’’پر ہوا کے ‘‘ اور ’’در سحاب‘‘ کے بعد ’’فشار ریگ‘‘ انور سلیم کا تیسرا مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعے میں شامل نظمیں، غزلیں اور دیگر تخلیقات اگر ہم رک رک کر پڑھیں تو احساس ہوتا ہے ہماری آنکھ کچھ ان دیکھے مناظر دیکھ رہی ہے۔ ہماری شاعری اور شاعری ہی نہیں ہر صنف ادب میں ایک تقلیدی رویہ در آیا ہے۔ انور سلیم کی شاعری میں ہمیں یہ بات نظر نہیں آتی۔ انور سلیم نے کلاسیکی اردو شاعری کے علاوہ انگریزی اور ہندی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے لیکن ان کے ہاں قدیم ازکار رفتہ موضوعات کی پرچھائیاں ہیں نہ رومانوی تحریک اور نہ ترقی پسندی کے محجر نقوش اور نہ ہی فیشن زدہ جدیدیت۔ جس طرح فطرت اپنی صناعی میں ہر پتھر، پیڑ، صحرا، وادی، جنگل، بادل، آسمان کے رنگوں میں کہیں اپنے آپ کو نہیں دہراتی، تخلیقیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر فن پارہ اپنی الگ شناخت اپنے علحدہ خد و خال رکھے۔ مشابہت کی بات اور ہے۔ پڑھتے پڑھتے ہمیں متقدمین یا کچھ پیش روؤں کی یاد آ جائے تو یہ ہماری مشرقی روایت کا تسلسل ہے جو ماضی کو لمحہ حال اور حال کو مستقبل کے امکانات سے جوڑتا ہے۔
تقلیدی رجحان سے بیگانگی اور اجنبیت کے احساس نے انور سلیم کو وہ لہجہ عطا کیا جس میں شخصی واردات، جذبات اور خارجی واقعات موجودہ عصری سطح پر ایک منفرد اسلوب میں نقش و نگار بناتے ہیں۔
مجھے انور سلیم کی صفر نظموں میں ایک خاص دلکشی نظر آئی۔ مجھے یہ نظمیں پڑھتے ہوئے لگا کہ ایک سایہ، ایک پرچھائیں سی ذہن و دل کے دو دروازوں کے درمیان چلتے چلتے رک سی گئی ہے اور اس کے جادوئی اثر سے یہ دروازے خود ہی کھلنے لگے ہیں۔ ایک پنچھی ہے ہوا کا جو کبھی ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے دوسرے دروازے سے باہر آتا ہے تو کبھی اس ترتیب کو بدل دیتا ہے۔ ہر بار پر ہوا کے جھونکے ایک نئی خوشبو لاتے ہیں جو کبھی ذہن کو معطر کرتی ہے، کبھی دل کو، تو کبھی ذہن و دل دونوں کو۔
انور سلیم کو اپنے مجموعے کا نام ’’فشار ریگ‘‘ رکھنے کا خیال اپنے اس شعر سے آیا ہو گا؎
سفر میں ہم سفر کی شکل ساتھ میں سراب ہے
فشار ریگ سے امید جوئے آب، خواب ہے
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں تثلیث کی کارفرمائی ہے اور دوسرا مصرعہ پہلے مصرعہ کا ہو بہو عکس ہے۔ کیا سفر فشار ریگ نہیں؟ ہم سفر کی شکل کی آرزو امید جوئے آب نہیں؟ اور خواب اگر سراب نہیں تو کیا ہے۔ یوں ان کی صفر نظموں کے سائے ان کی غزلوں میں بھی ملتے ہیں۔ لیکن یہ غزلیں یک رخی نہیں۔ چند مثالیں پیش کر رہا ہوں ؎
ترے بغیر بھی فلک کی وسعتوں کی ہے سمجھ
اڑان میں مزہ نہیں تو ساتھ میرا چھوڑ دے
ہمیں پتہ ہے یہ پتھر کہاں سے آئے ہیں
خوشی سے ایسے کئی زخم ہم نے کھائے ہیں
تجھ سے ملنے کو میں دیوار گراتا ہوں مگر
تو نہ ہو گر پس دیوار تو پھر کیا ہو گا
مجھے امید ہے کہ ’’فشار ریگ‘‘ کی یہ شاعری ادبی حلقوں میں اپنی جداگانہ پہچان بنانے میں کامیاب ہو سکے گی۔
٭٭٭