تلمیحاتِ سیفی فرید آبادی (غزلیات کے تناظر میں)۔۔۔ عامر صدیقی

حیات سیفی فریدآبادی

آپ کا اصل نام علامہ سید مکرم علی شاہ نقوی ہے۔ آپ نومبر 1894ء بمقام فریدآباد، ضلع گڑ گاواں، مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حکیم سید امتیاز علی چشتی صابری المتخلص سیماب متھراوی اپنے دور کے مشہور بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ دیوبند فریدآباد میں پائی، بعد ازاں مدرسہ قادریہ بدایوں پھر پنجاب یونیورسٹی اور علیگڑھ یونیورسٹی سے مختلف ڈگریاں حاصل کیں۔ شعر گوئی میں آپ کو ابتدا شرف تلمذ اپنے والد سے رہا جو رسا رامپوری کے شاگرد تھے بعد ازاں آپ خود بھی ان کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔ عمر بھر پیشہ وکالت رہا۔ آپ حضرت سید درویش احمد معروف بہ موتی میاں کے اجازت یافتہ خلیفہ تھے۔ 1947ء میں پاکستان تشریف لائے اور مختلف شہروں میں قیام رہا۔ 1984ء آپ کی رحلت کا سال ہے۔ اپنا مجموعہ بنام ” ارمغانِ سیفی ” یادگار چھوڑا ہے۔
کلامِ سیفی اور صنائع و بدائع

علامہ شمس بریلوی، آپ کے کلام میں موجود صنائع و بدائع پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں "علم بدیع کلام کا زیور ہے لیکن اگر بیساختگی پر اس سے حرف آئے تو اس سے بچنا چاہئے البتہ مبالغۂ حسنِ تعلیل، تضاد، مراعاۃ النظیر جیسی صنعتیں کلام میں اس طرح داخل ہو جاتی ہیں کہ کلام کا کیف بڑھ جاتا ہے اور سلاست و روانی کو بھی گزند نہیں پہنچتا۔ اس اعتبار سے کلامِ سیفی میں صنائع و بدائع بھی ہیں اور کلام کی سلاست علیٰ حالہِ قائم ہے ۲ ”
آپ کے کلام میں صنائع و بدائع بہ کثرت پائے اور کلام کا حسن بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مختلف صنعتیں مثلاً صنعتِ تجنیس اور اس کی اقسام، صنعتِ اشتقاق، صنعتِ ردالعجز اور اس کی اقسام، صنعتِ مالا یلزم، صنعتِ تلمیع، صنعتِ تلمیح اور دیگر کی سینکڑوں مثالیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ فی الحال چوں کہ یہ موضوع نہیں ہے پس اس کو کسی دوسری جگہ کے لئے بچا رکھتے ہیں۔

صنعتِ تلمیح

"علم بیان کلام میں کسی مشہور مسئلے، حدیث، آیتِ قرانی یا قصّے یا مثل یا کسی اصطلاحِ علمی و فنّی وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا جس کو سمجھے بغیر مطلب واضح نہ ہو۔ ۳ ”
کلام سیفی در صنعتِ تلمیح

حضرت موسیٰ علیہ السلام، کلیم اللہ، عصا
بتاوْں کیا حمد باری سے قلم نے میرے کیا پایا
مسیحا ۴کی زباں پائی ہے، موسیٰ کا عصا۵ پایا
کلیم اللہ سے پوچھ کہاں ہے وادیِ ایمن۶
وہاں بھی کچھ نشاں پائے گئے تھے میری منزل کے
حضرت نوح علیہ السلام، سفینۂ نوح
سفینہ نوح ۷کا ٹھہرانے والے کوہِ جودی۸ پر
تجھی کو بحر مایوسی میں دل کا نا خدا پایا
حضرت یوسف علیہ السلام، زلیخا، بازارِ مصر ۹
کہاں وہ یوسف کنعاں دلِ زلیخا میں
غریب بْردہ فروشانِ مصریاں نہ ہوا
یوسف فروش ہے نہ زلیخا ہے مشتری
اب کیا رکھا ہے مصر کے بازار میں
حْسنِ یوسف پہ زلیخا نے قناعت کر لی
بے خبر معرکۂ بازار سے آگے نہ بڑھی
حضرت خضر علیہ السلام، سکندر، چشمۂ حیواں ۱۰
معاذاللہ خضر رہنما پر شک نہیں مجھ کو
مگر کچھ اعتمادِ جادۂ منزل نہیں ہوتا
جنابِ خضر کیا جانیں حقیقت راہِ الفت کی
یہاں دریا تو ہوتا ہے، مگر ساحل نہیں ہوتا
ملیں نظروں سے جب نظریں زباں محروم جنبش تھی
پہنچ کر چشمۂ حیواں پہ سیفی تشنہ کام آیا
عرصۂ عمرِ خضر ہے، میکدے کی ایک رات
ایک شامِ بے سحر ہے، میکدے کی ایک رات
خضرِ منزل جس کو منزل کہہ کے لایا تھا ہمیں
اہلِ منزل نے کہا ہرگز نہ تھی منزل کی بات
جب سکندر لوٹ آیا تشنہ آبِ حیات
پھر اسی ظلمات سے سیفی گزرنا ہے عبث
ہم جہاں تھک کے ٹھہر جائیں وہی منزل ہے
خضرِ منزل سے کہو خالقِ منزل ہم ہیں
خضر خود بھولے ہوئے ہیں کیا بتائیں گے ہمیں
جس کو وہ منزل بتاتے ہیں مری منزل نہیں
جنابِ خضر کیا جانیں، جنابِ خضر کیا سمجھیں
وہ منزل جس کو اربابِ جنوں منزل سمجھے
جس رہگذر کو چھوڑ کے آیا خضر کے ساتھ
پھر ڈھونڈتا ہوں آج اس رہگذر کو میں
الٰہی منتِ خضرِ محبّت سے بچا مجھ کو
چراغ داغِ دل لے کر چراغ رہنما ہونا
وہ پہنچے آبِ حیواں تک مگر آگے نہیں پہنچے
جنابِ خضر میرے ساتھ ہو لیتے تو اچھا تھا
خضر کی رہبری سے کامیابی غیر ممکن ہے
مری رہبر مری وارفتگی ہوتی تو ہو جاتی
خضرِ منزل کی شکایت تہمتِ بے سود ہے
پیش پیش توسن تدبیر، جب تقدیر تھی
قیس، مجنوں، لیلیٰ، محمل ۱۱
اثر آیا ہے قیس کے دل کا
رخ بدلنے لگا ہے محمل کا
قیس نے کہہ دیا انا لیلیٰ
اب نہ پردو اٹھاوْ محمل کا
قیس و لیلیٰ نے کر دیا مشہور
کون لیتا تھا نام محمل کا
اب نہ مجنوں نہ محملِ لیلیٰ
نام باقی ہے قیس و محمل کا
نبض رکنے لگی ہے مجنوں کی
کیا قیامت ہے نام محمل کا
ہم نے لیلیٰ کا روپ دھار لیا
کوئی پردہ اٹھا لے محمل کا
قیس و لیلیٰ کی داستاں سیفی
صرف لینا ہے نام محمل کا

قیس کو شک ہوا ہے محمل کا
کس نے پردہ اٹھا دیا دل کا
ہر بگولے کو پکڑنے کے لئے جاتا ہے
خواب میں قیس نے کیا محملِ لیلیٰ دیکھا
ہزاروں کوہکن ہوتے ہیں، لاکھوں قیس ہوتے ہیں
محبّت اک فسانہ ہے مگر کامل نہیں ہوتا
میں ہر غولِ بیاباں سے گلے مل مل کے روتا ہوں
اگرچہ وہ تمھارا پردۂ محمل نہیں ہوتا
پھرا کرتی ہیں آنکھوں میں ادائیں حسنِ لیلیٰ کی
حجابِ چشمِ مجنوں پردہ محمل نہیں ہوتا
قیس کا افسانہ سْن کر آپ کیوں برہم ہوئے
یہ فسانہ ہے، ہماری داستانِ غم نہیں
عشق کی طرفہ صفت بو قلمونی
کبھی مجنوں ہیں، کبھی لیلی ء محمل ہم ہیں
میں پیرو روشِ قیس و کوہکن ہوتا
مگر یہ لوگ محبّت میں نیک نام نہیں
عشق کی طرفہ صفت بوقلمونی کی قسم
کبھی مجنوں، کبھی لیلیٰ محمل ہم ہیں
مناسب تھی تجھے لیلیٰ رفاقت اپنے مجنوں کی
اگر دو دن کو رسوائی تری ہوتی تو ہو جاتی
یہ کس کی خاکِ تربت یوں بگولے بن کے آئی ہے
کہ پردے خود بخود اٹھنے لگے لیلیٰ کے محمل کے
قیس دیکھا، کوہکن دیکھا، ہر اک کا نام تھا
شب دعائے نیم شب، آہ کرتے تھے ہم
لن ترانی ۱۲
لن ترانی چھوڑئیے اب سامنے آ جائیے
پھر کبھی تاب نظر کا امتحاں ہو جائے گا
لن ترانی آپ نے فرمایا، کیا کر دیا
اب نہ کہئے گا ہم نے تم کو رسوا کر دیا
میں فنا کے دوش پر آیا ہوں شوقِ دید میں
اب نہ ہو گا مجھ پہ زعمِ لن ترانی کا اثر
لن ترانی سے کیا محروم شوقِ دید کو
اور پتھر پر ہوئے تم بے محابہ جلوہ گر
لن ترانی تو آپ فرمائیں
اور سیفی غریب پر الزام
لن ترانی کی صدا دینے پہاڑی پر گئے
تہمت پردہ دری مجھ پر حریمِ نازمیں
لن ترانی کی صدا شوقِ تماشہ بن گئی
اب حریمِ ناز کے پردے اٹھا دیتا ہوں میں
لن ترانی سے حرم میں تو جوابِ شوق دے
اب صنم خانے میں سیفی اک صدا دیتا ہوں میں
نقاب لن ترانی ڈال کر چہرے پہ آ جاتے
جو اس پردے میں بھی پردہ دری ہوتی تو ہو جاتی
دیکھنے والے یہ قدغن ہے جمالِ دوست کی
"لن ترانی” کی حقیقت امتناعِ جلوہ ہے
منصور، انا الحق، دار و رسن ۱۳
خود کہا ” من تو شدم تو من شدی”
پھر” انا الحق” کو خطا کہنا پڑا
اس معمہ کو نہ سمجھے آج تک اہلِ خرد
کس نے فرمایا انا الحق، کون پہنچا دار پر
کیوں بلا کر آپ نے منصور کو رسوا کیا
اور بلانا تھا تو رکھ لیتے حریمِ نازمیں
منصور نے فنا کو حدیث "انا” کہا
سمنان کے ولی کی زبان پر "انا” نہیں
جو بات دار کے قابل سمجھ رہا ہے کوئی
مرے فسانے کا عنوان ہے دیکھئے کیا ہو
میں وہ ہوں سرِّ انا دار و رسن کا میرے
جذبِ دیوانہ منصور تماشائی ہے
منصور نوکِ دار پہ کیوں کھیلتا رہا
کیا تھا مگر تری نظر کے اشارے اگر نہ تھے
مانا کہ انا الحق کی صدا دیتا ہے لیکن
دل نغمہ سرائے لبِ منصور نہیں ہے
پھر کوئی تماشہ گرِ جانباز بلاؤ
خالی رسن ودار ہیں، منصور نہیں ہے
وہ ساز ابھی سازِمکمل نہیں سیفی
جس ساز میں سوزِلبِ منصور نہیں ہے
انا الحق کہہ کے سیفی رازِ ہستی کہہ دیا ہوتا
تمھاری بیخودی، خود آگہی ہوتی تو ہو جاتی
قابلِ تعزیر ہے سازِ انا الحق کی صدا
اپنی ہستی کا تصّور انقطاعِ جلوہ ہے
وہ دارِ الفت پہ جب چڑھا تھا، سنا ہے منصور نے کہا تھا
عطائے عفّت خطا نہیں ہے، سزائے الفت سزا نہیں ہے
آہ منصور اب کہاں منصور
نغمۂ نوک دار باقی ہے
"انا الحق” کہہ کے آیا ہوں قریبِ انجمن ساقی
مجھے پھر یاد آئی لذتِ دارو رسن ساقی

خورشید بنے ذرّہ کا مقدور نہیں ہے
گویا ہے انا الحق لبِ منصور نہیں ہے
اس سوز انا الحق میں صداقت نہیں جس میں
انداز نوا سنجیء منصور نہیں ہے
کھولا رسن و دار سے جب لاشۂ منصور
روئے رسن و دار کہ منصور نہیں ہے
مانا لبِ منصور سے نکلا ہے انا الحق
پردے میں کوئی اور ہے منصور نہیں ہے
جو آکے سردار دکھائے گا تماشہ
پردہ درمنصور ہے، منصور نہیں ہے
ہر قطرۂ خون میں وہ نوا سنج انا الحق
نوحہ گر منصور ہے، منصور نہیں ہے
اے شیخ زبان و لب منصور پہ رقصاں
وحدت کا طرفدارہے، منصور نہیں ہے
دار و رسن اک بار ستم زا ہے کسی کا
پاداش خطا کاریِ منصور نہیں ہے
دل میں بھی انا الحق کا وہی نغمہ ہے لیکن
وہ نغمۂ آوارۂ منصور نہیں ہے
اس سازِ محبّت کو جلا دیجیئے سیفی
وہ نغمہ کشِ بربطِ منصور نہیں ہے

الست ربکم ۱۴
کہہ کے الست ربکم تم نے تو آزما لیا
کتنے غرورِ امتحاں، دارو رسن میں ڈھل گئے
قم باِذن اللہ ۱۵
صدائے قم باِذن اللہ ہے صہبا کے ہونٹوں پر
اٹھو مردۂ دلانِ میکدہ دیکھو مسیحائی
کن فیکون ۱۶
روزنِ "کن فیکون” سے صفتِ ذرہ خاک
بہرخورشید بقا آج یہاں آئے ہیں
صور ۱۷

صور پھونکا گیا، زمیں نہ پھٹی
کون زیرِ مزار باقی ہے

فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنا ۱۸

یہ لا ئقِ سجدہ ہے، وہ مستوجب سجدہ
آدم کی جبیں اور فرشتوں کی جبیں اور
سقاہم ربّکم ۱۹
بچا کر مجھ کو واعظ کی نظر سے میرے ساقی نے
نئی ٹھمری "سقاہم ربّکم” کے ساز پر گائی

حوالہ جات و حواشی
¬
۱ ماخوذ ” حیات علامہ سیفی فریدآبادی ” مشمولہ ” ارمغان سیفی "، ۱۹۸۴ء، صفحہ ۵ ۶ تا ۳ ۷
۲ شمس بریلوی، علامہ، "علامہ سیفی کی شاعری”، "ارمغانِ سیفی”، ۱۹۸۴ء، صفحہ ۳۴ تا ۳۵
۳ اردو لغت، جلد ۵ صفحہ ۴۹۰
۴ حضرت عیسیٰ مسیح اللہ کی طرف اشارہ ہے۔ قران میں ارشاد ہوتا ہے سورہ آل عمران آیت ۴۹ ورسُوْلًا اِلیٰ بنِیْٓ اِسْرآئِیْل ۵لا انِّیْ قدْ جِئْتُکُمْ بِاٰ یۃٍ مِّنْ رّبِّکُمْ لا انِّیْٓ اخْلُقُ لکُمْ مِّن الطِّیْنِ کھیْئۃِ الطّیْرِ فانْفُخُ فِیْہِ فیکُوْنُ طیْرًام بِاِذْنِ اللّٰہِج واُبْرِیُِ الْاکْمہ والْابْرص واُحْیِ الْموْتیٰ بِاِذْنِ اللّٰہ ترجمہ: اور وہ رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف (یہ کہتا ہوا )کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لے کر آیا ہوں۔ تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی صورت بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اڑنے والی ہو جاتی ہے۔ اللہ کے حکم سے اور میں شفا یاب کرتا ہوں مادر زاد اندھے اور برص والے کو اور جِلاتا ہوں مردے اللہ کے حکم سے۔
۵ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے عصا کی جانب اشارہ ہے قران میں سورہ طحہٰ آیات ۱۸ تا ۲۰ مرقوم ہے قال ھِی عصایج اتوکّؤُا علیْھا واھُشُّ بھِا علیٰ غنمِیْ ولِی فِیْہا ماٰرِبُ اُخْرٰی ہ۱۸ قال الْقھِا یٰمُوْسیٰ ہ۱۹ فالْقٰئھا فاِذا ھِی حیّۃٌ تسْعیٰ ترجمہ: عرض کی یہ میرا عصا ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور میرے لئے اس میں اور (بھی )کئی کام ہیں۔ فرمایا اے موسیٰ اسے ڈال دو۔ تو موسیٰ نے اسے ڈال دیا تو نا گہاں وہ سانپ تھا دوڑتا ہوا۔
۶ سورہ قصص آیت ۳۰ فلمّا اتٰئھا نُوْدِی مِنْ شاطِیِ الْوادِ الْایْمنِ فِی الْبُقْعۃِ الْمُبٰرکۃِ مِن الشّجرۃِ انْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ انا اللّٰہُ ربُّ الْعٰلمِیْن ترجمہ: پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو انہیں میدان کے داہنے کنارے سے برکت والے مقام میں اک درخت سے ندا کی گئی کہ اے موسیٰ بیشک میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پروردگار۔
۷ سورہ ہود آیت ۳۷ میں اللہ حضرت نوح سے ارشاد فرماتا ہے واصْنعِ الْفُلْک بِاعْیُنِنا ووحْیِنا ولا تُخاطِبْنِیْ فِی الّذِیْن ظلمُوْا۔ اِنّھمْ مُّغْرقُوْن ترجمہ: اور آپ ہماری وحی کے مطابق ہماری نگرانی میں کشتی بنائیے اور ظالموں کے متعلق ہم سے کچھ نہ کہیں وہ ضرور غرق کئے جائیں گے۔
۸ وہ مقام جہاں آپ کی کشتی ٹھہری "تورات میں جودی کو اراراط کے پہاڑوں میں سے بتایا گیا ہے ” بحوالہ قصص القران، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جلد اول۔ دوم، صفحہ ۶۲
۹ سورہ یوسف میں یہ سارا قصہ صراحت کے ساتھ ہے۔
۱۰ "یہ قصہ حضرت خضر اورسکندر اعظم کے سفر کا ہے۔ جس میں یہ آب حیات کی تلاش میں روانہ ہوتے ہیں۔ سکندر ایک گھاٹی میں راستہ بھول کر رہ جاتا ہے۔ اور خضر چشمۂ حیواں سے آب حیات پی لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت خضر کا کام سمندر اور دریاؤں میں لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔ چند علما آپ کو پیغمبر نہیں مانتے۔ صوفیا کے نزدیک آپ آج بھی لوگوں کی ہدایت پر معمور ہیں۔ واللہ اعلم” – مولّف
۱۱ "لیلیٰ مجنوں بنیادی طور پر ایک عربی الاصل داستان ہے۔ اس میں بیان کردہ کردار تاریخی طور پر ثابت مانے جاتے ہیں۔ کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں اور یہ کہ یہ داستان عشق بھی حقیقی تھی۔ جس کو قلم بند کیا گیا اور بعد میں، صدیوں تک ان پربہت کچھ افسانہ طرازی کی گئی۔ عربی میں سب سے پہلے کس نے اسے لکھا؟ اس کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عربی سے فارسی میں اس کو پہلے پہل رود کی نے منتقل کیا۔ اس کے بعد نظامی گنجوی نے اس کو فارسی میں لکھا، جس نے اس کی مقبولیت کو ساری دنیا تک پہنچایا۔ اب تک ہزار سے زیادہ مرتبہ اس داستان کو مختلف زبانوں میں، مختلف لوگ نثر و نظم میں لکھ چکے ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ مقبولیت و اہمیت نظامی گنجوی کی لیلیٰ مجنوں کو ہی حاصل رہی ہے۔ لیلیٰ مجنوں کے دو مرکزی کردار ہیں، مجنوں کا اصل نام یا جس نام کو اصل تصور کیا جاتا ہے، قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔ مجنوں لغوی طور پر پاگل، دیوانے اور عاشق کو کہتے ہیں۔ لیلی کا نام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیا جاتا ہے۔ عربی و عبرانی میں لیلیٰ یا لیلہ رات کے لیے بولا جاتا ہے۔ عربی میں لیلیٰ مجنوں کی بجائے مجنون لیلیٰ (لیلی کا پاگل) بولا جاتا ہے۔ جب کہ ترکی میں ایک اسم صفت لیلیٰ کی طرح سے مراد محبت کی وجہ سے پاگل، جنونی کے لیے بولا جاتا ہے۔ بعض محققین نے لیلیٰ کے عربی لیلیٰ (رات) سے اس کے معنی سانولی رنگت بھی لیا ہے۔ اور کئی مصنفین نے اپنے قصے میں لیلیٰ کو سانولی صورت والی بنا کر پیش کیا ہے۔ اور عوام میں مشہور ہے کہ لیلیٰ کالی یعنی سیاہ رنگت والی تھی۔ لیکن اگر لیلیٰ کو عربی النسل بیان کیا جاتا ہے تو اس طرح لیلیٰ کا کالا ہونا ایک خلاف واقعہ بات ہو گی” ماخوذ از وکی پیڈیا اردو
۱۲ سورہ الاعراف آیت۱۴۳ میں ارشاد ہوتا ہے ولمّا جآئی مُوْسیٰ لِمِیْقاتِنا وکلّمہٗ ربُّہٗ لا قال ربِّ ارِنِیْٓ انْظُرْاِلیْکط قال لنْ ترٰئنِیْ ولٰکِنِ انْظُرْ اِلی الْجبلِ فاِنِ اسْتقرّ مکانہٗ فسوْف ترٰئنِیْج فلمّا تجلّیٰ ربُّہٗ لِلْجبلِ جعلہٗ دکًّا وّ خرّ مُوْسیٰ صعِقًاج فلمّآ افاق قال سُبْحٰنک تُبْتُ اِلیْک وانا اوّلُ الْمُؤْمِنِیْن ترجمہ: اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کئے ہوئے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام فرمایا، عرض کی اے میرے رب مجھے اپنی ذات دکھا میں تجھے دیکھوں۔ فرمایا تم مجھے ہر گز نہ دیکھ سکو گے ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم مجھے دیکھو گے۔ پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلّی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گرے۔ پھر جب ہوش میں آئے عرض کی، تو پاک ہے میری توبہ ہے تیری بارگاہ میں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں۔
۱۳ منصور حلاج (پیدائش ۸۵۸ء، وفات ۲۶ مارچ ۹۲۲ء ) ایک فارسی صوفی اور مصنف۔ پورا نام ابو المغیث الحسین ابن منصور الحلاج تھا۔ والد منصور پیشے کے لحاظ سے دھنیے تھے اس لیے نسبت حلاج کہلائی۔ فارس کے شمال مشرق میں واقع ایک قصبہ الطور میں پیدا ہوئے۔ عمر کا ابتدائی زمانہ عراق کے شہر واسط میں گزرا۔ پھر اہواز کے ایک مقام تستر میں سہل بن عبداللہ اور پھر بصرہ میں عمرو مکی سے تصوف میں استفادہ کیا۔ ۲۶۴ھ میں بغداد آ گئے اور جنید بغدادی کے حلقہ تلمذ میں شریک ہو گئے۔ عمر کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں بسر کیا بہت سے ممالک کے سفر کیے جن میں مکہ، خراسان شامل ہیں۔ وہ اتحاد ذات الٰہی یا ہمہ اوست کا قائل تھے اور "انا الحق” ’’میں خدا ہوں ‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔ ۲۹۷ھ/۹۰۹ء میں ابن داؤد الاصفہانی کے فتوے کی بنیاد پر پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے۔ ۳۰۱ھ میں دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے اور آٹھ سال مسلسل اسیر رہے۔ ۳۰۹ھ میں مقدمے کا فیصلہ ہوا اور ۱۸ ذیقعد کو سولی دے دی گئی۔ وفات کے بعد علماء کے ایک گروہ نے کافر و زندیق قرار دیا اور دوسرے گروہ نے جن میں رومی اور شیخ فرید الدین عطار جیسے عظیم صوفی بھی شامل تھے انھیں ولی اور شہید حق کہا۔ ماخوذ از وکی پیڈیا اردو
۱۴ عہد میثاق کی طرف اشارہ ہے چنانچہ سورہ الاعراب آیت ۱۷۲ میں ارشاد ہوتا ہے واِذْ اخذ ربُّک مِنْم بنِیْٓ اٰدم مِنْ ظھُوْرھِمْ ذُرِّیّتھمْ واشْھدھمْ علٰٓی انْفُسھِم ْ۔ السْتُ بِربِّکُمْط قالُوْا بلیٰ ۔۔شھدْنا۔۔انْ تقُوْلُوْا یوْم الْقِیٰمۃِ اِنّا کُنّا عنْ ھٰذا غٰفِلِیْن ترجمہ: اور (یاد کیجئے اے محبوب) جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کی جانوں پر انہیں گواہ بنایا (فرمایا) کیا میں تمھارا رب نہیں؟ سب نے کہا کیوں نہیں (یقیناً تو ہمارا رب ہے ) ہم نے گواہی دی۔ (یہ اس لئے ) کہ قیامت کے دن تم کہنے لگو ہم تو اس سے بے خبر تھے۔
۱۵ دیکھئے حوالہ نمبر ۴
۱۶ کن فیکون خدا کے ارادۂ تکوینی اور امر خلقت میں اس کی حاکمیت سے تعبیرہے چنانچہ سورہ آل عمران جز آیت ۴۷ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اِذا قضٰٓی امْرًا فاِنّما یقُوْلُ لہٗ کُنْ فیکُوْنُ ترجمہ: جب کسی امر کا حکم فرمائے تو اسے یہی کہتا ہے کہ "ہو جا” وہ فوراً ہو جاتی ہے۔ اور بھی آیات اس بابت موجود ہیں۔
۱۷ صور قیامت کی طرف اشارہ ہے
۸ ۱ سورہ ص آیت ۷۳ فسجد الْملٰٓئِکۃُ کُلّھُمْ اجْمعُوْن ترجمہ: تو سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔
۱۹ سورہ دہر آیت ۲۱ عٰلِیہُمْ ثِیابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وّاِسْتبْرقٌ ز وّحُلُّوْٓا اساوِر مِنْ فِضّۃٍ۔ وسقٰئھُمْ ربُّہُمْ شرابًا طھوْرًا ترجمہ: ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے