حاتم جاوید

چادر اوڑھے موم کی پتھر گھوم رہا ہے
مرہم لے کر ہاتھ میں خنجر گھوم رہا ہے

بچے اب دہلیز پہ کیسے دھوم مچائیں
بستی بستی خوف کا لشکر گھوم رہا ہے

گھر کے بوڑھے لوگ ہوئے فٹ پاتھ کی زینت
خود غرضی کا قہر تو گھر گھر گھوم رہا ہے

دریا اپنی جیب میں لے کر گھومنے والا
لب پر صحرا پیاس کا لے کر گھوم رہا ہے

سچائی کی لاش کو منصف نوچ رہے تھے
آنکھوں میں جاوید وہ منظر گھوم رہا ہے
٭٭٭فٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے