عاطف ملک

شوق وہ ہے کہ انتہا ہی نہیں
زخم ایسا ہے، کچھ دوا ہی نہیں

دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں!
اور جینے کا آسرا ہی نہیں

یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسابا ظرف تھا، مڑا ہی نہیں

میں یہ کہتا ہوں مان جا اب تو!
اس کی ضد ہے کہ وہ خفا ہی نہیں

داد خواہی کی رکھوں کیا امید
اس نے جب مدعا سنا ہی نہیں

وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا ہی نہیں

آ کے لے جا اب اپنی یادیں سبھی
مجھ میں کچھ اور یوں بچا ہی نہیں

آرزوئے وصال کیوں چھوڑوں
تُو نہیں ہے تو کیا خدا ہی نہیں

لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی وہ ہے
وہ جو مجھ سے کہیں ملا ہی نہیں

ظلم عاطف پہ ہیں جہاں بھر کے
اور وہ درد آشنا ہی نہیں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے