاہ کر سکے۔ لیکن حوّا آدم کی پسلی سے خلق ہوئی۔۔۔۔جسم کے اس حصے سے جو سر کے قریب نہیں ہے۔ یعنی وہ حصہ جو عظمت کی علامت نہیں ہے۔ گویا مرد نے اپنی تخلیق میں ہی عورت پر برتری حاصل کی۔ یہ احساس برتری مرد کی سائیکی کا حصہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ارسطو کو عورت ارتقا کی نچلی سیڑھی پر نامکمل مرد کی طرح کھڑی نظر آتی ہے۔ یونانی دیومالا کی پنڈورا کائنات کی پہلی عورت تھی۔ زیوس نے اس میں حسن کے ساتھ ریاکاری بھی بھر دی اور پرومیتھیس کو سبق سکھانے کے لئے ایک بند جار کے ساتھ بھیجا جس میں آدمی کے لیے دکھ درد بھرے تھے۔ یہ پنڈورا کا تجسس تھا کہ اس نے جار کھول کر دیکھنے کی کوشش کی اور دکھ درد دنیا میں پھیل گئے اور یہ حوّا کا تجسس تھا کہ آدم کو شجر ممنوعہ چکھنے پر اکسایا۔ گویا مرد کی تمام پریشانیوں کا سبب عورت بنی۔
نطشے نے لکھا ہے کہ مرد اور عورت کی یہ جنگ ابدی ہے اور امن اسی وقت تک ہے جب ایک کی برتری کو دوسرا قبول کر لے۔ نطشے مرد اور عورت کے رشتے کو مالک اور غلام کا رشتہ مانتا ہے۔ اس جنگ میں بیدی، منٹو، کرشن سبھی عورت کے طرفدار نظر آتے ہیں لیکن ان میں فرق ہے۔ بیدی چپکے چپکے آنسو بہاتے ہیں۔ منٹو کی سوگندھی رئیکٹ (React) کرتی ہے اور کرشن کی پریتو خنجر بکف ہو جاتی ہے۔
لیکن عورت کی جو درگتی آدی گرنتھوں میں ہوئی اس کی مثال مشکل سے کہیں ملے گی۔ تلسی داس نے تو عورت کو پشو اور گنوار کے ہی خانے میں ڈال دیا اور کتھا سرت ساگر کے مصنف نے بھی طرح طرح سے رسوا کیا۔ یہ مقولہ کتھا سرت ساگر میں آیا ہے کہ عورت کو ناک نہیں ہوتی تو بشٹھا کھاتی۔ سوم دت عورت کی بے وفائی کو جنسی نا آسودگی سے جوڑتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ جنسی آسودگی میں عورت بہت نچلی سطح پر چلی آتی ہے بلکہ تہہ خانے میں بھی بند ہے تو اپنا یار ڈھونڈ لے گی چاہے کوڑھی اپاہج یا ہر طرح سے نا اہل ہی کیوں نہ ہو۔
ماہر نفسیات ولیم اسٹیکل کے مطابق عورت کے لاشعور میں ایک آئیڈیل مرد بستا ہے۔ عورت ادھر متوجہ ہوتی ہے جہاں اس کا آئیڈیل نظر آتا ہے۔ اکثر شاعر ادیب اور نام ور فنکار کو بعض عورتیں اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہیں اور اَن دیکھے ان کے عشق میں مبتلا رہتی ہیں۔ یعنی بعض عورتوں کی بے وفائی کا سبب آئیڈیل کی تلاش بھی ہے۔
سوم دت کے مطابق پرشارتھ سے بھرپور مرد ہی عورت کا آئیڈیل ہوتا ہے، اپنے ویر پرش سے عورت بے وفائی نہیں کرتی۔ رانی کلیان وتی کا شوہر راجہ سنگھ بل ویر پرش ہے وہ اپنی ویرتا کے چرچے نہیں کرتا اور چھوٹے موٹے فتوحات کو اہمیت نہیں دیتا۔
رانی کلیان وتی ایک غیر مرد پر عاشق ہو جاتی ہے اور داسی کی معرفت اس کو خواب گاہ میں بلاتی ہے۔ مرد بستر پر بیٹھنے میں ہچکچاتا ہے۔ کلیان وتی سوچتی ہے کہ بزدل مرد ہے۔ اس وقت کھڑکی سے سانپ لٹک رہا ہوتا ہے۔ مرد سانپ کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے لیکن کسی طرح اس کو مار دیتا ہے۔ سانپ مارکر وہ بے حد خوش ہوتا ہے۔ کلیان وتی حقارت سے سوچتی ہے کہ کتنا گھٹیا مرد ہے۔ ایک معمولی سانپ کو مار کر خوش ہو رہا ہے جبکہ راجا سنگھ بل شیر مارکر بھی نہیں اتراتا۔ اس کا دل نفرت سے بھر جاتا ہے اور وہ اس کو دھکے دے کر باہر نکال دیتی ہے۔
اس تناظر میں اردو ادیبوں کا رویہ جارحانہ نظر نہیں آتا۔ اردو افسانوں میں بے وفا عورتوں کا ذکر نسبتاً کم ہے۔ پھر بھی پریم چند اور غلام عباس سے لے کر ضمیر الدین احمد اور ساجد رشید تک کے افسانوں میں بے وفا عورتوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
پریم چند کی کہانی ’نئی بیوی‘ کا مرکزی کردار ڈونگر مل اپنی عمر رسیدہ بیوی سے بے اعتنائی برتتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے۔۔ ڈونگر مل نئی شادی کرتا ہے۔ نئی بیوی جوان اور خوبصورت ہے۔ ڈونگر مل اس کی ہر طرح سے دل جوئی کرتا ہے، لیکن وہ نوجوان ملازم کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ قمر رئیس کہانی کو مقصدی بتاتے ہیں۔ ڈونگر مل کے خلاف پریم چند کا لہجہ شروع سے جارحانہ ہے۔ کہانی کو سوچے سمجھے انجام پر لا کر پریم چند نے ڈونگر مل کو ایک طرح سے اس کے کیے کی سزا دی ہے۔
کرشن چندر کی کہانی ’پریتو‘ ایک بے وفا عورت کی کہانی ہے۔ یہ اس عورت کی کہانی ہے جس کو محبوب کے کھونے کا غم اندر ہی اندر ڈستا ہے اور جس کے لاشعور میں اس شخص کے لیے نفرت پل رہی ہے جس نے محبوب کو ہمیشہ کے لئے اس سے الگ کر دیا ہے۔
پریتو شادی شدہ ہے۔ ایک رات خاوند کی آنکھ کھلتی ہے تو پریتو بستر سے غائب ملتی ہے۔ وہ حیران ہوتا ہے کہ کہاں گئی۔ دوسری رات وہ گھر کے پچھلے دروازے سے باہر نکلتی ہے تو مرد تعاقب کرتا ہے۔ ہر طرف گھپ اندھیرا ہے۔۔۔۔ایک مہیب سنّاٹا۔۔۔۔ اس کو خوف محسوس ہوتا ہے لیکن پریتو بے خطر چلی جا رہی ہے۔ مرد یہ سوچ کر حیران و پریشان ہے کہ یہ عورت آخر کہاں جا رہی ہے۔۔۔۔؟اس کو ڈر کیوں نہیں محسوس ہوتا؟ پریتو ایک لمبا سا میدان پار کرتی ہے۔ دور پیڑ کے سائے میں اس کا محبوب کھڑا ہے۔ وہ اس سے بے اختیار لپٹ جاتی ہے۔
مرد بیوی پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ وہ اپنا تبادلہ دوسرے شہر میں کرا لیتا ہے۔ نئی جگہ آ کر دونوں اس واقعہ کو بھولنا چاہتے ہیں۔ ایک شام جب پریتو کچن میں کام کر رہی ہوتی ہے اور بچے اوپری منزل پر ہوتے ہیں تو روشنی گل ہو جاتی ہے۔ مرد پریتو کو اوپر جانے کے لئے کہتا ہے، جہاں بچے اکیلے ہیں۔ پریتو بہانہ بناتی ہے اور کہتی ہے وہاں اندھیرا ہے اس کو ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔ مرد آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور چیخ کر کہتا ہے۔ اس رات یار سے ملنے گئی تھی تو ڈر نہیں لگا تھا۔۔۔۔؟ پریتو گھائل شیرنی کی طرح بپھر اٹھتی ہے اور جس چاقو سے سبزی کاٹ رہی ہوتی ہے اس سے مرد پر پے در پے وار کرتی ہے۔ باطن میں پلتی ہوئی نفرت اچانک کس طرح اجاگر ہو جاتی ہے، کہانی اس کی بہترین مثال ہے۔
غلام عباس کی کہانی ’اس کی بیوی‘ بھی شاہ کار کہانی ہے۔ کہانی پچیس سالہ نوجوان کے گرد گھومتی ہے۔ نوجوان کو اپنی بیوی نجمہ سے بے پناہ محبت ہے، لیکن ایک دن راز کھلتا ہے کہ وہ کسی اور کو چاہتی ہے۔ نوجوان اپنا رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ اس دوران نجمہ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ عالم نزع میں وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن نہیں کہہ پائی۔ نوجوان صدمے سے بستر مرگ پر پڑ جاتا ہے لیکن ماں اور بہن کی محبت اس کو جینے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جب صحت مند ہوتا ہے تو کچھ پیسے جمع کرتا ہے اور نسرین نامی طوائف کو کچھ دنوں کے لیے خرید لیتا ہے۔ وہ نسرین میں نجمہ کی شبیہہ دیکھتا ہے۔ نسرین کی ہر ادا اس کو نجمہ کی ادا معلوم ہوتی ہے۔ وہ نسرین سے کہتا ہے کہ نجمہ اسی طرح سیدھی مانگ نکالا کرتی تھی۔۔۔۔ اس کی آنکھیں بھی اسی طرح گہری اور سیاہ تھیں۔ یہاں تک کہ ٹھوڑی بھی ایسی ہی نوکیلی۔۔۔۔
نوجوان نسرین کے ساتھ اسی طرح رہنے لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر میں نجمہ کے ساتھ رہتا تھا۔ صبح اٹھ کر بازار سے سبزی اور گوشت لاتا ہے اور خود ہی ہنڈیا پکاتا ہے۔ نوجوان نسرین کو بتاتا ہے کہ وہ نجمہ کے لیے اکثر ہنڈیا پکاتا تھا۔ دونوں ساتھ ساتھ کھاتے ہیں۔ پھر سیر کے لیے جاتے ہیں۔ وہ اس کے لیے چھوٹے موٹے تحائف خریدتا ہے اور بھیڑ میں اس کو اس طرح بچا کر لے چلتا ہے کہ اس کا دامن کسی سے چھو نہ جائے۔۔۔ جیسے وہ انتہائی مقدس سی چیز ہو۔۔۔۔
آخری رات وہ اس بات کا انکشاف کرتا ہے کہ نجمہ دوسرے سے پیار کرتی تھی۔۔۔۔ نسرین کو حیرت ہوتی ہے کہ اس کے باوجود بھی وہ اس کو چاہتا رہا۔۔۔۔ وہ اس سے پوچھتی ہے کہ کیا نجمہ کو پتہ تھا کہ وہ اس کے راز سے واقف ہے۔۔۔۔؟ نوجوان نفی میں جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ظاہر کرنے سے کیا فائدہ تھا؟ اس رات وہ جلدی سے سو جاتے ہیں۔ پچھلے پہر نوجوان سبکی سی لیتا ہے اور نسرین اس کو آغوش میں بھینچ لیتی ہے۔
فضیل جعفری کہانی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کہانی کے آخری منظر میں غلام عباس نے بڑی مہارت کے ساتھ جنسی خواہش اور لذّت پرستی کو خالص محبت کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ نسرین طوائف نہیں رہ کر محض ایک عورت بن جاتی ہے۔ نوجوان کو بھی نسرین سے وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو اپنی بیوی سے نہیں مل سکتا تھا اور جس کے لئے وہ ترس رہا تھا۔
میں فضیل سے اتفاق نہیں کرتا۔ نوجوان نسرین کے پاس محبت کی خاطر نہیں آیا ہے بلکہ اپنی نفرت بانٹنے آیا ہے۔ نوجوان اگر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے وفائی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ اور اس کے دل میں بیوی کا احترام باقی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت نفرت میں بدل چکی ہے جس کا اظہار وہ زندگی میں نہیں کرتا کہ اس سے کیا فائدہ ہے۔ بیوی کی موت کے بعد وہ طوائف کے کوٹھے پر آتا ہے۔ کیونکہ اب وہ اس کی شناخت طوائف سے کرتا ہے۔۔۔۔ ایک گری ہوئی عورت سے جو غیر مرد کو اپنا جسم دیتی ہے۔۔۔۔ نجمہ بھی ایسی ہی تھی۔۔۔۔ بے غیرت۔۔۔۔ بے وفا۔۔۔۔ یہ اس کی نفرت کی انتہا ہے کہ طوائف میں اس کو نجمہ کی شبیہہ نظر آتی ہے اور اس کی ہر ادا گویا نجمہ کی ادا معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا فضیل اگر یہ کہتے ہیں کہ نوجوان کو طوائف سے سب کچھ مل گیا جو اپنی بیوی سے نہیں مل سکا تو وہ اپنے قاری کو گمراہ کرتے ہیں۔
منٹو کے بعد جن افسانہ نگاروں نے عورت کی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا ان میں ممتاز مفتی ضمیر الدین احمد کے نام قابل ذکر ہیں، لیکن دونوں کے فن میں فرق ہے۔ ضمیر الدین احمد کے فن میں گہرائی ہے اور مفتی کے یہاں پیچیدگی ہے۔ ضمیر الدین احمد کے کردار معاشرے کے چلتے پھرتے کردار ہیں، لیکن مفتی کے کردار نفسیاتی مریض معلوم ہوتے ہیں۔ تہہ داری پیدا کرنے کے چکر میں مفتی کہانی کو کیس ہسٹری بنا دیتے ہیں۔ ان کی ابتدائی کہانی ’آپا‘ اتنی مقبول ہوئی کہ خود مفتی ساری عمر آپا سے دامن نہیں چھڑا سکے۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں آپا موجود ہوتی ہیں۔۔۔۔ وہی جھکی جھکی سی آنکھیں۔۔۔۔ حنائی انگلیاں۔۔۔۔ زیر لب مسکراہٹ اور عقل و جذبات کی ایک جیسی داخلی کشمکش۔۔۔۔
”چپ“ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو کیس ہسٹری معلوم ہوتی ہے۔ ”چپ“ کی جیناں ایک شادی شدہ عورت ہے وہ غیر مردوں سے تعلق استوار کرتی ہے لیکن ایک خاص قسم کی سچویشن ہی اس کے لیے محرک ہے‘ ایسی سچویشن جہاں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا خطرہ اور بدنامی کا خوف ہے۔
جیناں ہر وقت مسکراتی ہے اور نو عمر لڑکوں کو رجھانے کے لیے شلوار کے پائنچے اٹھاتی اور گراتی ہے۔ اس کا پہلا شکار قاسم ہے۔ قاسم اس سے عمر میں چھوٹا ہے۔ جیناں اس سے اٹکھیلیاں کرتی ہے۔ کبھی اس کی انگلیوں کو دانتوں میں دباتی ہے۔ کبھی اس کا سر زانوپر رکھ کر تھپتھپاتی ہے۔ قاسم نہیں آتا تو کسی بہانے خود اس کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ ایک دن وہ اس کا سر اپنے بدن سے مَس کرتے ہوئے کہتی ہے، رات ایک بجے بیٹھک کی کھڑکی کھلی ہو گی۔۔۔۔ تم ضرور آنا۔۔۔۔ قاسم بلاوے پر جاتا ہے اور اس کے دام میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ محلے والے کھسر پھسر کرتے ہیں تو جیناں کو لطف آتا ہے۔ بات جوں جوں بڑھتی ہے جیناں کی مسکراہٹ رسیلی ہوتی جاتی ہے۔ اور قاسم سے ملنے کی خواہش اس پر حاوی ہونے لگتی ہے۔ قاسم خدشہ محسوس کرتا ہے تو اس کا مذاق اڑاتی ہے لیکن بات جب عام ہونے لگتی ہے اور لوگوں کی دل چسپی کم ہو جاتی ہے تو جیناں کی دل چسپی بھی کم ہو جاتی ہے۔ تب بیٹھک کی تیسری کھڑکی نہیں کھلتی۔۔۔۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے کہانی کیس ہسٹری بننے لگتی ہے۔
مفتی جیناں کے شوہر کو مار دیتے ہیں۔ شوہر کی موجودگی میں کردار نگاری مشکل ہوتی۔ اب نیا کردار ابھرتا ہے مومن۔۔۔۔جیناں مومن میں دل چسپی لیتی ہے قاسم دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے لیکن کسی طرح جیناں کو شادی کے لیے راضی کر لیتا ہے۔
شادی کے بعد جیناں عام گرہستن عورت ہو جاتی ہے۔ وہ اب اٹکھیلیاں نہیں کرتی۔ نہ ہی قاسم کا سر گود میں لے کر تھپتھپاتی ہے۔ لیکن جیناں آب سیشن میں مبتلا ہے۔ ایک خاص قسم کی سچویشن اس کے لیے محرک ہے۔ جب والدین آتے ہیں اور گھر آدمیوں سے بھرا ہوتا ہے تو جیناں پرانی جیناں ہو جاتی ہے۔ اس کی شوخیاں واپس آ جاتی ہیں یہاں تک کہ قاسم جب والد کے پاس دیوان پر سو رہا ہوتا ہے تو وہ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کر دیتی ہے۔ کہانی یہاں ختم ہو جاتی تو گوارا تھا لیکن بیان کیس ہسٹری کا ہے۔ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ مومن کی وجہ سے دونوں میں تکرار ہوتی ہے۔ پھر طلاق ہو جاتی ہے اور جیناں مومن سے نکاح کر لیتی ہے۔
شادی کے ایک سال بعد مومن اور جیناں محلے میں داخل ہوتے ہیں تو قاسم نفرت سے کھولنے لگتا ہے۔ لیکن جیناں مسکراتی ہے۔ وہی ماحول ہے۔ محلے والے سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ ہزار آنکھیں انھیں گھور رہی ہیں۔ ایسے میں جیناں وہی جیناں ہو جاتی ہے۔ قاسم کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں دعوت وصال دیتی ہے۔ اس رات قاسم دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہوتا ہے۔ جیناں کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جیناں کا کردار نارمل کردار نہیں ہے، لیکن ضمیر الدین احمد کردار کو نفسیاتی کیس نہیں بناتے۔ ان کی کہانی فطری ماحول میں آگے بڑھتی ہے۔ ان کا رواں دواں اسلوب اور تخلیقی پیرایۂ اظہار عام سی کہانی کو بھی فن پارہ بنا دیتا ہے۔ ”سوکھا ساون“ ایسی ہی ایک کہانی جو فن پاروں میں شمار ہو گی۔
کہانی میں بات بہت معمولی ہے۔ عمر رسیدہ شخص کی جوان بیوی ایک شاعر کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ دونوں چھپ چھپ کر ملتے ہیں۔ ایک دن راز کھل جاتا ہے۔ معاشرے کے خوف سے وہ جان دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ کہانی بھی بے وفا عورت کی کہانی کہی جائے گی۔ زلیخا اپنے حکمراں شوہر کی زندگی میں حضرت یوسف کے عشق میں مبتلا ہوئی لیکن معاشرے نے زلیخا کو بے وفا نہیں سمجھا۔
ناصر بغدادی کی کہانی ”چشم دید گواہ‘‘کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ بے وفا عورت کی کہانی نہیں ہے لیکن کہانی اپنے اختتام پر نسوانی کردار کو بے وفائی کی دہلیز پر کھینچتی سی معلوم ہوتی ہے۔
فرحت نئی نویلی دلہن ہے اور اسرار اسی گھر کا فرد ہے۔ فرحت کا حسن اسرار کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔ ایک دن موقع پا کر فرحت کے ساتھ زنا بالجبر کر بیٹھتا ہے اور احساس جرم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ گھر والوں کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے۔ فرحت مصلحتاً خاموش رہتی ہے لیکن اس کی حالت گھائل شیرنی سی ہے۔ اسرار ایک بار معافی مانگنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو سختی سے جھڑک دیتی ہے۔ اسرار کی پھر ہمت نہیں ہوتی کہ اس کو دوبارہ مخاطب کرے، لیکن کہانی میں ایک موڑ آتا ہے۔ فرحت ماں بنتی ہے، وہ میٹرنیٹی ہوم سے بھری گود لئے گھر آتی ہے تو اسرار کو بھی سب کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔ فرحت کے چہرے پر گلابی حسن ہے۔ اسرار کو دیکھ کر فرحت کے ماتھے پر بل نہیں پڑتے۔
نطشے کا قول ہے کہ عورت میں سب کچھ ایک پہیلی ہے اور پہیلی کا راز ہے بچہ۔۔۔۔عورت ماں بن کر ہی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ فرحت کے ماتھے پر اب بل نہیں پڑتے۔۔۔۔ فرحت اب مکمل ہو گئی اور اسرار زانی نہیں رہا۔۔۔۔کہانی یہیں ختم ہوتی ہے لیکن فرحت اور اسرار کے تعلقات تو استوار ہو ہی گئے۔
ساجد رشید کی کہانی ’ایک گمشدہ عورت‘ بھی اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ ساجد بھی عورت کی بے وفائی کو اس کی جنسی نا آسودگی سے جوڑتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار جگدیش اپنی بیوی سریکھا کو طبّی معائنے کے لیے اسپتال میں داخل کراتا ہے۔ سریکھا اچانک وہاں سے غائب ہو جاتی ہے۔ دودن بعد اس کی لاش اسپتال کے اسٹور روم سے برآمد ہوتی ہے۔ پولیس موت کی وجہ جاننے سے قاصر ہے کیونکہ جسم پر کوئی نشان نہیں ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جگدیش لاش کا انتم سنسکار کرتا ہے اور اس کی استھیاں گنگا میں بہانے کے لیے کلس میں محفوظ کر لیتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ سریکھا کے ساتھ ریپ ہوا ہے لیکن پوسٹ مارٹم کی رپورٹ گل کھلاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سریکھا کے ساتھ جنسی اختلاط ہوا ہے جس میں خود سریکھا کی مرضی شامل ہے، جسم پر ہلکی سی خراش تک نہیں ہے کہ ریپ کا شبہ ہو سکے۔ جگدیش کے لیے یہ بات ناقابل یقین ہے۔
کہانی کار نے شروع میں ہی بیان کیا ہے کہ ان کی ازدواجی زندگی پر سکون ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں یہاں تک کہ سریکھا جگدیش کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھی رہتی ہے اس لیے جگدیش کو یقین نہیں ہے کہ سریکھا نے بے وفائی کی۔ لیکن کہانی میں جنسی نا آسودگی کے اشارے ملتے ہیں۔ افسانہ نگار لکھتا ہے:
سریکھا کے چھریرے گداز جسم کو جب وہ بانہوں میں بھرتا تو اسے اپنا دبلا پتلا جسم بڑا چمرخ معلوم ہوتا۔ شاید یہی سبب تھا کہ اس نے سریکھا کو فطری ضرورتوں کے وقت بھی نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا۔
در اصل جگدیش احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ سریکھا گوری چٹّی ہے۔ جگدیش سانولا ہے۔ سریکھا کا نکلتا قد ہے۔ جگدیش کا میانہ قد ہے۔ سریکھا کے بال لمبے اور گھنے ہیں۔ جگدیش کے بال اڑے اڑے اور گنجے پن کی طرف مائل ہیں۔ جگدیش کا جسم چمرخ ہے۔ سریکھا کا جسم گداز ہے۔ جگدیش میں تاب نہیں کہ سریکھا کو بھرپور نظر سے دیکھے۔ لہٰذا وہ فطری ضرورتوں کے وقت بھی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔
نا آسودگی کی تصدیق کہانی میں آگے ہوتی ہے۔ وہ نوجوان گرفتار ہوتا ہے جو سریکھا سے ہم بستر ہوا۔ نوجوان سریکھا کے گاؤں کا ہے اور اس کا شناسا ہے۔ اس کا رنگ گورا ہے۔ نوجوان کا بیان ہے کہ سریکھا اس سے باتیں کرنے نیچے اسٹور میں آئی اور اپنی مرضی سے ہم بستر ہوئی۔
کہانی کا المناک پہلو یہ ہے کہ جگدیش بیان میں تبدیلی کی درخواست کرتا ہے۔ وہ یہ کہ سریکھا کی مرضی اس میں شامل نہیں تھی بلکہ اس کا ریپ ہوا۔ گویا جگدیش کو ریپ قبول ہے ہم بستری گوارا نہیں۔ در اصل ریپ سے مرد کی اَنا مجروح نہیں ہوتی۔ اس وقت بیوی محض ایک عورت ہوتی ہے لیکن بیوی جب غیر مرد سے پیار کرتی ہے تو وہ عورت نہیں ہوتی وہ بیوی رہتی ہے جو اَنا کو مجروح کرتی ہے۔ جگدیش سریکھا کی استھیاں گنگا میں بہانے کے لیے نکلا تھا لیکن وہ بے وفا نکلی۔۔۔۔ بے شرم۔۔۔۔ اب اس لائق کہاں کہ استھیاں گنگا کے حوالے کی جائیں۔ جگدیش استھی کلس کمرے میں چھوڑ کر اپنے شہر روانہ ہو جاتا ہے۔
کہانی چست و درست ہے۔ اسلوب رواں دواں ہے۔ تمام واقعات کہانی خود بیان کرتی ہے لیکن ایک جگہ ساجد جھانکتے نظر آتے ہیں۔ نوجوان کے اسٹیٹمنٹ کا ایک ادھورا جملہ ہے ”وہ دوبار اس کے ساتھ۔۔۔۔“یہ آواز ساجد رشید کی ہے کہ کہانی تقاضہ نہیں کرتی کہ اس بات کا بھی انکشاف ہو کہ ہم بستری کتنی بار ہوئی لیکن ساجد جو ابھی تک دامن بچاتے آئے تھے نوجوان کے اسٹیٹمنٹ میں شامل ہو جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ عمل دوبار ہوا اور دوسری دفعہ میں اس کی جان گئی۔
مجھے البرٹو موراویہ کے ناول Empty Canwasکا بوڑھا یاد آتا ہے۔ وہ مباشرت کے دوران سیڑھی پر ہی مر جاتا ہے۔ موراویہ کی ایک اور کہانی اسپتال کی ایک نرس مریضوں کے اعضائے تناسل چھوتی پھرتی ہے۔ اس فعل کا اس کے پاس جواز ہے۔ مریض کے رسپانس سے وہ سمجھ جاتی ہے کہ اس میں زندگی کی کتنی رمق باقی ہے۔ ایک مریض سے وہ ہم بستر ہوتی ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ لیکن نیلم احمد بشیر کی ایک بلا عنوان کہانی اس کے برعکس ہے۔ اسپتال میں ایک مریضہ داخل ہوتی ہے جو تین دن سے کوما میں ہے۔ ڈاکٹر کی سمجھ میں بیماری نہیں آتی۔ اسپتال کا ایک ٹیکنیشین رات میں ہم بستر ہوتا ہے، مریضہ اچھی ہو جاتی ہے۔ نیلم احمد بشیر مریضہ کو کنواری بتاتی ہیں وہ اگر شادی شدہ ہوتی تو کہانی حقیقت کے زیادہ قریب ہوتی۔ پھر بھی یہ ایک بولڈ کہانی ہے۔ کم سے کم صنف نازک نے جنسی فاقہ کشی کا اعتراف تو کیا۔
عورت کی بے وفائی کو ہمیشہ جنسی نا آسودگی سے جوڑنا غلط ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت جنسی نا آسودگی سے زیادہ ذہنی اور روحانی آسودگی کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ جنس کا روحانی پہلو بھی ہے جس پر نظر نہیں جاتی۔ رجنیش لکھتے ہیں کہ عورت بہت پیار میں آتی ہے تو اس کے ہاتھ مرد کے سر پر چلے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آدمی نے مذہب کا زہر دے کر سیکس کو مارنے کی کوشش کی ہے، سیکس مرا تو نہیں زہریلا ہو کر زندہ ہے۔ زہریلے سیکس کے ساتھ اس کا روحانی پہلو گرفت میں نہیں آ سکتا۔ اور پھر بے وفائی کا پیمانہ کیا ہے۔ سماج مردوں کا ہے۔ پیمانہ وہی خلق کرے گا اور اس کے بنائے ہوئے پیمانے میں اپنی زندگی میں جیتی عورت ہمیشہ داغ دار نظر آئے گی۔
بشکریہ اردو دنیا
٭٭٭