کتابیں ڈھونڈتی ہوں ۔۔۔ سبین علی

کتابیں ڈھونڈتی ہوں
کمپیوٹر کی سکرین پر
برقی سطروں کے سنگ چلتے ہوئے
آنکھیں بے طرح سے
تھک سی جاتی ہیں
ایک کسک بن کر
پھریاد آتی ہیں
میری سکھیاں میری سہیلیاں
میرے بچپن کی ہمجولیاں
نیم شب کی صحبتیں
ہاں میری کتابیں
ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں
کتابوں کی دکانوں پر
بڑی حسرت سے تکتی ہوں
جیسے الیس ونڈر لینڈ میں بھٹکتی ہے
مگرچنگیا اور گڑیا کی کہانیاں نہیں ملتیں
اپنے بچوں کو کیا تحفہ دوں؟
پرنسس اور پاپ سٹار؟
بانو اور عینی نہیں ملتی
نونہال اور جھولنے ڈھونڈتی رہتی ہوں
مگر میرے ننھے ذہن اب اغیار کی دکان داری
رنگین تصویروں میں گم ہیں
برقی لہروں پر فردوس بریں لطف نہیں دیتی
کبھی ہاتھ پکڑ کر کتنی وادیوں کی سیر کراتی تھی
کوئی حجازی کے سنگ تاریخ کا سفر کراتی تھی
کوئی امی کوئی ابو سے تحفے میں ملتی تھیں
کسی کتاب کے سنگ ہی ستاروں پر کمند ڈالنے کے خواب دیکھے تھے
میرا تکیہ اب کسی وجود کتاب کو ترستا ہے
میری آنکھیں متلاشی نگاہوں سے وہ منظر یاد کرتی ہیں
جب ہر لفظ ہر سطر
ایک منظر
ایک کنیوس سجا تا تھا
اپنے تخیل کے برش سے میں تصویر کشی کرتی تھی
ہیری پوٹر کی فلمیں دیکھنے والے
طلسم ہوشربا کو کیسے بھلا بیٹھے؟
اب کوئی عمرو عیار کے قصے نہیں سنتا
اب کوئی دادی کوئی نانی کہانی نہیں بنتی
سب پرانی باتیں ہیں
کتابوں کی دکانوں پر
اب وہ پرانی کتابیں نہیں ملتیں
برقی سطروں نے مجھ سے
وہ سب تحفے چھین لیے ہیں
علم اوج ثریا کو چھو رہا ہے
تہذیب نئی کروٹ لے رہی ہے
مگر وہ تحفے نہیں ملتے
وہ یادیں نہیں بنتیں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے