سلیم صدیقی کا رزمیاتی آہنگ۔۔۔ حقانی القاسمی

وقت کے ہونٹوں پہ جو شعر رواں ہو جاتے ہیں، ان کی قیمت ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ہر شعر کو نہ سینہ نصیب ہوتا ہے اور نہ مصرعوں کو ہونٹوں کی پناہ ملتی ہے۔ محبوبیت اور مقبولیت کے ستارے ہر شعر کا مقدر نہیں ہوتے۔ خاص طور پر نئی نسل کے شاعروں کا نصیب تو اتنا روشن نہیں ہے کہ انھیں شہرت و مقبولیت کے ساتھ عظمت و اعتبار بھی حاصل ہو۔
اس کی کئی وجہوں میں سے ایک وجہ یہ بھی یہ ہے کہ آج کے شعر اپنے اطراف و اکناف کی سیاحت کرتے کرتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور زندگی کا حصہ بننے سے پہلے ہی دام اجل میں آ جاتے ہیں۔ زوال ذوق کی وجہ سے عمدہ شعروں کا بھی حشر اچھا نہیں ہوتا۔ صرف وہی شعر حوالوں میں شامل ہوتے ہیں جنہیں لفظیات اور فکریات دونوں سطحوں پر استحکام حاصل ہو۔
آج صورت حال یہ ہے کہ لفظیات میں کشش ہے تو فکریات میں اضمحلال۔ شاعروں کا المیہ یہ ہے کہ اب انھیں زبان کے کنوئیں جھانکنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مشاہدے کی۔ جن شعروں میں مشاہدے کی قوت ہوتی ہے اور زندگی کے ویزولس ہوتے ہیں وہ شعر ذہنوں میں جگہ بنا لیتے ہیں اور ان سے سماعتوں کا رشتہ بھی قائم ہو جاتا ہے۔
کس قدر دیکھئے معصوم ہے قاتل میرا
قتل کرتا ہے مگر ہاتھ میں شمشیر نہیں
کم سے کم اس میں تو کچھ امن و سکوں رہنے دو
یہ مرا دل ہے کوئی وادیِ کشمیر نہیں
یہ دیش بھگتی کی سند مانگنے والے سن لیں
ملک سب کا ہے کسی ایک کی جا گیر نہیں
یہ تاج خسروی تم کو مبارک
یہ شاہوں سے قلندر بولتا ہے
مسئلہ یہ نہیں کہ کم ہے اناج
مسئلہ سڑ رہے اناج کا ہے
کیسی تشویش ملک و ملت کی
سارا جھگڑا تو تخت و تاج کا ہے
یہ وہ شعر ہیں جن میں عنوان بننے کی پوری قوت موجود ہے۔ ان میں کچھ شعر سیاسی بیانیہ کی حیثیت رکھتے ہیں مگر داخلی تخلیقیت سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ان کی معنویت مختلف ہو گئی ہے ان شعروں میں جہاں عصری حسیت ہے وہیں سماجی درد مندی کا احساس۔ ایک شاعر جب تک سماج کے جز و کل سے آگاہ نہ ہو اس طرح کے شعر اس کی تخلیقی فکر یا کلچر کا حصہ نہیں بن سکتے۔ یہ اشعار صحافتی اظہاریہ بھی کہلا سکتے ہیں۔ مگر ان میں شعری جمالیات کے تقاضوں کی تکمیل بھی ہے اور وہ تخلیقی جوہر بھی جو نثری ساخت کو ترنم اور آہنگ عطا کر کے اس کی پوری کیفیت تبدیل کر دیتا ہے۔ ان اشعار میں ہمارے عہد کا آشوب ہے۔ زمانے کی تصویر ہے۔ حیات و کائنات کے حقائق ہیں۔ سماج کی داخلی تنظیم و ترتیب کے بکھراو کا بیان ہے۔ سیاست اور سماج سے مکالمہ کی شکلیں بھی شاعری میں نمایاں ہیں۔ اور وہ طنزیاتی تاثر بھی ہے جو صحافتی زوم لینس کا کرشمہ یا کاریگری ہے۔
شاعری میں حیرتیں اور ندرتیں نہ ہوں تو شاعری اپنی تاثیر کھو دیتی ہے۔ سلیم کے یہاں زیادہ نہ سہی مگر تحیر کا وصف موجود ہے:
دینے کو ان کے پاس دعا تک نہیں بچی
اس سے زیادہ ہو گی کوئی مفلسی کی حد
سلیم صدیقی کی شاعری میں احساس و اظہار کی ہم مرکزیت ہے۔ ان کے بیشتر شعروں میں دونوں سطح پر توانائی وہ عنصر ہے جس نے ان کے کچھ شعروں کو انبوہ سے الگ کر دیا ہے۔
سلیم صدیقی کی شاعری میں مشاہدہ کے ساتھ مجاہدہ بھی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی شاعری میں حرکی توانائی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

ملک کی گلیاں لہو پینے کی عادی ہو نہ جائیں
یہ تعصب زہر کا ذہنوں میں بھرنا چھوڑ دے
مذہبی جذبات کے سارے پٹارے بند کر
اے سیاست کے مداری یہ تماشہ چھوڑ دے
منصب کا کیا قصور ہے قانون کیا کرے
سارے گواہ وقت گواہی پلٹ گئے
نفرت کی آندھیوں نے نگر کر دیا کھنڈر
ہے ہر طرف دھواں ہی دھواں آگ لگ گئی
نئے شہروں کی سڑکیں بھی نئی ہیں
برائے نام سر پر سائباں ہیں
کبھی غدار کبھی مورد الزام جفا
یہ صلے ہم کو ملے ملک کی خدمات کے بعد
لٹ گیا صبر و سکوں چند ہی لمحات کے بعد
شہر میں کچھ نہ بچا اب کے فسادات کے بعد
یہ معاشرہ کی کلی خارجیت کا پر اثر داخلی اظہار ہے۔ سلیم صدیقی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ کچھ غزلوں میں رمزیاتی کے بجائے رزمیاتی انداز اختیار کیا ہے۔ جبکہ غزل رمزیت اور ایمائیت سے عبارت ہوتی ہے۔ رمز سے قدرے انحراف ان کی شاعری کے لئے یوں بھی زیبا ہے کہ قلندر کنایوں میں بات نہیں کرتا۔ وہ دو ٹوک لہجے میں اپنے باطنی احساس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کا سماج سے سیدھا تخاطب ہوتا ہے۔ وہ مقتل میں منصور اور سر دار بھی سقراط ہی رہتا ہے۔ سلیم کے شعروں میں وہی رجزیاتی آہنگ ہے جو منصور سے مخصوص ہے۔:
جس میں نا کردہ گناہوں کی سزا دی جائے
ایسی جمہور کی تاریخ مٹا دی جائے
کارواں جس کی حفاظت میں لٹے ہوں اکثر
ایسے رہبر کو سر عام سزا دی جائے
سیاسی سماجی مسائل کے ادراک و آگہی نے ان کے شعروں کے تیور تند کر دئے ہیں۔ اور اس تندی نے ان کے شعروں میں تاثیر کی توانائی رکھ دی ہے۔ سیاسی سماجی جبریت کے خلاف شاعر کا انفرادی آہنگ، اجتماعی آہنگ میں تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یہی فنکار کی کامیابی ہوتی ہے کہ اس کی آواز ہر فرد کا احساس بن جائے۔ سلیم صدیقی اس محاذ پر کامران نظر آتے ہیں کہ ان کے تخلیقی وجدان پر اجتماعیت کے آمنا صدقنا کی مہر ثبت ہو گئی ہے۔
سلیم صدیقی کی شاعری حیات و کائنات کے شام و سحر کا روزنامچہ ہے۔ وہ شام و سحر جس کا رشتہ ماضی سے بھی ہے اور مستقبل سے بھی۔ یہ زمانی و مکانی تعینات سے ماورا شام و سحر ہیں جن میں حقیقتیں اپنی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ سلیم کی شاعری میں انہی بدلتی حقیقتوں کا عرفان ہے۔ عالمگیریت، استعماریت، فسطائیت سے لے کر جدید انسان کے بحران تک کے موضوعات اور مسائل اس شاعری کے متن کا حصہ بنے ہیں
اب امن و سکوں ہے نہ کوئی جشن نیا ہے
اس دور کی تقدیر میں بس کرب و بلا ہے
یہاں انسان کا ناحق لہو سڑکوں پہ بہتا ہے
یہ جنگل راج ہے اس راج میں جانوں کی قیمت کیا
پیسہ ہی آج زیست کی میزان ہے سلیم
علم و ہنر کی اب کوئی قیمت نہیں رہی
۔ یہ ایک ہی سمت میں سفر کرنے والی شاعری نہیں ہے۔ اس کا دائرہ صارفی سماج سے ما بعد الطبیعاتی احساس تک پھیلا ہوہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے