دکنی ادب کی تحقیق اور محمد علی اثر: ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم ۔۔۔ ڈاکٹر عزیز سہیلؔ

مرتب: ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
مبصر: ڈاکٹر عزیز سہیلؔ
اردو ادب میں علاقہ دکن کو ہر اعتبار سے انفرادیت حاصل رہی ہے۔ یہاں کا دکنی ادب بھی اپنی ایک مقبولیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کی بنیاد پر دکنی ادب معدوم ہوتاجا رہا ہے اور سکڑنے لگا ہے لیکن دکنی ادب پر آج بھی مختلف جامعات میں تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ سابق میں اس متعلق بہت زیادہ کام ہوا ہے۔ دکنی ادب کی تحقیق میں نصیر الدین ہاشمی، ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے دکنی ادب کو فروغ دینے میں اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ چونکہ یہ مختصر تبصرہ ہے اس میں زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ عصر حاضر میں دکنی ادب پر تحقیق کرنے والوں میں بہت کم نام نظر آتے ہیں جن میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر محمد علی اثر کا بھی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی اثر دکنی ادب پر عصر حاضر میں ایک اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بے شمار کتابیں لکھیں جن کا محور دکنی ادب ہے۔ ڈاکٹر محمد علی اثر کو دکنی ادب کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ دکنی ادب کی تحقیق اور محمد علی اثرکے عنوان سے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم سابق چیرمین بورڈ آف اسٹیڈیز اورینٹل اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی شخصیت بھی ایک اہم محقق اور ادیب کی ہے۔ وہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں اورایک لمبے عرصہ سے سنجیدہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جنوبی ہند کے قومی سمیناروں میں خصوصی طور پر ڈاکٹر صاحب کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان سمیناروں میں ان کا خطبہ فکری پہلوؤں، شعور بیداری اور عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ سہل انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور اپنی تقریر کے ذریعہ ایک تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔ نئی نسل کی نمائندہ شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی اور رہنمائی فرمائی ہے۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کا تعلق صحافت سے بھی ہے بلکہ وہ ایک اچھے صحافی کی بھی خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہیں۔ انہوں نے تلنگانہ میں اردو کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ سوشیل میڈیا میں اردو کے فروغ میں بھی ڈاکٹر صاحب کی اپنی انفرادیت ہے، جس کی مثال ان کی اپنی ویب سائیٹ ’’ جہان اردو‘‘ ہے جس کے ذریعہ انہوں نے ہمیشہ نئے قلمکاروں کومتعارف کروایا ہے اور مسلسل لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی ہے۔ بہر حال ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کئی ایک خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
’’دکنی ادب کی تحقیق اور محمد علی اثر‘‘ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی مرتبہ تصنیف ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر محمد علی اثر کے بارہ مضامین کو شامل کیا ہے جو اس طرح سے ہیں۔ خواجہ بندہ نوازؒ اردو کے پہلے شاعر، اردو کا پہلا صاحب دیوان سلطان محمد قلی، صوفیائے گولکنڈہ کی علمی و ادبی خدمات، سلطان عبداللہ اور غواصی، دکنی شاعری میں خمریات، مثنوی سیف الملوک اور بدیع الجمال اوراس کا مصنف، مثنوی ’’خاور نامہ‘‘ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، اورنگ زیب دکنی شعراء کی نظر میں، اردو کی پہلی تقریظ اور اس کا خالق، دکنی کا پہلا ادبی مورخ اورباقر آگاہ شخص، شاعر اورنقاد۔
زیر نظر کتاب کاپیش لفظ خود ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے رقم کیا ہے انہوں نے کتاب کے وجود میں آنے کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک عرصہ سے میری خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر اثر صاحب کے کچھ مضامین کا انتخاب پیش کروں۔ بلاشبہ وہ دکن کے بڑے محقق و نقاد ہیں۔ یہاں ان مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے جو دکنی اور غیر دکنی دونوں طلبہ کے لئے فائدہ مند ہوں۔ یہ ایک درجن مضامین ہیں جوانتہائی سادہ اور سلیس زبان میں لکھے گئے ہیں ‘‘۔
اس کتاب کا مقدمہ بھی ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے ہی لکھا ہے جو کافی طویل اور مبسوط ہے جس میں ایک طرف دکنی ادب کی تاریخ کو پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ڈاکٹر محمد علی اثر کی بحیثیت محقق کے شخصیت کو روشن کیا گیا ہے اوران کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، تصنیف وتالیف، انعامات واعزازات کے ذریعہ ان کی شخصیت کا بھر پورت عارف پیش کیا گیا ہے۔ مقدمہ میں دکنی تحقیق کے آغاز سے متعلق ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے لکھا ہے کہ ’’بیسویں صدی تحقیق وتصنیف کی صدی ہے، دکنی ادب کی تحقیق اور باز یافت کی صدی ہے۔ اردو میں ادبی تحقیق کا آغاز حکیم شمس اللہ قادری سے ہوتا ہے جنہوں نے اردوئے قدیم کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور لکھنؤ کے رسالہ لسان العصر میں شائع کروایا۔ یہ 1910ء کی بات ہے۔ اس مضمون کی اشاعت سے اردو دنیا خاص کرشمالی ہند کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور اردو زبان و ادب کی قد و قامت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ دکنی ادب کی تحقیق و تدوین کے دوسرے بڑے محقق بابائے اردو مولوی عبد الحق ہیں جنھوں نے کلیات محمد قلی 1922ء، اسد اللہ وجہی کی سب رس، قطب مشتری، گلشن عشق جیسی مخطوطات کی تدوین کر کے اردو ادب کومالا مال کر دیا‘‘۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں دکنی تحقیق کے حوالے سے نصیر الدین ہاشمی، حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، پروفیسر سروری، پروفیسر مسعود حسین خان، پروفیسر سیدہ جعفر، اکبرالدین صدیقی، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، ڈاکٹر زینت ساجدہ، ڈاکٹر مغنی تبسم، ڈاکٹر محمو د قادری، ڈاکٹر یوسف سرمست، ڈاکٹر عقیل ہاشمی، ڈاکٹر اشرف رفیع، ڈاکٹر ثمینہ شوکت، ڈاکٹر حبیب ضیاء، ڈاکٹر فاطمہ بیگم، ڈاکٹر مجید بیدار، ڈاکٹر عطیہ سلطانہ، ڈاکٹر محمد علی اثر، ڈاکٹر نسیم الدین فریس، ڈاکٹر صبیحہ نسرین اور ڈاکٹر احمد علی شکیل وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
ڈاکٹر سیدفضل اللہ مکرم نے اپنے مقدمہ میں ڈاکٹر محمد علی اثر کی تنقید نگاری کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر محمد علی اثر نہ صرف محقق اورنقاد ہیں بلکہ خوش کلام شاعر بھی ہیں۔ آپ نے نہ صرف کلاسیکی انداز اپنایا بلکہ جدید لب و لہجہ میں بھی نظمیں اور غزلیں لکھیں۔ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ پر خدا کا ایسا کرم رہا کہ آپ نے نہ صرف ایک طویل نعت لکھی بلکہ نعتیہ مجموعہ بھی ترتیب دیا‘‘۔ مرتب نے اپنے مقدمہ میں ڈاکٹر محمد علی اثر کی کئی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے اوران کے تحریری انداز کو سادہ، سلیس اور معنی آفرین قرار دیا۔ اس کتاب میں شامل پہلا مضمون خواجہ بندہ نوازؒ اردو کے پہلے شاعر کے عنوان سے شامل ہے جس میں اردو کے آغاز پر گفتگو کی گئی ہے اور اردو کے فروغ میں صوفیائے کرام کی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ انہوں نے حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کا نام، کنیت، لقب، پیدائش اورقلمی خدمات کو بیان کیا ہے۔ ان کی شعری خدمات سے متعلق لکھا ہے کہ ’’آپ شعراء کی طرح حضرت بندہ نواز نے اپنی شاعری میں بجز نام کے کوئی تخلص استعمال نہیں کیا ہے، بعض محققین نے آپ کا تخلص شہباز بتایا ہے جودرست نہیں ہے۔ خواجہ صاحب نے اپنے کلام میں سید محمد اور بندہ نواز کے الفاظ ہی بطوراستعمال کئے ہیں ‘‘۔ اس مضمون میں حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کے کلام کے انتخاب کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں شامل دوسرا مضمون اردو کی پہلی نثری تصنیف اور اس کا مصنف کے عنوان سے شامل ہے۔ انہوں نے اس مضمون میں اردو ادب کی نثری تاریخ، صوفیائے کرام کی خدمات کو بیان کیا ہے، ساتھ ہی ڈاکٹر گیان چند جین کے حوالے سے بات کو پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی پروفیسر حامد حسین قادری کے خیال سے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنان کا 800ء میں ’’رسالہ تصوف‘‘اردو کی پہلی نثری کتاب ہے۔
بہر حال ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے دکنی ادب پر مشتمل کافی اہم ذخیرہ کو اردو کے تحقیق کاروں اور ادب کے طالب علموں کے لیے پیش کیا ہے جو اردو والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔ اس میں شامل تمام مضامین اپنی اہمیت اور انفرادیت رکھتے ہیں۔ جس کے متعلق کئی ایک نئے پہلوؤں کا علم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ایسے دورمیں جب کہ دکنی زبان سکڑ رہی ہے، دکنی تحقیق کو پیش کر کے اس ادب میں ایک نئی جان ڈالنے کا کام کیا ہے اوراس کام کے لیے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کومبارک باد پیش کی جاتی ہے۔ ان سے امید بھی ہے کہ وہ دکن میں اردو کے نئی نسل کے امیر کارواں بن کر رہنمائی فرمائیں گے اور اردو تحقیق کو مقام اور مرتبہ عطا کریں گے۔ ’’دکنی ادب کی تحقیق اور محمد علی اثر ‘‘کو تنویر پبلیشرز لکڑی کا پل، حیدرآباد نے شائع کیا ہے۔ خوبصورت ٹائٹل اور نفیس طباعت اور عمدہ کاغذ 203صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 250روپئے رکھی گئی ہے جو ہدیٰ بک ڈپو، اردو ہال حمایت نگر یا مصنف ( فون نمبر9849377948) پر ربط کرتے ہوئے خریدی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے