شموئل کے افسانوں کی زبان ہمارے عہد کے ہر افسانہ نگار سے بالکل الگ ہے اور منفرد بھی: طارق چھتاری
شموئل کی کہانی ’’بہرام کا گھر‘‘ ان کی دوسری کہانیوں سے مختلف اس معنی میں ہے کہ اس کہانی میں کہیں بھی جنس کا پہلو نہیں ہے۔ عام طور پر ان کی جو مشہور کہانیاں ہیں، ان میں جنس یا تو موضوع بنا ہے یا جنسی مسائل اس میں آئے ہیں یا کوئی نہ کوئی جنسی پہلو آیا ہے۔ اور جنسی پہلو آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ منٹو کے مقلد ہو گئے۔ حالانکہ جنس پر لکھنے پر منٹو کی اجارہ داری نہیں تھی۔ ہر افسانہ نگار جنس پر سوچ سکتا ہے، لکھ سکتا ہے اور جنس پر لکھنا کوئی ٹیبو بھی نہیں ہے کہ جنس انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا اور اہم حصہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار کیا معروف فکشن نگار اور دانشور جناب غضنفر نے۔
غضنفر بازگشت آن لائن ادبی فورم کی ہفتہ واری تقریب میں شموئل کی کہانی ’’بہرام کا گھر‘‘ کے تفہیم و تجزیے کے حوالے سے منعقد پروگرام میں صدارتی خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر جنس کو آپ تلذز کے لیے پیش کر رہے ہیں، اس سے جنسی ہیجان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو وہ کہانی کا عیب بن جاتا ہے اور اگر وہ جنس انسانی زندگی کے کسی پہلو کو پیش کرتا ہے، کسی کمزوری کو پیش کرتا ہے یا اس کی کسی نفسیاتی گتھی کو سلجھاتا ہے اور فن کارانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے تو جنس سے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
شموئل کی کہانیوں کا متن ہمارے سامنے ہے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان کا متن کس پائے کا ہے، ان کی زبان کیسی ہے اور ان کا اسلوب کیسا ہے۔ کہانی کے عنوان پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شموئل نے اس کہانی کا نام بہرام کا گھر ہی کیوں رکھا کسی اور کا گھر کیوں نہیں۔ تو مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے علم نجوم کی معلومات سے استفادہ کیا اور اس کا عنوان طے کیا۔ پانچ جگہوں پر یہ بہرام کا لفظ آیا ہے اور پانچ حصوں میں انھوں نے کہانی بیان کی ہے۔ اس ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ بہرام کا گھر کافی محفوظ رہا ہو گا۔ اگر ہم اس کا مطلب نکالنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسی جائے پناہ جہاں جا کر اپنی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔ بہرام کا معنی ستارہ کے ہیں، مریخ کی ہیں۔ شموئل احمد نجومی تھے اور وہ ستاروں کی چال کو سمجھتے تھے۔
ستاروں کی گردش سے دنیا میں بہت کچھ ہوتا ہے، وہ گردش سے بچاتے بھی ہیں اور گردش میں ڈالتے بھی ہیں توممکن ہے کہ شموئل احمد اس بہرام سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ اگر قاری غور کرے تووہ شاید یہاں تک پہنچ جائے۔ انھوں نے شموئل کی اس کہانی میں فنی نقص کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ایک اوسط درجے کی کہانی قرار دیا۔
تقریب کے اوپن سیشن میں حصہ لیتے ہوئے معروف ناقد اور افسانہ نویس جناب طارق چھتاری نے کہا کہ شموئل کے افسانوں کی زبان ہمارے عہد کے ہر افسانہ نگار سے بالکل الگ ہے اور منفرد ہے۔ اس میں کوئی تصنع نہیں ہوتی۔ بہت ہی رواں اور بہت ہی نیچرل ہوتی ہے۔ ایپروپیرئیٹ اور مناسب زبان کا وہ استعمال کرتے ہیں۔ کہیں تشبیہ، استعارہ اور علامت کا استعمال نہیں کرتے، اس کے باوجود ان کی زبان بڑی پر اثر ہوتی ہے۔ اس مذاکرے میں ڈاکٹر ریاض توحیدی نے بھی حصہ لیا اور شموئل کی زبان و بیان کو سراہا۔
شموئل احمد کا افسانہ ’’بہرام کا گھر‘‘ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے سید نور الامین (ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، شاردا مہا ودیالیہ، پربھنی مہاراشٹر) نے کہا کہ آپ اور ہم کیمرے کی آنکھ کے اس دور میں جی رہے ہیں جہاں منظر اہم نہیں رہے ہیں تب ان منظروں کی دید سے ہونے والے احساس اور ان احساس کی گہرائی اور گیرائی اہم ہو جاتی ہے۔
فساد میں جان و مال کے چلے جانے کی دقت اپنی جگہ لیکن اس کے دورانیہ میں ہونے والے انسانی برتاؤکی روداد اپنی جگہ، ان ہی جذبات و احساسات کو شموئل احمد نے اپنے اس افسانے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شموئل کے مشاہدات کی باریکی اس افسانے میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ افسانہ ’’بہرام کا گھر‘‘ کی قرات ارمان حسین فرشوری (ویب انجینئر، یونیورسٹی آف سویڈن) نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کی۔ جب کہ شموئل احمد کا تعارف شاہد حبیب فلاحی (ریسرچ اسکالر، مانو لکھنؤ کیمپس اور معاون مدیر سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ) نے اپنے مخصوص انداز میں کرایا۔
شاہد حبیب نے شموئل احمد کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ شموئل احمد کے ادبی سفر پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا تخلیقی فن کار کسی بھی صورت بوڑھا نہیں ہونا چاہ رہا تھا بلکہ وہ دن بہ دن تربیت و تقویت کے زیور سے آراستہ ہو کر جوانِ رعنا کی طرح ایک سبک رفتار سفر پر محوِ خرام تھا لیکن ناگہانی مرض کا شکار ہو کر ان کے اندر کا کہانی کار داستاں سناتے سناتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا جو کہ ایک بڑا ادبی خسارہ ہے اور اردو فکشن کے ایک دور کا خاتمہ بھی۔ ان کے اندر کا کہانی کار بہت کم عمری میں انگڑائیاں لینے لگا تھا اور اناسی سالہ ایک لمبی عمر بھی پائی تھی، اس کے باوجود ان کی تخلیقی و تنقیدی پونجی اس قدر مختصر کیوں ہے؟
اس کا جواب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ شموئل بھی بہار کے لاکھوں نوجوانوں کی طرح اوسط فکر رکھنے والے والدین کی خواہشات کی تکمیل پر مجبور ہو کر انجینئرنگ کی طرف رخ کر بیٹھے تھے۔ ان کی پیدائش بھاگلپور میں 4 مئی 1943 کو ہوئی تھی، ۱۹۵۸ میں میٹرک، 1960 میں انٹرمیڈیٹ اور 1968 میں جمشید پور سے سول انجینئرنگ کا امتحان اعلیٰ نمبرات سے پاس کرنے والے شموئل احمد نے صدف اقبال کو دیئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’میں طالب علم اوسط درجے کا تھا لیکن یادداشت ایسی رہی کہ کوئی بھی عبارت نظر سے گزر جاتی تو من و عن ذہن میں محفوظ ہو جاتی۔‘‘ ایسی یادداشت کا حامل شخص جب پورے طور سے فکشن کے لیے وقف ہوتا تو بعید نہیں کہ اردو فکشن ایک ایسی کہانی ان کے ذہن سے اخذ کر پاتا جو عالمی ادب میں ایک نمایاں مقام کی حامل ہو سکتی تھی۔ کیوں کہ انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’میرے اندر جو تخلیقیت ہے، اس کا صرف دس فیصد حصہ باہر آیا ہے‘‘۔
ظاہر ہے ان کے تخلیقی سفر کی راہ میں ہوئے انجنیئرنگ اور علم نجوم کے ڈائیورڑن نے ان کے اندر کے باقی نوے فیصدی کہانی کار کو نکالنے میں روڑا قائم کیا ہے۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر گل رعنا (صدر شعبہ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد) نے کامیاب طریقے سے انجام دی۔ شکریے کی رسم ڈاکٹر فیروز عالم( اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو مانو، حیدرآباد) نے ادا کی۔ پروگرام میں کثیر تعداد میں شموئل کے مداحوں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد، ڈاکٹر مجاہد الاسلام، ڈاکٹر مشرف عالم، ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر رمیشا قمر اور دیگر معززین کی پر وقار شرکت نے پروگرام کی معنویت میں اضافہ کیا۔ شموئل کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ اگلے سنیچر تک کے لیے پروگرام کو ملتوی کیا گیا۔
٭٭٭