دھیان کی حد سے باہر جو تھا صرف سُنا خاموشی نے
جیون کی مُٹھی میں کیا ہے جان لیا خاموشی نے
آوازوں نے تنہائی میں شور بھرا اور لوٹ گئیں
دیر تلک پھر میرے جی کو بہلایا خاموشی نے
شبد نگر کی رانی تھی وہ نظم کی آنکھ کا تارا تھی
ہائے وہ جس کے دل کا رستہ دیکھ لیا خاموشی نے
ہریالی کا آخری منظر جب پیڑوں پر سُوکھ گیا
ویرانی نے پاؤں پسارے رقص کیا خاموشی نے
خیر ہو اُن اچھے لوگوں کی جن کے دل ہرجائی تھے
جن کا بھرم سلامت رکھا اک ٹکڑا خاموشی نے
دھرتی پر سنگیت کا جادو کب کھِلنا تھا لیکن پھر
دو آوازوں کے وقفے میں پاؤں دھرا خاموشی نے
سناٹے نے اُجڑے گھر سے صرف آواز اٹھائی تھی
لیکن کہنہ دیواروں میں بھید بھرا خاموشی نے
٭٭٭
چُپ کی مٹی گوندھ گوندھ کر بھید بھری آواز بنانا کھیل نہیں
لفظوں سے سرگم سُلگانا اور سرگم سے گیت اٹھانا کھیل نہیں
جیسے تیسے اک نقطے پر دھرتی اور امبر کو لانا پڑتا ہے
بادل سے برسات بنانا اور سوکھے پر جَل برسانا کھیل نہیں
دیکھ مسافر عمریں لگ جاتی ہیں ایسے منتر جادو سیکھنے میں
پانی میں اک آگ لگانا الٹے رخ پر ناؤ چلانا کھیل نہیں
عشق، عبادت، نظم، تمہارا خواب، مجھے سب باری باری کہتے ہیں
صحرا میں اک پیڑ لگانا سُونے دل میں پریت کھلانا کھیل نہیں
آتش، سُولی، زہر پیالہ، لوگ ترے انکار کی قیمت کیا جانیں
سچ کی خاطر جان لُٹانا اپنا جیون آپ مٹانا کھیل نہیں
سُکھ کی تتلی بنجر، مردہ، سوکھی ڈال سے رہ رہ کر اُڑ جاتی ہے
روٹھی رُت کو روز منانا گھڑ لینا اک نیا بہانہ کھیل نہیں
٭٭٭