دیوی ناگرانی

شبنمی ہونٹ نے چھوا جیسے
کان میں کچھ کہے ہوا جیسے

لے کے آنچل اڑی ہوا کچھ یوں
سیر کو نکلی ہو صبا جیسے

اس سے کچھ اس طرح ہوا ملنا
مل کے کوئی بچھڑ رہا جیسے

اک طبیعت تھی ان کی، اک میری
میں ہنسی ان پہ بل پڑا جیسے

لوگ کہہ کر مکر بھی جاتے ہیں
آنکھ سچ کا ہے آئینہ جیسے

وہ کناروں کے بیچ کی دوری
ہے گوارا یہ فاصلہ جیسے

شہر میں بم پھٹا تھا کل لیکن
دل ابھی تک ڈرا ہوا جیسے

دیکھ کر آدمی کی کرتوتیں
آتی مجھ کو رہی حیا جیسے

ٹوٹ کر شاخ سے گرا پتّہ
وہ خزاں سے ہی ڈر گیا جیسے

جس سہارے میں پختگی ڈھونڈھی
تھا وہی ریت پر کھڑا جیسے
٭٭٭

اسے عشق کیا ہے پتہ نہیں
کبھی شمع پر جو جلا نہیں

وہ جو ہار کر بھی ہے جیتتا
اسے کہتے ہیں وہ جوا نہیں

ہے ادھوری سی میری زندگی
میرا کچھ تو پورا ہوا نہیں

نہ بجھا سکیں گی یہ آندھیاں
یہ چراغ دل ہے دیا نہیں

میرے ہاتھ آئی برائیاں
میری نیکیوں کو گلا نہیں

میں جو عکس دل میں اتار لوں
مجھے آئنہ وہ ملا نہیں

جو مٹا دے ‘دیوی’ اداسیاں
کبھی سازے دلے یوں بجا نہیں
٭٭٭

خوبصورت دوکان ہے تیری
ہر نمائش میں جان ہے تیری

یوں تو گونگی زبان ہے تیری
ہر تمنا جوان ہے تیری

کچھ تو کالا ہے دال میں شاید
لڑکھڑاتی زبان ہے تیری

پیٹ ٹکڑوں پہ پل ہی جاتا ہے
اب ضرورت مکان ہے تیری

چیر کر تیر نے رکھا دل کو
ٹیڑھی چتون کمان ہے تیری

پھول سا دل لگے ہے کمہلانے
آگ جیسی زبان ہے تیری
٭٭٭
یوں اس کی بیوفائی کا مجھ کو گلا نہ تھا
اک میں ہی تو نہیں جسے سب کچھ ملا نہ تھا

اٹھتا چلا گیا میری سوچوں کا کارواں
آکاش کی طرف کبھی، وہ یوں اڑا نہ تھا

ماحول تھا وہی صدا، پھترت بھی تھی وہی
مجبور عادتوں سے تھا، آدم برا نہ تھا

جس درد کو چھپا رکھا مسکان کے تلے
برسوں میں ایک بار بھی کم تو ہوا نہ تھا

ڑھوتے رہے ہے بوجھ صدا تیرا زندگی
جینے میں لطف کیوں کوئی باقی بچا نہ تھا

کتنے نقاب اوڑھ کے دیوی دئیے فریب
جو بے نقاب کر سکے وہ آئینہ نہ تھا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے