غزلیں۔۔۔ محمد علوی

جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
کچھ نہیں تو ایک دو چنگاریاں رکھ جاؤں گا

نیند میں بھی خواب رکھنے کی جگہ باقی نہیں
سوچتا ہوں یہ خزانہ اب کہاں رکھ جاؤں گا

سب نمازیں باندھ کر لے جاؤں گا میں اپنے ساتھ
اور مسجد کے لیے گونگی اذاں رکھ جاؤں گا

جانتا ہوں یہ تماشہ ختم ہونے کا نہیں
ہال میں اک روز خالی کرسیاں رکھ جاؤں گا

چاند سورج اور تارے پھونک ڈالوں گا سبھی
اس زمیں پر ایک ننگا آسماں رکھ جاؤں گا

چھوڑ دوں گا اب میں علویؔ آخری دن کی تلاش
اور ادب کے شہر میں خالی مکاں رکھ جاؤں گا
٭٭٭

س کی بات کا پاؤں نہ سر
پھر بھی چرچا ہے گھر گھر

چیل نے انڈا چھوڑ دیا
سورج آن گرا چھت پر

اچھا تو شادی کر لی
جا اب بچے پیدا کر

لے یہ پتھر ہاتھ میں لے
مار اسے میرے سر پر

پھوہڑ اس مہنگائی میں
آٹا تو گیلا مت کر

میرے پتے دیکھ ذرا
دو اکے اور اک جوکر

اس کا ٹیڑھا اونٹ نہ دیکھ
اپنا الو سیدھا کر

بیوی اکیلی ڈرتی ہے
شام ہوئی اب چلیے گھر

علویؔ عادلؔ اور ظفرؔ
تینوں کے تینوں اندر
٭٭٭

چاند کی کگر روشن
شب کے بام و در روشن

اک لکیر بجلی کی
اور رہ گزر روشن

اڑتے پھرتے کچھ جگنو
رات ادھر ادھر روشن

رات کون آیا تھا
کر گیا سحر روشن

پھول قمقموں جیسے
تتلیوں کے پر روشن

لڑکیوں سے گلیاری
کھڑکیوں سے گھر روشن

اپنے آپ کو یارب
اب تو ہم پہ کر روشن

میں درخت اندھا ہوں
دے مجھے ثمر روشن

شعر مت سنا علویؔ
داغ دل نہ کر روشن
٭٭٭

شانتی کی دکانیں کھولی ہیں
فاختائیں کہاں کی بھولی ہیں

کیسی چپ سادھ لی ہے کوؤں نے
جیسے بس کوئلیں ہی بولی ہیں

رات بھر اب اودھم مچائیں گے
خواہشیں دن میں خوب سو لی ہیں

چل پڑے ہیں کٹے پھٹے جذبے
حسرتیں ساتھ ساتھ ہو لی ہیں

کون قاتل ہے کیا پتہ چلتا
سب نے اپنی قبائیں دھو لی ہیں

شعر ہوتے نہیں تو علویؔ نے
خون میں انگلیاں ڈبو لی ہی
٭٭٭

منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے
پہلے بچے بھی کتنے بوڑھے تھے

اک پرندہ سنا رہا تھا غزل
چار چھ پیڑ مل کے سنتے تھے

جن کو سوچا تھا اور دیکھا بھی
ایسے دو چار ہی تو چہرے تھے

اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

رات اترا تھا شاخ پر اک گل
چار سو خوشبوؤں کے پہرے تھے

آج کی صبح کتنی ہلکی ہے
یاد پڑتا ہے رات روئے تھے

یہ کہاں دوستوں میں آ بیٹھے
ہم تو مرنے کو گھر سے نکلے تھے

یہ بھی دن ہیں کہ آگ گرتی ہے
وہ بھی دن تھے کہ پھول برسے تھے

اب وہ لڑکی نظر نہیں آتی
ہم جسے روز دیکھ لیتے تھے

آنکھیں کھولیں تو کچھ نہ تھا علویؔ
بند آنکھوں میں لاکھوں جلوے تھے
٭٭٭

تو سب کہتے ہیں کیا ہے
چپ رہنے میں اور مزا ہے

کیا پایا دیوان چھپا کر
لو ردی کے مول بکا ہے

دروازے پر پہرہ دینے
تنہائی کا بھوت کھڑا ہے

گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو
دیواروں نے گھیر لیا ہے

میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں
کون یہاں سو سال جیا ہے

آگے پیچھے کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں تو پھر یہ کیا ہے

باہر دیکھ چکوں تو دیکھوں
اندر کیا ہونے والا ہے

ایک غزل اور کہہ لو علویؔ
پھر برسوں تک چپ رہنا ہے
٭٭٭

نیند را توں کی اڑا دیتے ہیں
ہم ستاروں کو دعا دیتے ہیں

روز اچھے نہیں لگتے آنسو
خاص موقعوں پہ مزا دیتے ہیں

اب کے ہم جان لڑا بیٹھیں گے
دیکھیں اب کون سزا دیتے ہیں

ہائے وہ لوگ جو دیکھے بھی نہیں
یاد آئیں تو رلا دیتے ہیں

دی ہے خیرات اسی در سے کبھی
اب اسی در پہ صدا دیتے ہیں

آگ اپنے ہی لگا سکتے ہیں
غیر تو صرف ہوا دیتے ہیں

کتنے چالاک ہیں خوباں علویؔ
ہم کو الزام وفا دیتے ہیں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے