دریچے: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی۔۔۔ ڈاکٹر بی داؤد محسنؔ

نام کتاب۔ دریچے
مصنف: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
مبصر: ڈاکٹر بی داؤد محسنؔ(پرنسپل یس۔ کے۔ اے۔ ایچ ملّت کالج داونگرے۔ کرناٹک )

اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غلبے والی صدی ہے۔ اور خوش آئیند بات ہے کہ ہماری اردو زبان بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ اردو کے اکثر شعرا اور ادیب اردو اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کم ہی معلومات رکھتے ہیں لیکن ادھر کچھ عرصے سے کچھ باصلاحیت نوجوان ادیب سامنے آ رہے ہیں جو اردو کے عصری تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنی زبان کی نہ صرف عظیم خدمت کر رہے ہیں بلکہ اس میں نئے تجربے کرتے ہوئے اردو کو عالمی سطح پر پہونچانے کا کام کر رہے ہیں۔ عصر حاضر میں اردو زبان و ادب کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے اور ادب کے فروغ میں نئی نسل کی نمائندگی کرنے والوں میں دکن کی سرزمین سے ایک اہم نام ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا ہے۔ وہ بنیادی طور پر بلند پایہ محقق، منفرد نقاد، مقبول عام مضمون نگار، مترجم، اردو اور ٹیکنالوجی کے ماہر اور سوشل میڈیا کی اہم شخصیت ہیں۔ پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں اور صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد میں برسر کار ہیں۔ تصنیف و تالیف ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اور ’’دریچے ‘‘ کے عنوان سے اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے ساتھ پیش ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں عزیز احمد کی ناول نگاری اور برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی مقبول ہو چکی ہیں۔ اور مقبول عام ویب سائٹ ریختہ ڈاٹ کام کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اپنے ہم عصروں میں ایک خاص انفرادیت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے یہ فن فیشن کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے اندر پائی جانے والی تلاش و جستجو کی امنگ نے انہیں اس میدان کا شہسوار بنایا ہے۔ اتنی بات سب ہی جانتے ہیں کہ تحقیق اور تنقید کا رشتہ چولی دامن کا ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تنقید کا عمل تخلیق کے ساتھ ہوتا ہے اور تخلیق کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ادب میں تخلیق، تحقیق اور تنقید کا ایک مثلث دکھائی دیتا ہے۔ تخلیق سے ہٹ کر جب ہم صرف تحقیق کی بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دور حاضر میں یونیورسٹیوں میں ڈگریوں کی خاطر ہونے والی تحقیق عموماً ایک جیسی ہوتی ہے جس میں تنقیدی پہلو اور افکار کا فقدان ہوتا ہے لیکن انفرادی اور ذاتی طور پر جو تحقیق ہوتی ہے اس میں تنقیدی افکار، علمی بصیرت اور فنّی پختگی دیکھی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ایک ایسے ہی محقق اور نقاد کا نام ہے جن کے یہاں گہرے تحقیقی شعور کے ساتھ ساتھ تنقیدی بالیدگی پائی جاتی ہے جنہوں نے ایک عرصہ سے اس میدان کارزار میں ادبی تخلیقات کو فن کی کسوٹی پر پرکھنے اور اس میں پائے جانے والے احسن پہلوؤں اور عیوب کو اجاگر کرتے ہوئے ادب کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ انہوں نے اپنی علمی و فنی صلاحیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی جولانی طبع اور تخلیقی ندرت کا بھرپور احساس دلایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زبان کی خدمت بھی عبادت ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے زبان کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے رکھا ہے، اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنا تے ہوئے اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ ایسے لگتا ہے گویا وہ اردو کے لیے جی رہے ہیں، ان کی سانسوں میں اردو ہے اور ان کے خون کے خلیوں میں اردو رچی بسی ہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اردو کے ایک ایسے مجاہد اردو ہیں جنہوں نے دینی مدرسے سے حفظ کی سند لینے کے بعد کسی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے ہوئے زندگی گزارنے کے بجائے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی، ڈگری کالج میں لکچرر بن گئے اور موٹی تنخواہ پا کر بیوی بچوں کو اپنی کل کائنات تصور کر کے چپ سادھ کر بیٹھ بجائے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اردو کو ٹکنالوجی سے جوڑنے، نوجوان نسل میں اردو سے دلچسپی پیدا کرنے، عوام میں اردو کی محبت جگانے، موبائل کو اردو سے جوڑنے، گلی کوچوں میں اردو کے فروغ کے لیے تحریک چلانے میں دن رات کوشاں ہیں۔ علاوہ ازیں طالب علموں کو مسابقتی امتحانات میں شریک ہونے پر اکسانے، ان کے لیے کتابیں تیار کرنے، سماجی و فلاحی کاموں اورمذہبی امور میں حصہ لینے، سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کرنے، اپنے کالج میں مختلف پروگرام منعقد کرنے، قوم کے نوجوانوں کو حکومت کی جانب سے نکلنے والی آسامیوں سے واقف کرنے اور انہیں تیار کرنے، عوام کو حکومت کی نئی نئی پالیسیوں اور اسکیموں سے واقف کرنے اور انہیں حاصل کرنے پر آمادہ کرنے، کیریئر گائنڈنس کے ذریعہ طلبا میں شوق پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سارے کام کسی مقصد یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ نیک نیتی، ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیتے ہیں۔ جس پر ان کی اردو دوستی اور اردو دیوانگی کو سلام کرنا پڑتا ہے۔
ایک اچھے استاد کی شناخت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ صرف کلاس روم کی چہار دیواری کی حد تک بچوں کو تعلیم نہ دے بلکہ اپنی صحبت میں رکھ کر ان کی تربیت بھی کرے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب میں یہ خوبی کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ یہ صفت اسی شخص میں پائی جاتی ہے جس کی تربیت اچھے اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ‘‘لیکن ہمارا ماننا یہ ہے کہ کسی شخص کی کامیابی کے پیچھے بہت سے افراد کا ہاتھ ہوتا ہے والدین، بھائی بہن، اساتذہ، ماحول، خود کی محنت و مشقت اور سب سے بڑھ کر رحمتِ خدا وندی۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کی کامیابی کے پیچھے بہت سارے افراد ہوں یا نہ ہوں البتہ رحمت الٰہی اور ان کے اساتذۂ کرام کا ہاتھ اور ساتھ ضرور ہے۔ اساتذہ کی صحبت یا ان کے صدف میں رہ کر وہ ایک انمول مو تی بن کر نکلے ہیں۔ پڑھنا پڑھانا تو استاد کا اہم فریضہ ہوتا ہے جس کے لیے حکومت تنخواہ دیتی ہے لیکن اس کے علاوہ جو کام کیے جاتے ہیں ان کو ’’ خدمت ‘‘کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ایک ’’خادم اردو‘‘ کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب اپنا ذہن اور قلم کئی میدانوں میں دوڑاتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی علمی مضامین لکھتے ہیں، کبھی سیاسی مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں، کبھی سائنس کو اردو میں پیش کرتے ہیں، کبھی صحافی بن جاتے ہیں، کبھی ادب کی زلفیں سنوارنے میں منہمک رہتے ہیں۔ جس کا ثبوت ان کے وہ مضامین ہیں جو قومی و بین الاقوامی اخبارات، رسائل اور انٹرنیٹ کی اہم ویب سائٹوں پر اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے زیر نظر تحقیقی و تنقیدی مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان و ادب کے مختلف گوشوں کو انہوں نے پیش کیا ہے۔ اور اس پیشکش کے دوران وہ تنقیدی فضا پر چھائی کائی دور کرنے، اچھے اور سچے فن اور فنکاروں کو ادبی منظر نامے پر ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دور حاضر میں سچ بولنا اور سچائی کو زندہ رکھنا مشکل امر ہے کیونکہ زندگی کے ہر میدان میں مصلحت پسندی عام ہو چکی ہے اور بہت سے معاملات میں سمجھوتا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے ایسے میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نہایت دیانتداری کے ساتھ اپنا کام کرتے جا رہے ہیں۔ اس کتاب میں شامل مضامین سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے نہ مصلحت سے کام لیا ہے اور نہ کسی سے سمجھوتہ کیا ہے۔ بس فن کو فن کی کسوٹی پر پرکھنے اور اسے صحیح مقام دینے کی کوشش کی ہے۔ یہی چیز انہیں انفرادیت عطا کرتی ہے۔
’’ دریچے ‘‘ میں شامل مضامین میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اپنی گفتگو سنجیدگی، متانت، آہستہ روی، سائنٹفک اور مذہبی پیرائے میں بیان کر تے ہیں اور منطقی دلائل سے فن پارہ اور فنکار کی عظمت اجاگر کرتے ہیں۔ وہ شعر و ادب کو اپنے مخصوص فکر و نظر کے ذریعے جانچنے کے عادی ہیں اور متن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس کی روح میں اتر کر اہم نکات اور گوشوں کو پیش کرتے ہیں۔ جس میں ان کے مطالعہ، مشاہدہ اور تفکر کی روانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے یہاں کرتب بازی ہے اورنہ انتہا پسندی، جارحانہ رویہ ہے اور نہ مصلحت پسندانہ عمل۔ وہ ایک متوازن اور علمی زاویۂ نگاہ سے ادب کی افہام و تفہیم کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور ایک سرجن کی مانندتخلیق کا آپریشن کرتے ہوئے تخلیق کو زندگی عطا کرتے ہیں۔ قلی قطب شاہ کی شاعری میں انہوں نے مذہبی عناصر کی تلاش کرتے ہوئے ایک اہم گوشے کو اجاگر کیا۔ نصیر الدین ہاشمی پر مضمون دکن کے کوہ نور کی بازیافت ہے۔ سرسید، حالی، ابو الکلام آزاد اوراقبال سے متعلق ان کے مضامین موضوع کے تعارف کے ساتھ اس کی عصری معنویت کو پیش کرتے ہیں۔ دور جدید کے شاعر منور رانا کی ماں کے موضوع پر شاعری کو ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے جذباتی خراج پیش کیا ہے۔ اخترالایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ سے متعلق مضمون عملی تنقید کی اچھی مثال ہے۔ برطانیہ میں اردو اور عزیزاحمد سے متعلق مضامین بھی اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہیں۔ اردو کے ادیبوں کی کتابوں پر لکھے گئے ان کے تعارفی تبصرے بھی تنقیدی بصیرت کے حامل ہیں۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے یہ مضامین سادہ اور رواں اسلوب کی چاشنی کے ساتھ ساتھ تحقیق، تنقید، پرکھ، پہچان اور ادب کی تفسیر کے ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں اور اردو ادب کے با ذوق قارئین کے لیے کتابی شکل کے ساتھ آن لائن بھی مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ اس موقع پر میں فاضل مصنف ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ان کے مضامین کے مجوعے ’’ دریچے ‘‘ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی تحریروں سے ادبی دنیا میں فکر کی روشنی عام کریں گے۔ امید ہے کہ ان کی اس کتاب کی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہو گی۔ دیدی زیب ٹائٹل آئی ایس بی این نمبر کی شناخت رکھنے والی اس کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپیے رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کتاب آن لائن بھی دستیاب ہونے والی ہے۔ مصنف سے فیس بک ‘واٹس اپ یا فون نمبر9247191548پر رابطہ کرتے ہوئے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے