(چار کالم)
مکہ سے مدینہ تک
(امجد اسلام امجد نے یہ کالم ایکسپریس کے لیے 4 فروری 2023 کو تحریر کیا جو 5 فروری کو شائع ہوا۔ بدقسمتی سے یہ ان کا آخری کالم ثابت ہوا۔ ان کی یاد میں یہ کالم دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے)
ہمارے قافلے کے تین مسافر یعنی میں، میری بیگم فردوس اور بیٹا علی ذی شان امجد اس سے قبل بھی کم یا زیادہ بار اس سعادت سے بہرہ مند ہو چکے تھے لیکن میری بہو رابعہ اور پوتوں ابراہیم اور موسیٰ کے لیے یہ پہلا موقع تھا۔
مجھے رش دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم سب کا ایک ساتھ سارے فرائض کو ادا کرنا میری اس وقتی مگر عملی مجبوری کی وجہ سے بہت مشکل ہو گا کہ میری وجہ سے باقی سب لوگوں کو بھی مختلف طرح کے مسائل سے گزرنا پڑے گا۔ سو، میں نے کوشش کی کہ ویل چیئر کے ذریعے ہی طواف اور سعی کی منازل طے کی جائیں تاکہ بچے ان بابرکت لمحوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں لیکن مدینہ روانگی سے ایک رات قبل طریقہ کار میں تبدیلی پیدا کی گئی کہ علی اور رابعہ ایک مزید عمرہ کرنا چاہتے تھے۔
سو، طے ہوا کہ وہ ہم لوگوں کو اس دوسری منزل پر جہاں سے ویل چیئرز کو گزارا جاتا تھا، ایک ایسی جگہ چھوڑ دیں جہاں سے خانہ کعبہ بالکل اور پورے کا پورا سامنے ہو۔ میں ویل چیئر پر اور بچے میرے ساتھ وہاں موجود اسٹولز پر بیٹھ کر عبادت کر سکیں۔
سو، ایسا ہی ہوا اور عبادات اور دعاؤں کے ساتھ مجھے زیادہ تر احباب کے لیے نام بنام اور باقیوں کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا وقت مل گیا اور اس کے ساتھ ہی رب کریم نے مجھے یہ توفیق بھی عنایت کی کہ میں ان سب لوگوں کے لیے بھی اپنی طرف سے معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی مغفرت کے لیے بھی دعائیں کر سکوں جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں کبھی نہ کبھی میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی کہ دل میں بار بار وہ آیت گونج رہی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ بدلہ لینا تمہارا حق ہے لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے۔
مجھے یاد آیا کہ سب سے پہلے عمرے کے موقع پر عمرے اور تہجد سے فراغت کے بعد ہم لوگ فجر کی نماز کے انتظار میں تھے اور اس چھوٹے سے وقفے میں قرۃ العین حیدر، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور میں نے رب کریم کی عظمت اور خانہ کعبہ سے اس کی تمثالی نسبت کے بارے میں ایسی عمدہ اور انوکھی گفتگو کی تھی جس کو کبھی دہرانے کا موقع نہیں ملا۔
اس بار پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ حرم کے صحن میں صرف احرام میں ملبوس زائرین عمرہ کو داخل ہونے کی اجازت تھی، باقی سب مقامی یا عام کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو نماز کے لیے دوسری منزل پر جانا پڑتا تھا۔ یہ اصول غالباً اس لیے وضع کیا گیا کہ اب سارا سال عمرے والوں کا رش لگا رہتا ہے اور انھیں صحن حرم میں طواف کے لیے جانے کا رستہ بہت مشکل سے ملتا تھا، خواتین البتہ بوجوہ اس شرط سے آزاد تھیں۔
ہمارا ہوٹل Fairmont ہر اعتبار سے اچھا اور حرم سے قریب تر تھا مگر لفٹوں کا نظام اچھے بھلے پڑھے لکھے آدمی کو چکرا دیتا تھا کہ آپ کو اپنے کمرے تک پہنچنے کے لیے دو دو لفٹیں بدلنا پڑتی تھیں اور اس پہلی لفٹ تک رسائی اپنی جگہ ایک مسئلہ تھی کہ وہاں لفٹوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کم پڑھے لکھے یا فائیو سٹار ہوٹلوں کے آداب اور طریقوں سے ناواقف لوگ کیسے اس صورت حال سے نباہ کرتے ہیں۔
’’میزاب‘‘ کے نمائندے عزیزی احمد نے اپنی نوکری سے بھی زیادہ ہمارا خیال رکھا اور آمد کے لمحے سے لے کر وہاں سے رخصت کی گھڑی تک ایک کال پر موجود رہا۔ 31 جنوری کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہم نے اپنی کمپنی کی بھجوائی ہوئی گاڑی پر اپنا سامان رکھا اور احمد کو خدا حافظ کہہ کر دیارِ نبی کی طرف روانہ ہوئے۔ ڈرائیور ذوالفقار نے بتایا کہ سفر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہو گا۔
سابقہ تجربات کی نسبت اس بار راستے میں کوئی کچا پکا پٹھان ہوٹل نہیں ملا بلکہ ہماری موٹروے کی طرح مختلف طرح کے سروس ایریاز میں تمام مطلوبہ سہولیات مہیا کر دی گئی ہیں البتہ غالباً کرایوں کی زیادتی اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے وہ پرانے ہوٹل کہیں نظر نہیں آئے۔ مدینہ منورہ میں ہوٹل Movin Pick کے دروازے پر وہاں کا نمائندہ عزیزی علی عباس ہمارا منتظر تھا۔ بکنگ کے مراحل ایڈوانس میں مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے اچھا کام اس نے یہ کیا کہ دونوں کمرے ساتھ ساتھ کے لیے جو اندر سے ایک بھی کیے جا سکتے تھے۔
معلوم ہوا کہ مسجد نبوی میں بھی اس بار کچھ قوانین بنا لیے گئے ہیں کہ ’’ریاض الجنہ‘‘ میں داخلے اور مختصر قیام کے لیے آپ کو موبائل App پر بکنگ کرانا پڑتی ہے جو پاکستانیوں کو خاص طور پر اس لیے بہت کم مل پاتی ہے کہ زیادہ تر ملکوں کے زائرین ویزے کے ساتھ ہی یہ بکنگ کرا لیتے ہیں اور کئی ہفتے ایڈوانس ہونے کی وجہ سے یہ انھیں مل بھی جاتی ہے جب کہ ہم سفر سے ایک دو دن قبل اس کے لیے کوشش کرتے ہیں اور چونکہ ہمارے زیادہ تر زائرین موبائل App سے آشنا بھی نہیں ہوتے اس لیے بمشکل پانچ فیصد لوگ اس میں کامیاب ہو پاتے ہیں جب کہ خواتین کا تناسب تقریباً صفر ہے۔
سو، میں اور علی تو ہو آئے مگر فردوس اور رابعہ کو داخلہ نہ مل سکا۔ فردوس تو چار پانچ دفعہ اس سعادت سے بہرہ ور ہو چکی ہے اس لیے اس کے لیے تو صبر کرنا ممکن تھا مگر رابعہ بے چاری تو پہلی بار آئی تھی اور وہ بھی یوں کہ پتہ نہیں دوبارہ موقع ملے یا نہ ملے۔ ظاہر ہے یہ المیہ اور بھی بہت سی خواتین کا ہو گا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اگر عورتوں کو مردوں کے برابر بھی موقع دیا جائے تب بھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ دو ہزار خواتین ’’ریاض الجنہ‘‘ کی زیارت کر سکتی ہیں۔
جب ایک محتاط اندازے کے مطابق عام دنوں میں روزانہ تقریباً بیس ہزار خواتین ایک طرح کے روحانی صدمے سے گزرتی ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی حل فی الحال سمجھ میں نہیں آ رہا مگر ہونا ضرور چاہیے کہ ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے زائرین کے لیے یہ محرومی بہت ہی دل شکن ہے۔
مدینہ منورہ میں حسب معمول برادرم ڈاکٹر خالد عباس اسدی سے خوب ملاقات رہی۔ ان کی فیملی کے ساتھ ہم سب نے لنچ بھی کیا اور ریاض الجنہ کی زیارت کے موقع پر بھی وہ میرے اور علی کے ساتھ تھے۔ ان سے مل کر ہمیشہ دلی خوشی ہوتی ہے کہ وہ 40 برس سے اس بابرکت شہر کے مکین ہیں اور دل و جان سے اپنی اور اپنے اہل وطن کی خدمت کرتے ہیں۔
٭٭٭
منیر نیازی اور پروین شاکر
جہاں 25 دسمبر کرسمس کے حوالے سے عالمی اور قائد اعظم کے یوم پیدائش کے حوالے سے ہماری قومی تاریخ کے یادگار دنوں میں سے ہے وہاں اس سے اگلا دن یعنی 26 دسمبر جدید اُردو شاعری کے دو اہم ترین ناموں کا یوم وداع بھی ہے کہ برسوں کے فرق سے قطع نظر اسی دن منیر نیازی اور پروین شاکر جسمانی طور پر ہمارے درمیان سے اُٹھ گئے منیر نیاز ی نے گزشتہ صدی کی پانچویں اور پروین شاکر نے ساتویں دہائی میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور دونوں نے ایسے منفرد اور دیرپا نقوش چھوڑے کہ اب ان کے نمایاں ذکر کے بغیر پاکستانی شعر و ادب کی تاریخ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا خوش قسمتی سے مجھے ان دونوں غیر معمولی انسانوں کے ساتھ نہ صرف بہت سا وقت گزارنے اور سفر کرنے کا موقع ملا ہے بلکہ ذاتی دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اُن کی شخصیات کو بھی بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔
منیر نیازی رہے تو بیسویں صدی میں مگر اُن کا مزاج، طبیعت اور شعرو ادب سے وابستگی کلاسیکی شعرا جیسی تھی جو ہمہ وقتی شاعر ہوا کرتے تھے اور عام طور پر شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تھے دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ وہ شاعری کرتے ہی نہیں بلکہ اسی میں liveبھی کرتے تھے یعنی یہی اُن کا passion بھی تھا اور ایک طرح سے profession بھی کہ انھوں نے عمر بھر اول تو کوئی کام لگ کر کیا ہی نہیں اور جو جزوی کام، ملازمتیں یا کاروبار کیے وہ بھی کسی نہ کسی طرح اسی شعبے سے متعلق تھے ان کی شاعری کی طرح اُن کی شخصیت بھی بیک وقت خوشنما، دلکش، حیران کن اور پراسرار تھی جب وہ اپنی گہری آواز میں اپنے مخصوص انداز میں سرکو جنبش دیتے ہوئے شعر پڑھتے تھے تو سارا مشاعرہ جیسے اُن کے گرد گھومنے لگتا تھا ان کی نظموں کے مخصوص استعارے، زبان جادوگری اور اختصار ایک جادو کی طرح پورے ماحول پر چھا جاتے تھے ان کی مشہورِ زمانہ نظم ’’محبت اب نہیں ہو گی‘‘ میری اس بات کی روشن دلیل کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ستارے جو دمکتے ہیں کسی کی چشمِ حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمالِ ابر و باراں میں
یہ نا آباد رستوں میں دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ اُن کی یاد میں ہو گی
ایک اور مختصر نظم ’’کچھ باتیں ان کہی رہنے دو‘‘ کچھ اس طرح جادو جگاتی ہے کہ،
کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو
کچھ باتیں اَن سُنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا
سب باتیں اُس کی سُن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
ایک رنگیں اَن بنی دنیا پر
اک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو
اور اب چند غزل کے شعر بھی:
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جو اب کیا دیتے
………
چمن میں رنگِ بہار اُترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اُترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اُترا تو میں نے دیکھا
اب جہاں تک پروین شاکر کا تعلق ہے اس کی نظمیں بھی اپنی انفرادیت، موضوعات اور ٹریٹ منٹ کی وجہ سے بہت اہمیت کی حاملِ ہیں مگر چونکہ انھیں زیادہ تر غزل کی شاعرہ کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے اس لیے میں اُس کے ذکر اور یاد کو اس کی غزلیہ شاعری تک ہی محدود رکھتا ہوں 42 سال کی مختصر زندگی کے باوجود جب ہم اُس کے کلیات ’’ماہِ کمال‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اتنے کم عرصے میں معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے ایسا باکمال مجموعہ کیسے ترتیب دے دیا۔
میری ذاتی رائے میں جس مہذب اور معتدل انداز میں اس نے تانیثیت کے موضوع پر لکھا وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے اور آج بھی اُردو خواتین کی شاعری کے محیط میں وہ ایک سنگِ میل کی طرح دیکھی جاتی ہے آج کے دور میں جن شعرا کے اشعار بہت کثرت سے دہرائے جاتے ہیں اُن میں یقیناً پروین کا شمار پہلی صف میں ہوتا ہے اس وقت جو چند شعر مجھے فوری طور پر یاد آ رہے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت کے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
………
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
………
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھی ہوا سے مری دشمنی رہی
………
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
………
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون!
………
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
………
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
………
پا بہ گِل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست پستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون
………
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
………
چُوم گر پھول کو آہستہ سے
معجزہ بادِ صبا کرتی ہے
………
ابر برسے تو عنایت اُس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
٭٭٭
فقیری باتیں
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا نام پہلی بار جب میری نظر سے گزرا اس وقت میری عمر بارہ تیرہ برس تھی اور میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے ہمسائے آقا بیدار بخت صاحب کے گھر پر روزانہ بہت سی ڈاک آتی تھی جس میں سے رسائل وغیرہ پڑھنے کی آزادی انھوں نے مجھے دے رکھی تھی انھی رسالوں میں پہلی بار ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی زیر ادارت شایع ہونے والے ماہنامے ’’پنجابی‘‘ میں پہلی بار مجھے اپنی ماں بولی کو تحریری شکل میں دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ تجربہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ پر لطف بھی تھا کہ اردو فارسی یا شاہ مکھی اسکرپٹ میں لکھے گئے پنجابی کے الفاظ پہلی نظر میں کچھ کے کچھ پڑھے جاتے تھے۔
ذرا بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ پنجابی کی صوفی شاعری اپنی جگہ پر ایک جہان دیگر ہے اور یہ کہ اس کی جدید ترین شکلیں میاں محمد صاحب کی سیف الملوک اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں ہیں جن کا زمانہ تصنیف بیسویں صدی کے آغاز کو چھو رہا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کو شروع ہوئے اٹھارہ برس ہو چلے ہیں مگر اب بھی پنجابی زبان کے آخری دو سب سے بڑے شاعر یہی محترم حضرات ہیں کہ ان کے بعد اہم اور عمدہ شعرا تو خاصی تعداد میں ہیں لیکن ’’عظمت‘‘ والا سلسلہ وہیں رکا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ فی زمانہ جن لوگوں نے اس پرچم کو بلند کر رکھا ہے ان میں سے اہم ترین نام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا ہے کہ جو بلند مرتبہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، نقاد، مدیر، ماہر لسانیات اور زبان کے حوالے سے پنجابی تہذیب اور روایت کے ایک ان تھک نمائندہ اور سیوک بھی ہیں اور اسی رعایت سے انھیں ’’بابائے پنجابی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے میرا دوسرا تعارف کوئی تیس برس بعد ان کے نواسوں عزیزی سہیل احمد اور پرویز جنید اکرم کی معرفت ہوا کہ یہ دونوں میرے دل سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے فن کے ماہر بھی ہیں۔ اتنا تو مجھے علم تھا کہ ہمارے دوست ڈاکٹر مجاہد کامران (سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) نے زبان و ادب کی سرپرستی کے لیے اوری اینٹل کالج لاہور میں ریسرچ کے حوالے سے بہت سے ادارے اور چئیرز قائم کی ہیں جن میں سے ایک بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نام سے بھی ہے اور یہ بھی پتہ چلا تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے نواسے اور پنجابی کے شاعر اور ادیب پروفیسر جنید اکرم کو اس ادارے میں بطور ریسرچ اسکالر ایک پوسٹ بھی دی ہے لیکن ان کے کام اور اس ادارے کی پیش رفت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔
سو ایسے میں جب گزشتہ دنوں ایک ساتھ اس کی تین مطبوعات ’’فقیر نامے‘‘ ’’ساڈی ڈاک‘‘ اور سنگی (گمشدہ مثنوی) ملیں تو بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ تینوں کتابوں میں تحقیق کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے تاریخی اعتبار سے ایسی مستند اور اہم معلومات سامنے آئیں جو بیک وقت چشم کشا بھی ہیں اور حوصلہ افزا بھی۔ ان کتابوں کے مندرجات پر کوئی بات کرنے سے قبل اس بات کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے کہ وطن عزیز کے طول و عرض میں بولی جانے والی سب نمائندہ زبانیں اسی ترقی اور سرپرستی کی اہل اور حق دار ہیں جس کا اہتمام ہم اپنی قومی اور رابطے کی زبان یعنی اردو کے لیے کرتے ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ معاملہ مقابلے یا ترجیح کا نہیں بلکہ بنیادی حقوق کا ہے اور یوں بھی ان زبانوں کے ساتھ اردو کے لسانی، رسم الخطی، تہذیبی اور تاریخی روابط ایسے ہیں جیسے یہ کسی ایک ہی خاندان کے مختلف افراد ہوں یعنی دیگر پاکستانی زبانوں سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو اور ان کی ہم زاد سرائیکی، براہوی اور ہندکو وغیرہ کی انفرادی حیثیت کے باوجود ان کے مشترکہ عناصر اس قدر زیادہ ہیں کہ اردو سمیت کسی ایک زبان سے واقفیت ہمیں خود بخود باقی زبانوں کے قریب تر لے جاتی ہے جب کہ تاریخی اور لسانی حوالوں سے پنجابی زبان کا اسٹرکچر اردو سے اور بھی زیادہ ملتا جلتا ہے یوں کسی بھی زبان کی ترقی در اصل ان روابط کی ترقی ہے جو ہماری تمام زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر سے متعلق ان تینوں کتابوں میں بھی یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ کسی بھی زبان کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور بحالی کے لیے کی جانے والی کوئی بھی کوشش آخری تجزیے میں ہماری رہنمائی ایک ایسے اتفاق اور افہام و تفہیم کی طرف کرتے ہیں جس کی بنیاد باہمی محبت احترام اور انصاف پر قائم ہے اور جو لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی پنجابی زبان سے محبت کس طرح اردو کی محبت کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، اس کے مظاہر ہمیں ’’فقیر نامے‘‘ میں شامل خطوط میں جا بجا ملتے ہیں کہ بہت سے خط لکھے ہی اردو میں گئے ہیں اور ان کے موضوعات میں ڈاکٹر صاحب کی لسانی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور باہمی اشتراک کی فضا جگہ جگہ جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ سکہ بند اردو ادیبوں مولانا غلام رسول مہر اور ایم ڈی تاثیر کو پنجابی میں لکھنے پر آمادہ کرنے کے لیے بات کرتے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے ان کی مراد دونوں زبانوں میں مقابلے اور موازنے کے بجائے وہ دوستی اور بھائی چارہ ہے جو اپنے اظہار کے لیے اسکرپٹ اور لہجے سے بالاتر ہو کر ان جذبوں اور آدرشوں کی بات کرتا ہے جو ہم سب کا مشترکہ ورثہ اور سرمایہ ہیں۔ قارئین کے مطالعے میں سہولت کی غرض سے میں صرف ان خطوط سے مثالیں دے رہا ہوں جو اردو میں ہی لکھے گئے تھے۔
’’پنجابی ادبی اکیڈمی‘‘ نے ایک کتاب ’’پنجابی قصے فارسی زبان میں‘‘ چھاپی ہے، یہ اکیڈمی کی پہلی کتاب ہے دوسری کتاب ’’دیوان غنیمت‘‘ چھپ رہی ہے اور تیسری کتاب ’’بلھے شاہ‘‘ کی کافیاں پورا کلام اور ایک میرا تنقیدی اور تاریخی نوٹ 300 صفحے کے ساتھ چھپ رہی ہے۔ انشاء اللہ تیاری پر یہ بھی بھجوائیں گے۔
’’سیاسیات حاضرہ اور درس و تدریس‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر محمد باقر کی ایک تقریر کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں ’’ڈاکٹر صاحب نے اپنا مقالہ پڑھنا شروع کیا جس کی ذہنی فکری اور تجرباتی اہمیت نے مجھے دوسروں کی طرح اپنی طرف متوجہ کر کے اپنے آخری الفاظ تک سختی سے پابند کر لیا۔ سبحان اللہ کیا مقالہ تھا، ڈاکٹر صاحب موصوف اس ادا سے حاضرین اور وقت پر ایسے چھائے رہے کہ کسی کو ان کے چہرے کی طرف سے نظر ہٹانے کی تاب نہ رہی‘‘ لیکن جنید اکرم اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ریسرچ سینٹر کا سب سے بڑا کارنامہ 594 صفحات پر مشتمل ان کی ایک مثنوی ’’سنگی‘‘ کی دریافت، تدوین اور اشاعت ہے۔
جس کا دیباچہ اس وقت کے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری سر شہاب الدین نے 7 اکتوبر 1939 کو ’’پن چھان‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا مگر اس کتاب اور اس دیباچے کو عملی طور پر اشاعت کی توفیق تقریباً آٹھ دہائیاں بعد نصیب ہوئی کہ اس کا مسودہ بوجوہ ایسا گم ہوا کہ اگر جنید اکرم دیوانوں کی طرح اس کی تلاش میں نہ لگا رہتا تو شاید یہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتا۔ یہ مثنوی میاں محمد کی سیف الملوک کی بحر میں لکھی گئی ہے اور اس میں لوک دانش اور جدید علوم سے حاصل کردہ دانش کو آپس میں اس طرح سے یک جان کر دیا گیا ہے کہ یہ شاعری اب ایک پورے دور کی ترجمان بن گئی ہے۔
دنیا بھر کی یونیورسٹیوں ان کی مختلف چیئرز اور اشاعتی اداروں میں تاریخ اور تحقیق پر جو خصوصی توجہ دی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسی کی بنیاد پر ان کی علمی عظمت کا وہ ڈھانچہ استوار ہوتا ہے جو آگے چل کر ان کی پہچان بن جاتا ہے۔ یہ بہت خوش آیند بات ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے بھی وقت کی اس اہم ضرورت کو محسوس کیا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ ہماری دیگر یونیورسٹیوں میں بھی زبان و ادب اور تہذیب و تاریخ کے حوالے سے اسی طرح کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ مشترکہ عناصر زیادہ گہرائی اور وضاحت کے ساتھ کھل کر سامنے آ سکیں جن کے باہمی تعامل سے ہم ایک معاشرے اور قوم کی وہ شکل اختیار کر سکتے ہیں کہ جس میں ماضی حال اور مستقبل ایک ہی سلسلے کی لڑیاں بن جائیں اور ہماری تمام مقامی تہذیبیں اور زبانیں ہم سب کے ایسے مشترکہ خدوخال کی صورت اختیار کریں جو ہمارے عکس کی ترجمان بھی ہو اور ہمارے خوابوں کی نگہبان بھی۔
٭٭٭
قائم نقوی اور اختر شمار
اس کالم کو ہونا تو حالیہ دورۂ امریکا کے احوال کی چوتھی قسط تھا مگر درمیان میں دو خبریں ایسی آ گئیں کہ اس سلسلے کو وقتی طور پر روکنا پڑ رہا ہے۔ قائم نقوی اور اختر شمار عہدِ حاضر کے دو نمایندہ شاعر ہی نہیں بلکہ قریبی احباب بھی تھے کہ جن سے تعلقات کا عرصہ تین سے چار دہائیوں تک پھیلا ہوا تھا۔
میں چونکہ خود امریکا سے واپسی پر کورونا کی دوسری اننگز بھگت رہا ہوں اس لیئے نہ تو ان کے جنازوں میں شامل ہو سکا اور نہ ہی ان کی رحلت کی تفصیلات سے آگاہی ہو سکی، ایک دو دوستوں کے فون اور فیس بک سے اس قدر ہی پتہ چل سکا کہ قائم نقوی ریڈیو پاکستان میں کربلا کے حوالے سے کوئی ریکارڈنگ کروا کے دوستوں کے ساتھ ریڈیو کی کینٹین میں چائے پینے کے لیئے گئے اور وہیں دیکھتے ہی دیکھتے یکدم عالمِ بالا کو روانہ ہو گئے یہ تو علم تھا کہ اُن کی صحت کے کچھ مسائل چل رہے ہیں مگر اُن کی عمومی صحت اور طبیعت کی خوش مزاجی دیکھ کر قطعاً یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس قدر زیادہ بیمار ہیں۔
قائم نقوی لاہور کی ادبی زندگی کا ایک اہم کردار تھے برسوں وہ سرکاری ادبی مجّلیٰ ’’ماہِ نو‘‘ کے اسسٹنٹ اور پھر ایڈیٹر رہے، حلقہ اربابِ ذوق کی سیاست میں بھی وہ اور اُن کے ساتھی بہت نمایاں رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ ایک ادبی رسالہ نکال کر ادب سے اپنی محبت اور کمٹ منٹ کا ثبوت دے رہے تھے شاعری میں وہ غزل اور غزل کی روایت کے دلدادہ تھے عام طور پر چھوٹی بحروں میں بہت ڈھنگ سے شعر کہتے تھے، اپنے مزاج کی طرح شاعری میں بھی وہ دھیمی لَے میں بات کرتے تھے اور اُن کی بیشتر شاعری روحِ عصر کی ترجمان نظر آتی ہے البتہ کہیں کہیں وہ زندگی کے بنیادی سوالوں کو تصوف کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
کیا کوئی دے سکے پتہ میرا
بھید مجھ پر بھی کب کُھلا میرا
ریزہ ریزہ ہوئے ہیں خواب میرے
پھر بھی قائم ہے حوصلہ میرا
کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں
میں ہر چہرے میں تجھ کو ڈھونڈتا ہوں
جہاں انسان پتھر ہو چکے ہیں
میں اُس بستی میں کیسے جی رہا ہوں
جہاں سے کل مجھے کاٹا گیا تھا
وہیں سے آج میں پھر اُگ رہا ہوں
…………
ہمارا قتل ہوا دفتروں کی کربل میں
ہم اپنے نقش فقط فائلوں میں ڈھونڈتے ہیں
…………
بارشوں کی زد میں آ کر ڈھہہ گئے کچے مکاں
اور تھوڑی دیر کو موسم سہانا ہو گیا
…………
باہر اندر عذاب ہے قائم
ہم نے کیا کیا عذاب دیکھے ہیں
اختر شمار جنوبی پنجاب کی شاعر خیز فضا میں ہوش سنبھالنے کے بعد جب چند برس قبل لاہور آئے تو ان کے مزید جوہر کھلنا شروع ہوئے بہت برسوں تک انھوں نے تازہ ادبی خبروں پر مشتمل خبرنامہ حیرت انگیز کامیابی اور سلیقے کے ساتھ چلایا اور اپنے آپ کو ہر ممکن لوکل سیاسی جھگڑوں اور اختلافات سے الگ رکھتے ہوئے ایک اچھے ایڈیٹر کا حق ادا کیا۔ تعلیمی و تدریسی میدان میں بھی وہ ہمہ دم کچھ نہ کچھ کرتے نظر آئے۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں بھی کچھ برس خدمات سر انجام دیں اور آج کل ایف سی کالج کے صدر شعبہ اردو کے طور پر کام کر رہے تھے۔
اُن کا شعر گوئی کا ایک اپنا مزاج اور انداز تھا۔ اپنی خوش قامتی، خوش لباسی اور خوش وضعی سے وہ ہمیں محفل میں نمایاں نظر آتے اُن سے اور اُن کی شاعری سے ملاقات ہمیشہ ہی ایک خوش کن تجربہ رہی۔ وہ احترام کرنا اور کروانا دونوں کے گر جانتے تھے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں انھیں بہت عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ان کے بہت سے اشعار بھی نئی نسل کے پسندیدہ اور مرغوب تھے اور وہ مسلسل ان میں اضافہ بھی کرتے رہتے تھے آیئے ان کے جستہ جستہ اشعار سے اُن کو یاد کرتے ہیں۔
بعد مرنے کے میں کھلا اُس پر
ایک دلچسپ انتظار تھا میں
…………
ابھی سفر میں کوئی موڑ بھی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون
…………
اَبر کی سمت بہ اندازِ صدف دیکھتے ہیں
غم کے مارے ہیں فقط تیری طرف دیکھتے ہیں
…………
میرے معیار کا تقاضا ہے
میرا دشمن بھی خاندانی ہو
…………
اُس کے نزدیک غم ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ رہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گِلا کچھ بھی نہیں
…………
اک ستارے کی رفاقت جو میسّر ہوتی
یہ جو گردش ہے مرے پاؤں کی ٹھوکر ہوتی
…………
ہمارے پاس اک لمحہ نہیں ہے
اُسے فرصت ہی فرصت ہے کریں کیا
ہم اُس سے بچ کے چلنا چاہتے ہیں
مگر وہ خوب صورت ہے کریں کیا!
٭٭
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس اردو)
٭٭٭