مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔

نئے شمارے کے ساتھ پھر ایک بار حاضر ہوں۔ ’سمت‘ اردو کا آن لائن ادبی جریدہ ہے، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ لیکن کیا اردو سے مراد صرف اردو ادب ہے؟
جی ہاں، عملی طور پر تو واقعی ایسا ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کا ثبوت وہ بے شمار سیمنارس اور کانفرینسیز ہیں جن میں تحقیقی مقالات ’پڑھے‘ جاتے ہیں۔ کیا ایسا دوسرے مضامین یا زبانوں میں بھی ہوتا ہے؟ میں خود بیسیوں سیمناروں میں شرکت کر چکا ہوں، جو میرے اپنے مضمون ارضیات سے متعلق تھے۔ ہر سیمنار میں محققین اپنی تحقیق ’پیش‘ کرتے ہیں۔ جس کے لیے پہلے سلائڈ اور اوور ہیڈ پروجیکٹر استعمال ہوتے تھے، اور اب کمپوٹر کے زمانے میں پریزینٹیشن ٹولس جیسے مائکرو سافٹ پاور ہائنٹ پریزینٹیشن۔ لیکن اردو کے سیمناروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں ’محققین‘ (اس تخاطبی نشان کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ میرا اشارہ در اصل یہ ہے کہ یہ نام نہاد محقق ہوتے ہیں) محض اپنے مضامین کی اسی طرح قرأت کر کے چلے جاتے ہیں جس طرح کوئی افسانہ سنایا جاتا ہے۔ اردو کا ادبی سیمنار ہو تو بات قبول کی جا سکتی ہے کہ وہاں تحقیقی سے مراد صرف اپنا نکتۂ نظر پیش کرنا یا موجود وسائل کا جمع کرنا بھی تحقیق میں شامل ہوتا ہے۔ اور ان کو اس طرح پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جس طرح دوسرے مضامین میں تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن ادھر کچھ سالوں سے کم از کم ہندوستان میں یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ قومی اردو سائنس کانگریسیں بھی منعقد کی جا رہی ہے جن کا،قابلہ قومی سائنس کانگریس (National Science Congress) سے کیا جانا چاہیے جو ہر سال کسی نہ کسی یونیورسٹی میں منعقد ہوتی ہے۔ لیکن اس قومی اردو سائنس کانگریس میں بھی وہی سب کچھ دیکھنے میں آتا ہے جو اردو کے ادبی سیمناروں کی ’خصوصیت‘ ہے۔ سائنس کانگریس سے مراد سائنسی ادب پر اپنا مضمون پڑھنا ہی نہیں ہے۔ اوریجنل تحقیق کو اردو میں پیش کرنا چاہیے۔ اور اس کے لیے سائنس دانوں کی شرکت ہونی چاہیے، نہ کہ سائنس فکشن رائٹرس کی یا طلباء کے لیے پاپولر سائنسی مضامین لکھنے والے ’ادیبوں‘ کی۔ یوں اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سائنسی موضوعات پر لکھنے والوں کی بھی ضرورت ہے اور ایسے پاپولر لکھنے والوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر لانا ایک اچھا قدم کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے سائنس کانگریس کا نام تو نہ دیا جائے!!حال ہی میں جو مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدر آباد دکن میں دوسری قومی سائنس کانگریس منعقد ہوئی، (اور جس میں میں نے بھی شرکت کی اور اپنا ارضیات کے موضوع پر پاور پائنٹ پریزینٹیشن پیش کیا) اس میں بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا البتہ اسی کانفرینس میں یہ بھی طے پایا کہ ایک سائنسی ادیبوں کی قومی ایسوسی ایشن بنائی جائے۔ یہ یقیناً درست اقدام ہو گا اس قسم کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کا، اور اسی ایسو سی ایشن کے تحت سالانہ کانفرینس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن سائنس کانگریس تو چیزے دیگر است!!
اسی طرح اسی یونیورسٹی میں ایک اور قومی سیمنار ترجمہ اور مشینی ترجمے کے موضوع پر منعقد کیا گیا (جس میں پیش کیا گیا میرا مقالہ اسی شمارے میں شامل ہے) لیکن تعجب خیز امر یہ تھا کہ مشینی ترجمے کے بارے میں بھی ’تحقیقی‘ مضامین کی محض ’قرأت‘ کی گئی، ان کو ’پیش‘ نہیں کیا گیا!!!
البتہ یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ کم از کم اردو میں اب ’غیر ادبی‘ (یا ’بے ادب‘؟) سیمنار بھی وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں واقعی اردو کے غیر ادبی موضوعات کے سیمناروں میں اسی طرح اوریجنل تحقیق پیش کی جائے گی جس طرح دوسرے سائنسی اور دیگر مضامین میں سیمنار ہوتے ہیں۔
پچھلے سہ ماہی میں اردو شاعری کے دو ستون ڈھہ گئے۔ محمد علوی اور ساقی فاروقی دونوں جدید اردو غزل کے بانیوں میں سے تھے۔ افسوس کہ اب یہ نسل ظفر اقبال جیسی شخصیت کے سوا باقی روشن ستاروں سے محروم ہو گئی۔ اللہ ظفر اقبال کو مزید طویل عمر عطا کرے۔ یہ غم تازہ ہی تھے اور ان پر یاد رفتگاں کے سلسلے کی ترتیب دی ہی تھی کہ جعفر ساہنی کی بھی سناؤنی آ گئی۔ ان کو بھی اس شمارے میں ان کی کچھ نظمیں غزلیں شامل کر کے یاد کیا جا رہا ہے۔
اردو ادب کے علاوہ دنیا ایک اور عظیم سائنس داں اور شاید آئنسٹائن کے بعد سب سے بڑی عبقری شخصیت سے محروم ہو گئی جس نے اپنی محرومیت کے باوجود زندگی سے ہار نہیں مانی۔ سٹیون ہاکنگ کی کتاب اے بریف ہسٹری آف ٹائم (وقت کا سفر) کے ایک باب کی اشاعت کے ذریعے اب کو بھی اس شمارے میں یاد کیا گیا ہے۔
اور جس وقت یہ شمارہ مکمل ترتیب پا گیا تھا تو ہندی کے شاعر کیدار ناتھ سنگھ کے انتقال کی خبر ملی۔ان کی بھی کچھ نظمیں شامل اشاعت کی جا رہی ہیں۔
پچھلے شمارے پر قارئین کے آن لائن تبصروں میں ہندی کی معروف سینیر ادیبہ دیوی ناگرانی کی رائے بھی شامل تھی۔ محترمہ دیوی ناگرانی نہ صرف خود اردو پڑھ سکتی ہیں، بلکہ ’سمت‘ کے مشمولات دیکھ کر انہوں نے بھی خود کو اردو کی ادیبہ کے طور پر پیش ہونے کی پیشکش کی ہے اور اس ضمن میں اپنی کچھ ہندی کہانیاں اور غزلیں مشینی ترجمہ کر کے بھیجی ہیں (جن میں سے ایک کہانی میری اسی تحقیق کا مٹیریل بھی ثابت ہوئی جو اسی شمارے میں شامل ہے)۔ ویسے آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ’سمت‘ میں ’مانگے کا اجالا‘ ایک مستقل سیکشن ہے اور اس سیکشن میں اکثر میں نے ہندی زبان کا ادب پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود ہی کچھ مشینی ترجمہ کر کے، اور کچھ اسی کی تدوین کر کے (اس لیے اکثر میں اسے ترجمے کی بجائے رسم الخط کی تبدیلی کا نام دیتا ہوں)۔ اور اتفاق سے اس سیکشن ’مانگے کا اجالا‘ کے لیے عامر صدیقی نے انہیں کی کہانی کا ترجمہ خود کر کے بھی بھیجا تھا، جو شامل اشاعت ہے۔ بہر حال دیوی جی کا اس شمارے میں شامل ان کی غزلوں کی شمولیت کے ذریعے اردو دنیا میں خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ گویا انہیں اب اردو شاعرہ تو کہا ہی جا سکتا ہے لیکن افسانہ نگار اگلے شمارے میں ان کے کسی افسانے کی شمولیت پر کہا جا سکے گا۔
ا۔ع۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے