اس بار مجھے امید کم تھی کہ یہ شمارہ وقت پر نکل سکے گا، لیکن الحمد للہ، وقت کے خلاف اس دوڑ میں کامیابی حاصل ہوئی، اور یہ شمارہ وقت پر آپ کی نظروں میں پہنچ رہا ہے۔ اس کی وجہ تو ذاتی تھی، لیکن واقعی بہت اہم بلکہ عہد ساز۔ وہ یہ کہ مارچ کی ۱۳ تاریخ کو میں امریکہ ہجرت کر کے آ چکا ہوں۔ اگرچہ وطن سے تعلق تو کافی حد تک باقی ہے، لیکن وطن سے رخصتی اور وطنِ نو میں سیٹل ہو جانا، اور پھر رمضان کے مبارک ماہ کی آمد اور اس کے اپنے اوقات کار!! بہر حال۔
سَمت کی ایک انفرادیت اس کے ضخیم گوشے بھی درست طور پر مانے جاتے ہیں لیکن ایک عرصے سے یہ گوشے محض یاد رفتگاں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ زندہ ادیبوں پر گوشوں کا ارادہ کرتا بھی ہوں تو رفتگاں کی روحیں دامن پکڑ لیتی ہیں۔ خالد حیدر، مرتب ’امروز‘ علی گڑھ نے تازہ شمارے میں یہ شعر اپنے ادارئے میں لکھا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسی کو یہاں بھی آپ کے ساتھ ساجھا کروں:
کہانی ختم ہوئی، اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
تو یہ فریضہ اس بار بھی انجام دیا گیا ہے، اور نتیجے کے طور پر کچھ دائمی سلسلے روک دینے پڑے، جن کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ مثلاً قیصر نذیر خاور جو اپنے ترجموں کے لئے ہی جانے جاتے رہے ہیں، ان کے تین ترجمے شامل کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ’گاہے گاہے باز خواں‘ کے تحت بھی اجمل کمال کا ایک ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لئے ’مانگے کا اجالا‘ کے تحت ترجموں کے شمول کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
یاد رفتگاں کے تحت امجد اسلام امجدؔ کو یاد کیا گیا ہے جو بیک وقت اپنی شاعری، ڈراموں اور کالموں کے لئے مشہور تھے۔ (ان کی نعت کو ’عقیدت‘ کے گوشے میں ہی شامل کیا گیا ہے) ہندوستان کے دو بڑے ہندوستانی افسانہ نگار شموئل احمد اور ابن کنول بھی داغ مفارقت دے گئے، ان کی بھی مختلف انواع کی تخلیقات شامل شمارہ ہیں۔ پاکستان کے قیصر نذیر خاور کے علاوہ آواز کی دنیا کے شاہ ضیاء محی الدین کی جدائی کا زخم بھی کاری ہے۔ ان کی آواز تو شمارے میں شامل نہیں کی جا سکتی، لیکن ان کا ایک مضمون ضرور مل سکا جسے ان کی یاد میں زینتِ شمارہ کیا گیا ہے۔
اردو صحافت کی دو صدیاں گزر چکی ہیں، اور دوسری صدی کی تقریبات منائی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں دو مضامین بھی شامل اشاعت ہیں۔
سرورق کی تصویر مریم تسلیم کیانی کی بنائی ہوئی ہے اور ان کے شکرئے کے ساتھ شامل کی گئی ہے۔
امید ہے کہ یہ شمارہ آپ کو پسند آئے گا۔
ا۔ ع۔