نظمیں۔۔۔ محمد علوی

موت

_____

 

تو ہم سب کی ماں ہوتی ہے
ہم سب تیری گود میں آ کر
گہری نیند میں کھو جاتے ہیں
دیکھ میں تیرے پیچھے کب سے
ہاتھ پسارے بھاگ رہا ہوں
ماں مجھ کو بھی گود میں لے لے
میں برسوں سے جاگ رہا ہوں
٭٭٭

 

تخلیق

_______

 

ایک زنگ آلودہ
توپ کے دہانے میں
ننھی منی چڑیا نے
گھونسلہ بنایا ہے
٭٭٭

 

گھر

_____

 

اب میں گھر میں پاؤں نہیں رکھوں گا کبھی
گھر کی اک اک چیز سے مجھ کو نفرت ہے
گھر والے سب کے سب میرے دشمن ہیں
جیل سے ملتی جلتی گھر کی صورت ہے
ابا مجھ سے روز یہی فرماتے ہیں
’کب تک میرا خون پسینہ چاٹو گے ‘
اماں بھی ہر روز شکایت کرتی ہیں
’کیا یہ جوانی پڑے پڑے ہی کاٹو گے ‘
بھائی کتابوں کو روتا رہتا ہے سدا
بہنیں اپنا جسم چرائے رہتی ہیں
میلے کپڑے تن پہ داغ لگاتے ہیں
بھیگی آنکھیں جانے کیا کیا کہتی ہیں
چولھے کو جی بھر کے آگ نہیں ملتی
کپڑوں کو صندوق ترستے رہتے ہیں
دروازہ کھڑکی منہ کھولے تکتے ہیں
دیواروں پر بھتنے ہنستے رہتے ہیں
اب میں گھر میں پاؤں نہیں رکھوں گا کبھی
روز یہی میں سوچ کے گھر سے جاتا ہوں
سب رستے ہر پھر کے واپس آتے ہیں
روز میں اپنے آپ کو گھر میں پاتا ہوں
٭٭٭

 

گرمی

____

 

 

رات اب سیانی ہو گئی ہے
گڑیا کھو جائے
تو روتی نہیں
بخار میں مبتلا
بوڑھے آسمان میں
اتنی بھی سکت نہیں
کہ اٹھ کر وضو کرے
سورج خوں خوار بلے کی طرح
ایک ایک چیز پر
اپنے ناخن تیز کرتا ہے
ہوا کا جھونکا
چوہے کی مانند
بل سے باہر آتے ڈرتا ہے
وقت آج کل
دوزخ کے آس پاس سے گزرتا ہے
٭٭٭

 

جنم دن

______

 

سال میں اک بار آتا ہے
آتے ہی مجھ سے کہتا ہے
کیسے ہو
اچھے تو ہو
لاؤ اس بات پہ کیک کھلاؤ
رات کے کھانے میں کیا ہے
اور کہو کیا چلتا ہے
پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا ہے
پھر گھڑی دیکھ کے کہتا ہے
اچھا تو میں جاتا ہوں
پیارے اب میں
ایک سال کے بعد آؤں گا
کیک بنا کے رکھنا
ساتھ میں مچھلی بھی کھاؤں گا
اور چلا جاتا ہے
اس سے مل کر
تھوڑی دیر مزا آتا ہے
لیکن پھر میں سوچتا ہوں
خاص مزا تو تب آئے گا
جب وہ آ کر
مجھ کو ڈھونڈتا رہ جائے گا
٭٭٭

مچھلی کی بو

_________________

 

 

بستر میں لیٹے لیٹے
اس نے سوچا
’میں موٹا ہوتا جاتا ہوں
کل میں اپنے نیلے سوٹ کو
آلٹر کرنے
درزی کے ہاں دے آؤں گا
نیا سوٹ دو چار مہینے بعد سہی!
درزی کی دوکان سے لگ کر
جو ہوٹل ہے
اس ہوٹل کی
مچھلی ٹیسٹی ہوتی ہے
کل کھاؤں گا
لیکن مچھلی کی بو سالی
ہاتھوں میں بس جاتی ہے
کل صابن بھی لانا ہے
گھر آتے
لیتا آؤں گا
اب کے ’یارڈلی‘ لاؤں گا
آفس میں کل کام بہت ہے
باس اگر ناراض ہوا تو
دو دن کی چھٹی لے لوں گا
اور اگر موڈ ہوا تو
چھ کے شو میں
’رام اور شیام‘ بھی دیکھ آؤں گا
پکچر اچھی ہے سالی
کلب رمی
دو دون سے لک اچھا ہے
کل بھی ساٹھ روپے جیتا تھا
آج بھی تیس روپے جیتا ہوں
اور امید ہے
کل بھی جیت کے آؤں گا
بس اب نیند آئے تو اچھا
کل بھی
جیت کے
نیند آئے تو
اکا دکا نہلہ دہلہ
اینٹ کی بیگم
مچھلی کی بو
تاش کے پتے
جو کر جوکر
سوٹ پہن کر
موٹا تگڑا جوکر۔۔۔ ‘
اتنا بہت سا سوچ کے وہ
سویا تھا مگر
پھر نہ اٹھا!!
دوسرے دن جب
اس کا جنازہ
درزی کی دوکان کے پاس سے گزرا تو
ہوٹل سے مچھلی کی بو
دور دور تک آئی تھی!!!
٭٭٭

میں اور تو

_______________

 

خداوند۔۔۔ مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ میں تجھ سے نظریں ملاؤں
تری شان میں کچھ کہوں
تجھے اپنی نظروں سے نیچے گراؤں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ تو
روز اول سے پہلے بھی موجود تھا
آج بھی ہے
ہمیشہ رہے گا
اور میں
میری ہستی ہی کیا ہے
آج ہوں
کل نہیں ہوں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
مگر آج اک بات کہنی ہے تجھ سے
کہ میں آج ہوں
کل نہیں ہوں
یہ سچ ہے مگر
کوئی ایسا نہیں ہے
کہ جو میرے ہونے سے انکار کر دے
کسی میں یہ جرات نہیں ہے
مگر تو
بہت لوگ کہتے ہیں تجھ کو
کہ تو وہم ہے
اور کچھ بھی نہیں ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے