شاہد ماکلی

تمثیل میں یہ سین بھی لے آنا پڑا ہے
پرچھائیں کو پرچھائیں سے مروانا پڑا ہے

کم روشنی سے کام مرا چلتا نہیں تھا
آخر مجھے دو کرنوں کو ٹکرانا پڑا ہے

ممکن ہے کہ یوں راہ کی بہتر سمجھ آئے
خود کو کہیں آغاز میں لے جانا پڑا ہے

اُس خواب کی کل عمر فقط ایک ہی شب تھی
صد شام و سحر پر جسے پھیلانا پڑا ہے

کتنے ہی سبق بھولتا جاتا تھا مَیں شاہدؔ
آموختہ پھر سے مجھے دُہرانا پڑا ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے