اسد اقبال

عشق حائل ہو گا یہ وجدان کب تھا
ہار جانے میں کوئی نقصان کب تھا

دل مرا یعنی کہ اُس کا گھر لُٹا ہے
گھر کے اندر اب مرا سامان کب تھا

تُجھ سے تو صدیوں کی ہو پہچان جیسے
سوچتا ہوں دل کو تیرا دھیان کب تھا

سچ میں ہم حالات کے مارے تھے ورنہ
اس طرح سے جینے کا ارمان کب تھا

یہ نہ سمجھو، کچھ خبر تو تھی اسد کو
وہ فقط خاموش تھا انجان کب تھا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے