منیر انور

چاند

_______

 

 

چاند بادل کی اوٹ سے نکلا
اور کھڑکی سے دودھیا کرنیں
اس کا چہرہ اُجالنے آئیں
میں نے دیکھا کہ چاند چہرے پر
چاند کی روشنی مچلتی تھی
ایک لمحے کو رک گئی دھڑکن
آنکھ جیسے جھپکنا بھول گئی
دل نے چاہا کہ وقت تھم جائے
اور یہ ساعتِ حیات افروز
زندگانی نکھار دے لیکن
وقت کی باگ ہاتھ میں کب تھی
اور پھر اختیار بھی کب تھا
٭٭٭

 

رقص

____

 

 

ان مہ و سال پر دسترس تو نہیں
ایک لمحہ مگر جی رہے ہیں جو ہم
دسترس میں بھی ہے
اور بس میں بھی ہے
آؤ اس لمحۂ مہرباں کو محبت کے رنگوں میں گوندھیں
کہانی بنا دیں
اسے لمحۂ جاودانی بنا دیں
کہ ہفتوں، مہینوں پہ، سالوں پہ طاری رہے
مہلت زندگی سے نکل کے بھی
اس کائنات تغیر میں جاری رہے
اس کا پھیلاؤ صدیوں پہ بھاری رہے
رقص جاری رہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے