گونگا سچ: ایم مبین۔۔۔ ڈاکٹر عزیز سہیلؔ

ڈراموں کا مجموعہ: گونگا سچ
مصنف: ایم مبین مبصر: ڈاکٹر عزیز سہیلؔ

اردو ادب کی نثری اصناف میں ڈرامہ کو انفرادیت حاصل ہے۔ ڈرامہ در اصل اظہار ترسیل کا ایک اثر دار ہتھیار ہے۔ ڈرامہ اردو ادب کی ایک قدیم صنف ہے اور ہر زمانہ میں اس کی اہمیت و افادیت مسلمہ رہی ہے۔ بیسویں صدی میں ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن کے آغاز نے اردو ڈرامہ کے فن کو مقام و مرتبہ بخشا، اکثر ڈراموں کو فلمایا بھی گیا اورکئی بڑی فلمیں بھی ڈراموں کی اسکرپٹ کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئیں۔ اکیسویں صدی میں بھی ڈرامہ کی اپنی ایک علحدہ پہچان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ادب میں دیگر اصناف کی طرح ڈرامے بھی اب بہت کم پیش کئے جا رہے ہیں۔
عصر حاضر میں ڈرامہ اسکول اور کالج کے کلچر پروگرام کی ضرورت بھی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں بھی نکڑ ناٹک کے ذریعہ کسی بات یا نظریہ کو آسانی کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور سماج کی اصلاح کا کام بھی نکڑ ناٹک کتے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ڈرامہ کی مقبولیت کے فن میں تھوڑی سی کمی واقع ہوئی ہے اور ڈرامہ نگار بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔ عصر حاضر میں ڈرامہ نگاری کو اپنا مقبول فن بنانے والے ڈرامہ نگار ایم مبین بھی ہے جن کا تعلق بھیونڈی ضلع تھانہ مہاراشٹرا سے ہے۔ محمد مبین پیشے سے بینکر ہیں اورحالیہ عرصہ میں سی ای او کے جلیل القدر عہدہ پر فائز رہتے ہوئے سبکدوش ہوئے ہیں۔ ایم مبین اردو اورہندی کے ایک بڑے قلمکار ہیں۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز ماہنامہ کھلونا جنوری 1975ء بچوں کے لیے کہانی ’’موتی کے پودے‘‘ سے ہوا۔ ان کی پہلی کتاب ’’مال مفت‘‘جو کہ ایک بابی ڈرامے پرمشتمل ہے 1988ء میں شائع ہوئی۔ ایم مبین کی جو کتابیں اب تک منظر عام پر آئیں ان میں ٹوٹی چھت کا مکان، نئی صدی کا عذاب، زندگی الرٹ، لمس، دکھ کاگاؤں ( افسانوی مجموعے )، مال مفت، گدھے کی چوری، ہزار روپئے کا نوٹ، پپو پاس ہو گیا۔ میرا نام کرے گا روشن، رانگ نمبر، گبرسنگھ نے ای میل کیا، اچھے دن کی آس (یہ تمام یک بابی ڈرامے) جھنگا پہلوان نے کرکٹ کھیلا (مزاحیہ کہانیاں)، سر کٹی لاشیں اور سونے کی مورتی، انگوٹھا، اے وطن تیرے لیے، کالا پانی (ناولیں)۔ زحل کے قیدی، سوپر کمپیوٹر کی دہشت، سیارہ زہرہ اور ان کی سات شہزادیاں (سائنسی ڈرامے)، انمول ہیرا، جادوئی چراغ، (بچوں کے لیے کہانی) شامل ہیں۔
ایم۔ مبین کی اب تک اردو میں پچیس کتابیں اور کم و بیش اتنی ہی کتابیں ان کی ہندی میں شائع ہوئی ہیں۔ اس اعتبار سے ایم مبین نے کتابوں کی نصف سنچری مکمل کی ہے اوران کی کتابوں کو مختلف اردو اکیڈیمیوں کی جانب سے ایوارڈ بھی عطا ہوئے ہیں۔ ایم مبین نے بچوں کے ادب کے ایک مقبول عام قلمکار کی حیثیت سے بہت ہی کم وقت میں پہچان بنائی ہے۔ ان کے اکثر و بیشتر تصانیف رحمانی پبلیکیشن مالیگاؤں نے شائع کی ہیں۔
حالیہ دنوں ایم مبین کے ڈراموں کا مجموعہ ’’ گونگاسچ ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے۔ اس مجموعہ کا انتساب ایم مبین نے اردو اسٹیج کی تمام ہستیوں کے نام معنون کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں کل آٹھ ڈرامے شامل ہیں جن کے عنوانات اس طرح ہیں۔ مسیحائی، آخری راستہ، گونگا سچ، منتریوں کا مشاعرہ، ٹوٹے خواب، رشتے، کھول دو (منٹو پر مونولاگ)‘ عید گاہ کے بعد (پریم چند کی کہانیوں کا ری میکس) شامل ہیں۔ اس کتاب کے آغاز میں اپنی بات کے عنوان سے ایم مبین نے کتاب کے اشاعت کی غرض و غایت کو بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈرامے کی تاریخ اور اہمیت کو بھی پیش کیا ہے اور ڈرامے کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ عصر حاضر میں ڈرامہ کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈرامہ جب لکھا جاتا ہے تو وہ ڈرامہ اسٹیج ہو گا یا نہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا یہ در اصل ڈرامہ کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ایم مبین نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں شامل تمام ڈرامے بھلے ہی عصری موضوعات پر ہیں۔ ڈرامہ اور اسٹیج کے تمام لوازمات ان میں شامل ہیں۔ یہ خالص اسٹیج کے لیے لکھے گئے ہیں لیکن تا دم تحریر سعادت حسن منٹو کے افسانے کھول دو پر لکھے مونو لاگ کے علاوہ کوئی بھی اسٹیج نہیں ہوا ہے۔ جسے مجیب خان نے اسٹیج کیا ہے۔ ایم مبین کی یہ کتاب مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔
اس کتاب کا پہلا ڈرامہ ’’ مسیحائی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔ جس کے کردار کے طور پر ساجد اکبر، اقبال، نوید، فرید، ڈاکٹر، نرس، ڈاکٹر اسلم شامل ہیں۔ اس ڈرامے میں ایم مبین نے عصر حاضر کے ایک بڑے المیہ کو پیش کیا ہے کہ ساجد کے والد کی طبعیت بہت خراب ہے اور وہ اس موقف میں ہے کہ اس دنیا سے کوچ کر جائیں ڈاکٹر اسلم ساجد کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری اسٹیج میں ہیں اور کبھی بھی ان کی سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے انہیں کہیں لے جا کر کوئی فائدہ نہیں، اپنے والد کو گھر لے جائیں ان کی خدمت کر لیں، لیکن ڈاکٹر اسلم کے جواب سے ساجد اور ان کے بھائی مطمئن نہیں ہوتے اور وہ شہر کے بڑے دوا خانے میں اپنے والد کو لے جاتے ہیں۔ شہر کے اس بڑے دوا خانہ میں ڈاکٹر ان کے علاج کے لیے رضا مند ہو جاتے ہیں اور مریض کو شریک کرنے کے بعد مریض کے رشتہ داروں سے ایک لاکھ روپئے جمع کرنے اور مریض کی صحت کی بہتری کے لیے پچاس ہزار روپئے روز کا انجکشن دینے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ ساتھ ہی مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھ کر مصنوعی تنفسی نظام کے ذریعہ اعضاء کو حرکت دی جاتی ہے۔ پانچ دن کے عرصہ میں ساجد اور ان کے بھائیوں کے پانچ لاکھ روپئے خرچ ہو جاتے ہیں اور وہ پیسے پیسے کو مقروض ہو جاتے ہیں۔ بالآخر دوا خانہ میں ڈاکٹر اسلم کی پھر ان سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ مریض کے فوت ہونے کی اطلاع دیتے ہیں اور شہر کے بڑے دوا خانے کی لوٹ کھسوٹ کو منظر عام پر لاتے ہیں جس پر ڈاکٹر کے خلاف کاروائی کرنے کامطالبہ کیا جاتا ہے۔
عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ دوا خانوں میں علاج کے نام پر لاکھوں روپئے کی لوٹ کھسوٹ سے معصوم اور متوسط اور غریب لوگوں کو پریشان کیا جا رہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب مریض کے آخری وقت قریب آ جائے تورشتہ دار ان کو کلمہ پڑھائیں اور ان کی خدمت انجام دیں۔ موت اور رزق دینے والا اللہ ہے۔ اس ڈرامہ میں ایم مبین نے ڈاکٹر اسلم اور دوسرے ڈاکٹر کی گفتگو کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ
’’ڈاکٹر: کون ہیں آپ اس طرح شور کیوں مچارہے ہیں
ڈاکٹر اسلم: میرا نام ڈاکٹر اسلم ہے اور یہ میرا مریض تھا جس کو پانچ دنوں سے تم نے وینٹی لیٹر پر رکھا ہے اور اس کی آڑ میں معصوم بھولے بھالے لوگوں کو لوٹ رہے ہو، تم ڈاکٹر نہیں قصائی ہو، ڈاکو ہو، ڈاکٹر کے نام پردھبہ ہو۔
ڈاکٹر: آپ تمیز سے بات کیجیے، میں اس شہر کا مانا ہوا ڈاکٹر ہوں۔
ڈاکٹر اسلم: لیکن اس کی آڑ میں تم جس طرح لوگوں کو لوٹ رہے ہو میں ابھی ثابت کر دوں گا اور تمہارا اصلی چہرہ دنیا کو بتا دوں گا، تمہیں حوالات میں بھیج دوں گا
ڈاکٹر: لیکن کیوں میں نے ایسا کیا گناہ کیا ہے۔
ڈاکٹر اسلم: تم نے ایک ایسے آدمی کو وینٹی لیٹر پر لگا رکھا ہے جو پانچ دن پہلے مر چکا ہے اور تم اس کی اڑ میں اپنے اسپتال کا بل بڑھا رہے ہو۔ پتہ نہیں کون سے پچاس ہزار روپئے کا انجکشن لگا رہے ہو، ہزاروں روپئے کی دوائیں ان سے منگوارہے ہو۔‘‘
اس کتاب کے دیگر ڈرامے بھی کافی اہم اور معلوماتی ہیں۔ ان ڈراموں میں ایک حقیقت، سچائی، ایک کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایم مبین ایک اچھے قلمکار ہیں۔ انہوں نے سماجی مسائل کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا ہے۔ ڈرامہ نگاری سے ان کی دلچسپی کافی گہری ہے۔ ڈراموں سے ان کا رشتہ کافی اٹوٹ ہے۔ علاقہ مہاراشٹرا میں وہ اپنے ڈرامہ نگاری کی وجہ سے کافی مقبول ہیں۔ ایم مبین کو ان کے ڈراموں کے مجموعہ گونگاسچ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کی جاتی ہے اور ان سے اس بات کی امید بھی ہے کہ ڈرامہ نگاری کے فروغ میں وہ ایک سپاہی کے طور پر اپنا تعاون پیش کریں گے اور نسل نو کو ڈرامہ نگاری کے فن سے آگاہی فراہم کریں گے۔ ان کے یہ ڈرامے اسکولوں، کالجس اور سماج کے مختلف طبقات میں پیش کرنے کے قابل ہیں۔ یہ کتاب رحمانی پبلیکیشن اسلام پورہ مالیگاؤں مہاراشٹرا سے موبائیل نمبر: 09890801886 پر رابطہ پیدا کرتے ہوئے حاصل کر سکتے ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے