نظمیں ۔۔۔ کیدار ناتھ سنگھ

سنہ ۴۷ کو یاد کرتے ہوئے

_____________________________

 

تمہیں نور میاں کی یاد ہے
گیہوئیں نور میاں
ٹھگنے نور میاں
رام گڑھ بازار سے سرما بیچ کر
سب سے آخر میں لوٹنے والے نور میاں
کیا تمہیں کچھ بھی یاد ہے

تمہیں یاد ہے مدرسہ
املی کا پیڑ

امام باڑا

تمہیں یاد ہے شروع سے آخر تک
انیس کا پہاڑا
کیا تم اپنی بھولی ہوئی سلیٹ پر
جوڑ گھٹا کر
یہ نکال سکتے ہو
کہ ایک دن اچانک تمہاری بستی کو چھوڑ کر
کیوں چلے گئے تھے نور میاں
کیا تمہیں پتہ ہے
اس سمے وہ کہاں ہیں
ڈھاکہ
یا ملتان میں
کیا تم بتا سکتے ہو
ہر سال کتنے پتے گرتے ہیں پاکستان میں

تم چپ کیوں ہو
کیا تمہارا حساب (گنت) کمزور ہے
٭٭٭

پانی میں گھرے ہوئے لوگ

______________________________

 

 

پانی میں گھرے ہوئے لوگ
پرارتھنا نہیں کرتے
وہ پورے وشواس سے دیکھتے ہیں پانی کو
اور ایک دن
بنا کسی اعلان (سوچنا) کے
خچر بیل یا بھینس کی پیٹھ پر
گھر اسباب لاد کر
چل دیتے ہیں کہیں اور

یہ کتنا عجیب (ادبھت) ہے
کہ باڑھ چاہے جتنی بھیانک ہو
انہیں پانی میں تھوڑی سی جگہ ضرور مل جاتی ہے
تھوڑی سی دھوپ
تھوڑا سا آسمان
پھر وہ گاڑ دیتے ہیں کھمبے
تان دیتے ہیں بورے
الجھا دیتے ہیں مونج کی رسیاں اور ٹاٹ
پانی میں گھرے ہوئے لوگ
اپنے ساتھ لے آتے ہیں پوال کی گندھ
وہ لے آتے ہیں آم کی گٹھلیاں
خالی ٹن
بھنے ہوئے چنے
وہ لے آتے ہیں چلم اور آگ
پھر بہہ جاتے ہیں ان کے مویشی
ان کی پوجا کی گھنٹی بہہ جاتی ہے
بہہ جاتی ہے مہاویر جی کی آدم قد مورتی
گھروں کی کچی دیواریں
دیواروں پر بنے ہوئے ہاتھی گھوڑے
پھول پتے
پاٹ پٹورے
سب بہہ جاتے ہیں
مگر پانی میں گھرے ہوئے لوگ
شکایت نہیں کرتے
وہ ہر قیمت پر اپنی چلم کے چھید میں
کہیں نہ کہیں بچا رکھتے ہیں
تھوڑی سی آگ

پھر ڈوب جاتا ہے سورج
کہیں سے آتی ہیں
پانی پر تیرتی ہوئی
لوگوں کے بولنے کی تیز آوازیں
کہیں سے اٹھتا ہے دھواں
پیڑوں پر منڈراتا ہوا
اور پانی میں گھرے ہوئے لوگ
ہو جاتے ہیں بیچین

وہ جلا دیتے ہیں
ایک ٹوٹی سی لالٹین
ٹانگ دیتے ہیں کسی اونچے بانس پر
تاکہ ان کے ہونے کی خبر
پانی کے پار تک پہنچتی رہے

پھر اس مدھم روشنی میں
پانی کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈالے ہوئے
وہ رات بھر کھڑے رہتے ہیں
پانی کے سامنے
پانی کی طرف
پانی کے خلاف

صرف ان کے اندر
ارار کی طرح
ہر بار کچھ ٹوٹتا ہے
ہر بار پانی میں کچھ گرتا ہے
چھپاک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
٭٭٭

شہر میں رات

__________________

 

بجلی چمکی، پانی گرنے کا ڈر ہے
وہ کیوں بھاگے جاتے ہیں جن کے گھر ہیں
وہ کیوں چپ ہیں جن کو آتی ہے بھاشا
وہ کیا ہے جو دکھتا ہے دھواں دھواں سا
وہ کیا ہے ہرا ہرا سا جس کے آگے
ہیں الجھ گئے جینے کے سارے دھاگے
یہ شہر کہ جس میں رہتی ہے آرزوؤئیں (اچھائیں (
کتے بھُنگے آدمی گلہری گائیں
یہ شہر کہ جس کی ضد ہے سیدھی سادی
زیادہ سے زیادہ آرام سکون (سکھ سودھا ) آزادی
تم کبھی دیکھنا اسے سلگتے لمحے (شن) میں
یہ الگ الگ دکھتا ہے ہر درپن میں
ساتھیوں، رات آئی، اب میں جاتا ہوں
اس آنے جانے کی تنخواہ (کا ویتن) پاتا ہوں
جب آنکھ لگے تو سننا دھیرے دھیرے
کس طرح رات بھر بجتی ہیں زنجیریں
٭٭٭

 

 

ہاتھ

______

 

اس کا ہاتھ
اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے میں نے سوچا
دنیا کو
ہاتھ کی طرح گرم اور سندر ہونا چاہئیے
٭٭٭

 

شہر بدل

____________

 

 

وہ ایک چھوٹا سا شہر تھا
جسے شاید آپ نہیں جانتے
پر میں ہی کہاں جانتا تھا وہاں جانے سے پہلے
کہ دنیا کے نقشے میں کہاں ہے وہ۔
لیکن دنیا شاید انہیں چھوٹے چھوٹے شہروں کی گرمی (کے تاپ) سے چلتی ہے
جنہیں ہم آپ نہیں جانتے۔
جانے کو تو میں جا سکتا تھا کہیں بھی
کیا برا تھا بھینسالوٹن؟
ہرج کیا تھا ’گیا‘ یا ’گنٹور‘ جانے میں
پر ‘گیا‘ میں گیا نہیں
( ویسے بھی سننیاس میں نے نہیں لیا تھا
کلکتے سے ملا نہیں چھند
جے پور جا سکتا تھا
پر گالتا کے پتھروں نے کھینچا نہیں مجھے
شہر کئی (انیک) تھے جن کے ناموں کا ھادو
ان جوان (یووا) دنوں میں
پیاز کی چھونک کی طرح کھینچتا تھا مجھے
پر ہوا یوں کہ ان ناموں کے بارے میں
سوچتے سوچتے
جب ایک دن تھک گیا
تو اٹیچی اٹھائی
اور چپل پھٹکارتے ہوئے
چل دیا پڈرونا — اسی شہر میں
جس کے نام کا تلفظ (اچارن)
ایک لڑکی کو لگتا تھا اونٹ کے کوہان کی طرح
اب اتنے دنوں بعد
کبھی کبھار سوچتا ہوں
میں کیوں گیا پڈرونا؟
کوئی کیوں جاتا ہے کہیں بھی
اپنے شہر کو چھوڑ کر —
یہ ایک ایسا راز (رہسیہ) ہے
جس کے سامنے ایک شام ٹھٹھک گئے تھے غالب
لکھنؤ پہنچ کر۔
پر جو سچ ہے وہ سیدھا سا
سادہ سا سچ ہے کہ ایک صبح میں اٹھا
بنارس کو کہا رام رام
اور چل دیا ادھر
جدھر ہو سکتا تھا پڈرونا —
وہ گمنام سا شہر
جہاں ایک درزی کی مشین بھی اس طرح چلتی تھی
جیسے فطرت (سرشٹی) کے شروع سے چل رہی ہو اسی طرح
اور ایک ہی گھڑی تھی
جس سے چڑیوں کا بھی کام چلتا تھا
اور آدمی کا بھی
اور سمے تھا کہ آرام سے پڑا رہتا تھا
لوگوں کے کندھوں پر
ایک گمچھے کی طرح۔
پر شہر کی طرح
اس چھوٹے سے شہر کا بھی اپنا ایک سنگیت تھا
جو اکثر ایک پپیہے (پپہری) سے شروع ہوتا تھا
اور ٹرکوں کے تال پر چلتا رہتا تھا دن بھر
جس میں ہوا کی مرکیاں تھیں
اور بیل گاڑیوں کی بے ہوشی (مورچھنا)
اور دھول کے اٹھتے ہوئے لمبے آلاپ
اور ایک ولمبت سی تان دوپہری پسنجر کی
جو اکثر غروب آفتاب (سوریاست) کے دیر بعد آتی تھی
٭٭٭
رسم الخط کی تبدیلی، اور مشکل الفاظ کے معنی: اعجاز عبید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے