محمد علوی، جدید اردو شاعری کی ایک نمائندہ آواز۔۔۔ محسن جلگانوی

ہماری ادبی تاریخ میں ایسے دور بہت کم آئے ہیں جب تخلیقی ابال اور انتشار کی وہ کیفیت تھی جو نئی شاعری کے وجود میں آنے کی وجہ سے پیدا ہوئی بلکہ نئی شاعری نے جو پانچ سات افقی پھیلاؤ والے شاعر پیدا کیے تو اسی وجہ سے تخلیقی آتش فشاں کا دائرہ کار عام سے زیادہ وسیع اور پر زور ہو گیا۔
شمس الرحمن فاروقی محمد علوی کی شعری تصنیف ’’ دوسرا ورق اور تیسری کتاب‘‘ میں بہت واضح طور پر رقم طراز ہیں:
’’ جدید شاعری کی نمائندگی کے لیے جب ناموں کا خیال آتا ہے تو تقریباً سب سے پہلے محمد علوی اس لیے ذہن میں آتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کا ان سے زیادہ مکمل اور متنوع اظہار کسی سے نہیں ہو سکا ہے۔ اس طرح نئی شاعری کو تجرباتی، غیر رسمی، نئے الفاظ کی تلاش میں سرگرداں اور روایتی شاعری اور اسلوب سے گریزاں اسلوب کے بھی تمام رنگ ان کے یہاں اس طرح غلطاں و پیچاں ہیں کہ اس پہلو سے ہی ان کا کلام نمائندگی کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘
مظہر امام نے بھی محمد علوی کو جدید شاعری کا اہم شاعر قرار دیا ہے اور ان کی جدید حسیت پر ان الفاظ میں مہر ثبت کی ہے۔
’’ خالی مکان، ہندوستان میں اردو شاعری کآغالباً باقاعدہ پہلا مجموعہ ہے لیکن وہ ان صاحب زادوں میں نہیں جنھیں عرفان ہوا ہے کہ اردو ادب کی پیدائش ۱۹۶۰ء کے بعد ہوتی ہے۔‘‘
محمد علوی کی شخصیت پر مخمور سعیدی نے ایک معنی خیز خاکہ لکھا ہے جس سے علوی کے اعتقاد و ظاہر و باطن پر روشنی پڑی ہے۔ علوی رسمی اخلاق کے قائل نہیں، نمائیشی خدا پرستی ہو یا انسان دوستی، ان کے دل میں نہ اس کے لیے کچھ گنجائش ہے نہ اس کے لیے کوئی جگہ… لیکن کوئی نہ کوئی اخلاقی یا روحانی حس ہے جو میں نے ان میں ہمیشہ بیدار دیکھی ہے اور یہی حس غالباً انھیں انسانیت سے اتنا مایوس نہیں ہونے دیتی کہ وہ اس کے مناصب سے گرتا دیکھ کر کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوئی… علوی کو مذہب سے بہ ظاہر کوئی لگاؤ نہیں اور ان کی عادتیں مومنانہ ہیں نہ ان کا رہن سہن…
۱۹۶۰ء کے آتے آتے جدید ادب اور شاعری نے واضح سمت اختیار کر لی تھی۔ سنجیدہ ادبی حلقوں میں جس آواز نے خاص طور پر اپنی جانب متوجہ کیا وہ آواز محمد علوی کی تھی۔ ترقی پسند ادبی تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق کی ادبی روایات سے پیچھا چھڑانے والے شاعروں میں قاضی، سلیم، شہریار اور عادل منصوری کے بعد محمد علوی اہم شاعر ہیں جنھوں نے روایت شکنی کر کے جدید شاعری کو اختیار کیا اور جدید ادب میں اپنی اہم جگہ بنالی۔ عتیق اللہ کا بیان ہے کہ محمد علوی کا ایک نام ہی ایسا تھا جو اس دور میں بے انتہا چونکانے والا اور سب سے الگ تھا وہ لکھتے ہیں:
’’ علوی نے ابھی آنکھ کھول کر ادھر ادھر نظر دوڑائی ہی تھی کہ علامت، اسطور، یونگ کے اجتماعی شعور، ابہام و ایمائ، ذات، تجربہ اور انفرادی مہم کے نقارے چاروں سمت بجنے لگے۔ ہر شخص ہاتھ ہاتھ بھر چھلانگیں لگا رہا تھا۔ دائیں بائیں درانداز نقابیں لگانے میں مصروف تھا۔ کہیں استعارہ، غنڈوں کے بیچ پھنسا ہوا تھا تو کہیں بے چاری علامت کی آبرو خطرے میں تھی۔ محمد علوی نے اس ہنگام میں بھی اپنی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھی اور خط منحنی جو جدیدیت کی منفرد شناخت تھی کہ مقابلے میں خطِ مستقیم کو شرف قبولیت عطا کیا۔ بادی النظر میں یہ راہ جتنی سیدھی، بے خطر اور رواں دکھائی دیتی ہے وہ اتنی سیدھی اور بے خطر بھی نہیں بلکہ اس سیدھی اور بے خطر شاعری نے میری مشکل میں اضافہ کیا …‘‘
وہ جو عتیق اللہ نے محمد علوی کے بارے میں ’’ سیدھی منطق کا مشکل شاعر‘‘ کہا ہے وہ بے وجہ نہیں۔ علوی کی نظمیں ’’ میں اور تو‘‘، ’’ نوحہ‘‘ اور ’’ آخری بت‘‘ کی تلاش اسی مشکل اور پیچیدگی کا اظہار کرتی ہیں جو اقرار و انکار کی کشمکش کے درمیان وجود میں آتی ہیں اور خدا کا تصور ان کے یہاں ڈائیلمابن جاتا ہے۔ چناں چہ علوی کی نظموں میں یہ احساس شدید کرب بن کر ابھرتا ہے کہ اس کے خدا کا قتل ہوا ہے، نہ موت ہوئی ہے بلکہ محض یہ احساس کہ ’’ خدا نہیں ہے‘‘ اس کے یہاں سوہانِ روح بن جاتا ہے اور وہ اس کے نہ ہونے کا ماتم کرتا ہے۔ علوی کی سیدھی منطق کی مشکل شاعری کے ضمن میں گوپی چند نارنگ کا بھی خیال ہے کہ ان کی شاعری، قاری تو قاری نقاد کو بھی جل دے جاتی ہے۔
محمد علوی کو بالعموم حواس کا شاعر سمجھا جاتا ہے، یعنی جو کچھ دکھائی دیتا ہے اس کو وہ بیان کر دیتا ہے، گویا اس کے یہاں سامنے کی باتیں ہیں یا دوسرے لفظوں میں محمد علوی کی شاعری معمولات اور مانوس معنی کی شاعری ہے یہ مغالطہ پیدا کرنے والے تاثر کے کچھ اسباب بھی ہیں:
محمود علوی کی شاعری میں ’خدا‘ ایک کلیدی علامت ہے۔ وہ کبھیا س کے اقرار پر مائل نظر آتے ہیں کبھی انکار پر۔ خدا کا تصور ان کے یہاں ایک ڈائیلما بن گیا ہے۔ محمود ہاشمی نے ان کی نظم ’’ میں اور تو‘‘ کو ان کی تمام تر شاعری کا ’’ کتھارسس‘‘ قرار دیا ہے۔
آج ہوں
کل نہیں ہوں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
مگر آج اک بات کہنی ہے تجھ سے
کہ میں آج ہوں
کل نہیں ہوں
یہ سچ ہے مگر
کوئی ایسا نہیں ہے
کہ میرے نہ ہونے سے انکار کر دے
کسی میں یہ جرأت نہیں ہے
مگر تو
بہت لوگ کہتے ہیں تجھ کو
کہ تو وہم ہے
اور کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔
محمد علوی کی شاعری کی انفرادیت پر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں:
’’محمد علوی کا شعری وجدان، شعر کو قائم کرنے کے لئے اگرچہ نہ نئی لفظیات خلق کرتا ہے نہ شعری گرامر، وہ سامنے کی سہج لسانیت ہی سے کام لیتا ہے۔ لیکن وہ عام بیان کا رخ احساس کے دوسرے پن یا روٹین Routine معنی کی بجائے انجانے معنی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ محمد علویٰ کے اس دعوی پر کم توجہ دی گئی۔‘‘
(۲؎ علوی: احساس و معنی کی انوکھی کیفیات کا شاعر: پروفیسر گوپی چند نارنگ، مشمولہ ’’اردو چینل ۲۳۔ دسمبر ۲۰۰۴ء گوونڈی، ممبئی)
چاند کا کگر روشن
شب کے بام و در روشن
اک لکیر بجلی کی
اور رہ گزر روشن
اڑتے پھرتے جگنو کچھ
رات ادھر ادھر روشن
پھول قمقموں جیسے
نتلیوں کے پر روشن
شاعری زبان کے وسیلے سے معانی کے نئے نئے در کھولتی ہے۔ معنی جو کچھ پہلے کہا گیا اس کو نیا رنگ و روپ دیتی ہے۔ یا جو کچھ معلوم ہے اس کو نا معلوم بنا دیتی ہے۔ محمد علوی کی بہ ظاہر بہت آسان اور سامنے کی شاعری در اصل اتنی آسان و سہل بھی نہیں جتنی وہ نظر آتی ہے۔ یہ شاعری حواس گریزاں کی شاعری ہے۔ اسی لئے گوپی چند نارنگ نے کہا ہے:
’’شاعری صرف خارجی حقائق کا شفاف بیان نہیں ہے۔ زیادہ روشنی، زیادہ اندھیرا، زیادہ جگنو، تتلیوں کے زیادہ روشن پر، تصورات خارجی حقائق کا عکس نہیں یہ لسانی تشکیل ہیں اور زبان کا عمل ان کو بے لوث رہنے نہیں دیتا ان کو اجلا دیتا ہے یا کچھ نہ کچھ بدل دیتا ہے یعنی کچھ بھی ہو شعری زبان کا عمل سامنے کے حقائق کو یا ان کے تصور کو جوں کا توں باقی نہیں رہنے دیتا۔‘‘
محمد علوی کی نظموں کا تجزیہ کرنے سے پہلے شمس الرحمن فاروقی کی اس رائے کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ محمد علوی کو افقی اور آفاقی ارتقاء کا شاعر قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نئی شاعری کو جو پانچ سات شاعر دستیاب ہوئے ہیں ان میں علوی کی حیثیت معتبر ہے وہ اپنے مضمون ’’ دوسرا ورق اور تیسری کتاب‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ شاعر اسلوب کے لحاظ سے نہیں تجربے کی وسعت اور ہمہ گیری اور پختگی یا معتبریت کے لحاظ سے ترقی کرتا ہے تخلیقی صلاحیت عمر کے گذران کے ساتھ ساتھ آتی رہتی ہے۔ زیادہ تر بڑے شاعروں کا یہی حال رہا ہے۔ بعض شاعروں کا ارتقاء عمودی ہوتا ہے اور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ بہت کم شاعر ایسے ہیں جن کا ارتقاء عمودی اور افقی دونوں سمتوں میں ہو۔ ظاہر ہے کہ شاعرانہ صلاحیت کی نمو کی بہترین مثال وہی نمونے ہیں جو فطرت کے دوسرے نامیاتی مظاہر کی طرح عمودی اور افقی دونوں ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ دو چار سو برس میں شاید ایک بار کسی کو نصیب ہو، ورنہ عمودی اور پھر افقی ارتقاء کو ہی عام طور پر تخلیقی صلاحیت کی بہترین پہچان کہا جا سکتا ہے‘‘
ایچ۔ جی۔ ویلز نے بیسویں صدی کو پریشان خیالی کے عہد سے تعبیر کیا تھا۔ شمیم حنفی نے اس عہد کی جو تصویر کھینچی ہے کچھ اس طرح ہے:
’’ کوئی اسے اضطراب کا عہدکہتا ہے کوئی تمنا، کوئی بحران کا، کسی کے نزدیک یہ تعمیر نو کا عہد ہے۔ کسی کے یہاں جذبات کے فقدان کا۔ کسی کے لیے تجزیے کا اور کسی کے لیے تعقل کا… الگ الگ سمتوں میں جاتے ہوئے، ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے بہ شناس نامے کم از کم ایک بات ثابت کرتے ہیں کہ یہ عہد متضاد اور باہم متصادم سچائیوں کا عہد ہے۔‘‘
محمد علوی کی شاعری میں پیکر تراشی کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ وہ کھلی آنکھ کے شاعر ہیں اس لئے ان کی شاعری میں عصری حسیت کا زیادہ غلبہ نظر آتا ہے۔
وزیر آغا نے محمد علوی کے یہاں پیکر تراشی کے متعدد پیکروں کی نشان دہی کی ہے لیکن ان میں انہیں سمعی پیکر زیادہ اثر دار لگتا ہے لکھتے ہیں:
’’علوی کے یہاں باصرہ سے کہیں زیادہ سامعہ برانگیختہ ہے اور یہی چیز در اصل علوی کے لہجے کی انفرادیت کو سامنے لاتی ہے۔ مثلاً علوی کے یہاں چاپ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پھر مختلف آوازوں نے ان کی نظموں پر اپنی نمایاں چاپ ثبت کی ہے۔ شور مچاتی گلیاں چہکتی چڑیاں، منی رانی کاگریہ، کنویں کا چیختا پانی، شور مچاتی ہوئی لاری، دھماکہ، بلاؤں کی ہنسی، کتوں کی لڑائی، چیختی چلاتی موجیں، گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہوئی رات، کاگا کے بول اور ایسے لاتعداد اشارات اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ شاعر اور اس کی کائنات کے مابین سامعہ ہی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر تخیل کی فضاء کا نہیں بلکہ خالص ارضی ماحول کا باسی ہے اور اس نے دروازوں، کھڑکیوں اور قدموں کی آواز سے اپنی نظموں کا تار و پود تیار کیا ہے‘‘۔
چوہدری ابن النصیر نے محمد علوی کی نظم پر یوں اظہار خیال کیا ہے:
’’ محمد علوی کی بیش تر نظمیں اختصار اور جامعیت کا وصف رکھتی ہیں، معنوی اعتبار سے نظموں کو اہم بنانے میں انھوں نے سیمبلز اور امیجری Symbols & Imagery سے بڑا کام لیا ہے۔ ان کی نظم میں باطنی ربط اور خارجی منطقی تسلسل نظموں کو ایک مکمل اکائی بخشتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ محمد علوی کی شاعری موضوعات کے پھیلاؤ کی شاعری ہے جو سمٹی سمٹائی ہے اور پوری کائنات کو محصور کیے ہوئے بھی۔‘‘
محمد علوی کی شاعری اپنی اشاریت اور علامتیت کے ساتھ ساتھ اسلوب کی پیچیدگی کی خاصیت سے بھی انفرادیت رکھتی ہے۔ محمود ہاشمی نے اپنے مضمون میں محمد علوی کے اسلوب کے بارے میں یوں وضاحت کی ہے:
بہ ظاہر سادہ نظر آنے والے علوی کا اسلوب اس لیے پیچیدگی کا حامل ہے کہ ہر شعر اور ہر نظم نامیاتی کل Organic whole کی ہیئت میں نمایاں ہوتی ہے۔ اسلوب کی یہ انفرادیت جو دوسرے جدید شعرا کو کم کم میسر ہے۔ غالباً اسی لیے علوی کی شاعری نئے ناقد کے لیے علمیت کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کرتی۔ لیکن علوی کی سادہ روی میں بھی پیچیدگی ہے اور یہ پیچیدگی آج کے انسان کا اسلوب ہے۔
محمود ہاشمی اس کی نظم کو اقرار و انکار کے درمیان کی کشمکش پر مبنی نظم قرار دیتے ہیں۔ علوی کے شعری کردار کو زندگی، ظاہر و باطن اور موت کی دہشت آمیز وادیوں میں سوکھے گہرے کنووں اور بے آب و گیاہ ٹیلوں میں بھٹکاتی رہی۔ اس کے وجود اور وجودی اعلامیہ کی منزل یہی نظم ہے جس میں علوی نے ذات کے عرفان و آگہی کو شناخت کرنے کی مہارت کی ہے۔
محمد علوی اردو کی جدید شاعری کے نمائندہ شاعر ہیں۔ جن کے یہاں مکمل جدیدحسیت عود آئی ہے۔ ان کی شاعری میں ان کی ذات کی جو نمائندگی جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے اس سے علوی کی ذات و فردیت کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔ محمد علوی کے تخلیقی سرچشموں کا محور خالصتاً خود اس کی ذات ہے بلا شرکتِ غیرے۔ یکتا و تنہا۔ محمود ہاشمی ’’تیسری کتاب‘‘ کی نظموں کو انسانی ضمیر اور روح عصر کے انتہائی سلگتے ہوئے مسئلے کو علوی کی ذات کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ اس باب کی پہلی نظم ’’پاگل‘‘ ہے۔
جو مذہب و انسان کی انفرادیت کی شناخت کے Dilemma کو پیش کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ
اس نظم میں، روایت، روحانیت، مذہب، اور انسان کی انفرادی شناخت کا ڈائلیما ہے۔ اس میں دور افتادہ ماضی، پیش افتادہ حال اور طویل فاصلوں تک افق پھیلا ہوا مستقبل تینوں زمانے ہیں۔
پاگل:
خدا سات آسمانوں سے بھی اوپر
خدا تنہائی کے ملبے کے نیچے
خدا آگے بہت آگے کھڑا ہے
خدا پیچھے، ہزاروں سال پیچھے
بڑھے آتے ہیں پاگل میری جانب
خدا کو مارنے تلواریں کھینچے
محمد علوی خدا کی ذات سے ہمیشہ ہم کلام رہتے ہیں۔ خدا سے ان کی چشمک چلتی رہتی ہے۔ وہ کبھی خدا کی ذات سے متصادم ہوتے ہیں کبھی خدا کو تنہائی کے ملبے کے نیچے دبا دیتے ہیں، کبھی خدا کو مندر و مسجد میں جلادینے کا ماتم کرتے ہیں کبھی اس کو وہم محض قرار دیتے ہیں۔ مگر ان کے انکار و تکرار کے باوجود ان کی نظم ’’آخری دن کی تلا‘‘ش میں وہ قرآن کی اس تفسیر پر یقین کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ خدا نے کائنات کی تخلیق کی ہے اور ایک روز حساب مقرر کیا ہے۔ جب خدا تمام چیزیں سمیٹ لے گا تو ان کے شعور میں کلبلاتے اس کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو انسان کی کلفت و مصائب میں مبتلا زندگی سے نجات دلادے گا۔ وہ اس آخری دن کی آمد کے منتظر ہیں۔
آخری دن کی تلاش:
خدا نے قرآن میں کہا ہے
کہ لوگو! میں نے
تمھاری خاطر
فلک بنایا
فلک کو تاروں سے
چاند سورج سے جگمگایا
کہ لوگو میں نے
تمھاری خاطر
زمیں بنائی
زمیں کے سینے پہ
ندیوں کی لکیریں کھینچیں
سمندروں کو
زمیں کی آغوش میں بٹھایا
پہاڑ رکھے
درخت اگائے
درخت پہ پھول پھل اگائے
کہ لوگو! میں نے
تمھاری خاطر
وہ دن بنایا
کہ دن میں کچھ کام کر سکو تم
کہ لوگو میں نے
تمھاری خاطر
یہ شب بنائی
کہ شب میں آرام کر سکو تم
کہ لوگو میں نے
تمھاری خاطر
یہ سب بنایا
مگر نہ بھولو
کہ ایک دن میں
یہ ساری چیزیں سمیٹ لوں گا
خدا نے جو کچھ کہا ہے
سچ ہے
مگر یہ نہ جانے
وہ دن کہاں ہے
کہ جب خدا یہ تمام چیزیں سمیٹ لے گا
مجھے اسی دن کی جستجو ہے
کہ اب یہ چیزیں
بہت پرانی
بہت ہی فرسودہ ہو چکی ہیں
اس نظم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا کی وہ تمام نعمتیں جو آدمی کے لیے زمین پر اتاری گئی تھیں وہ سب پرانی ہو چکی ہیں اور آدمی نے ان چیزوں کی قدر و قیمت کونہیں سمجھا (مگر نہ بھولو کہ ایک دن میں یہ ساری چیزیں سمیٹ لوں گا)کا یہ آخری حصہ آدمی کے لئے ایک تنبیہ بھی ہے۔ خدا نے جتنی اشیاء بنائی تھیں ان کی یکسانیت اور بے معرضی اسے کھلتی ہے کہ یہ سب اس کی تقلید کا باعث ہیں، فرسودہ ہو چکی ہیں اور اسے انتظار ہے اس دن کا جب یہ سب ختم ہو جائیں گی۔
’’ خدا‘‘ محمد علوی کی مرغوب علامت ہے۔ وہ اپنی تنہائی دکھ درد میں اور شکست و ریخت کے لمحوں میں خدا ہی کو اپنی خود کلامی کا محور بناتا ہے اور اسی کو اپنے درد کا مداوا سمجھتا ہے محمد علوی کے تخلیقی چشموں کا محور خالصتاً اس کی اپنی ذات ہے بلاشرکت غیرے یکا و تنہا۔ اس کی اپنی ذات کا یہ قصہ انتہائی محیط، چیلنج اور ڈائیلما جو اس کی تیسری کتاب سے شروع ہو کر اس کی مختلف نظموں میں پھیلا ہوا ہے۔
محمد علوی کی نظم ’’ نوحہ‘‘ میں بھی خدا کی ذات سے مخاطب ہیں:
نہ مرنے کا ڈر ہے
نہ جینے میں کوئی مزا ہے
خلاہی خلا ہے
ہر اک چیز جیسے
اندھیرے میں گم ہو گئی ہے
اجالے کی اک اک کرن کھو گئی ہے
ہر اک آرزو سوگئی ہے
گنہ میں بھی اب کوئی لذت نہیں ہے
وہ دوزخ نہیں
اب وہ جنت نہیں ہے
کوئی بھی نہیں ہے
بس اب میں ہوں
اور میرا سنسان دل ہے
خدا کے نہ ہونے کا غم
کس قدر جاں گسل ہے
مجھے اس کا دکھ ہے
کہ میں نے تجھے آج تک کیوں نہ جانا؟
انتساب:
محمد علوی اپنی دوسری نظموں کی طرح اس نظم ’’انتساب‘‘ میں بھی خدا سے مکالمہ کرتے ہیں اور خدا کی اس تنہائی اور بے بسی پر اظہار ملال کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اب تک خدا کو صرف ظالم سمجھتے آئے تھے حالانکہ وہ بھی محمد علوی کی طرح ہی تنہائی کی آگ میں جل رہا ہے۔
انتساب:
(خدا کے نام جس کے نہ ہونے کا مجھے دکھ ہے )
خدا۔۔۔ اے خدا
میں سمجھتا تھا تو
ایک ظالم ہے جو
مجھ پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے
مجھے یہ خبر ہی نہ تھی
کہ تو بھی
دکھی ہے
اکیلا ہے
میں اور تو
ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں
تجدید کی خواہش محمد علوی کے ہاں بار بار ابھرتی ہے لیکن، چوں کہ شکست خواب ان کے بطن میں موجود ہے اس لیے بعض اوقات نا امیدی کا کرب، انھیں موت کی سرحدوں تک لے جاتا ہے اور وہ عناصر سے براہِ راست منسلک ہونا چاہتے ہیں۔ خطرۂ انہدام کے باوجود۔
نیند آئے تو:
خوف ناک جنگل میں جاؤں
سانپ مار کے کھاؤں
ناچوں
گاؤں
شور مچاؤں
ننگی کالی حبشن کو
آنکھ مار کے پاس بلاؤں موٹے موٹے ہونٹوں کا
لمبا تگڑا بوسہ لوں
بڑے بڑے پستانوں پر
سر رکھ کر
گہری نیند میں سو جاؤں
آنکھ کھلے تو
حبشی کے نیزے کی نوک
چھاتی میں بجھتی پاؤں
ننگی کالی حبشن کی
پھٹی پھٹی بھوکی آنکھوں میں
ایک سے دو ہو جاؤں
اس نظم میں خوفناک جنگل میں جانا اور سانپ مار کے کھانے کا عمل، انگریزی کی شاعری سے مستعار لگتا ہے جس شاعری میں ننگی دھڑنگی حبشین، کھلے پستانوں والی ادھ ننگی عورتیں، حبشیوں کی غضبناک اور وحشتناک آنکھیں، اجنبیوں کو کچا چباجانے کا تصور، سیہ فام شاعری کا ایک حصہ ہے۔ اس نظم کے بارے میں عتیق اللہ کہتے ہیں:
’’ وہ بڑے سے بڑے اور اہم سے اہم اور غیر معمولی سے غیر معمولی تجربے اور واردات کو بھی بے نیازانہ ادا کر جاتا ہے … مجھے تو وہ اکثر بودلیر کی اندیش آگیں سریت کے قریب بھی نظر آتا ہے۔ بودلیر کی ذات خود اپنی قہرمانی اور اپنی وحشتوں کی اسیر ہے۔ بودلیر کی سیاہ اور بڑی بڑی پہاڑ ایسی ننگی پستانوں والی ڈائن علوی کے یہاں بھوکی اور سیاہ فام حبشنوں کا روپ دھارن کر لیتی ہیں۔‘‘
بلراج کومل محمد علوی کی شاعری کو بغاوت کی سطح سے اوپر کی شاعری قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں علوی کی شاعری میں عمومیت نہیں بلکہ انھوں نے اس کو عمومیت سے دامن بچانے میں عمداً احتراز کیا ہے۔ وہ تجربوں کے شاعر ہیں اور وہ اپنے تجربوں کو براہِ راست گھروں، آنگنوں اور رہ گذاروں سے اٹھا لیتے ہیں مگر انھیں منتخب کرنے میں انتہائی کفایت سے کام لیتے ہیں اور اس عمل سے جو نقش نامہ تیار ہوتا ہے اسے خود تکلفی کی فضا میں معلق کر کے خود زمین پر اتر آتے ہیں۔
رات:
نیند آتی ہے کھلی آنکھ سے ڈر جاتی ہے
سہمی سہمی ہوئی چپ چاپ گذر جاتی ہے
خامشی گھومتی رہتی ہے کھلی محفل میں
نیم کا پیڑ اکیلا ہی کھڑا رہتا ہے
چیخ اٹھتا ہے پرندہ کوئی سوئے سوئے
صبح کر دیتی ہے شبنم یوں ہی روتے روتے
نظم ’’ رات‘‘، ’’ نیند آئے تو‘‘ جیسی نظموں میں بے خوابی کی ایک ایسی فضا آنکھوں میں تیر جاتی ہے جو ہولناک کیفیتوں سے دوچار کرتی ہیں۔ نیند کا کھلی آنکھ سے ڈرجانا، خاموشی کا گھومنا پھرنا، نیم کے پیڑ کا اکیلے کھڑے ہونا، پرندے کا سوتے میں چیخ اٹھنا یہ سب کیفیتیں اس تنہائی کا شکار ہیں جس سے شاعر دو چار ہے۔
محمد علوی کی مختصر نظموں میں ’’ پیکر تراشی‘‘ اور ’’ نفس مجسم‘‘ تخلیق کرنے کا تجربہ اس کو جاپانی شاعری کے ہائیکو تک لے جاتا ہے۔ زندگی اچھی ہے یا بری مسئلہ یہ نہیں ہے۔ احساس کی سطح پر زندگی وہ تعلق ہے جو ارضی سطح پر غلیط ترین تفصیلات اور جزئیات سے بھی قائم رہتا ہے بلکہ انہی کے واسطے سے یہ تعلق جاوداں ہے۔ مچھلی کی بودائم ہے بلکہ حیات و موت کی حدود سے مارا ہے۔
وہ پھول سے ڈرتی تھی
کہتی تھی
پھول تو زہریلے ہوتے ہیں
دور بھی ہوں تو ڈس لیتے ہیں
اس کی سولہویں سال گرہ پر
میں نے اس کو
پھولوں کا تحفہ بھیجا ہے
محمد علوی کی نظموں کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو پہلے احساس کی آنچ میں اس شدت سے شامل کر لیتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہ سب اسی پر گزرا ہے۔ ’’ خالی مکان‘‘ کی شاعری پرظ۔ انصاری تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ تمھارے اس خالی مکان میں جو بھوت بسا ہوا ہے، وہ بڑا خوش مذاق، بذلہ سنج، بھولا بھالا مگر اکتایا ہوا سا لگتا ہے۔ میری اس سے اتنی آشنائی ہو گئی کہ کبھی ملے گا تو بغیر لفظوں کے ہم دونوں گفتگو کر سکیں گے۔ شاعری شہر آشوب کی ہو یا رزمیہ کارناموں کی، مرثیوں کی ہو یا قصائد کی، رباعی کی ہو یا ڈھول مجیرے کی، مگر اس میں اپنا پن پیدا ہو جاتا ہے اگر وہ اس انداز کی ہو گویا شاعر خاص ہمیں سے مخاطب ہے۔ (آگے کہتے ہیں ) ایسی فضا ہے تمھارے بیان کی گویا ہم کسی ایسے مکین سے ملے ہیں جس کا عظیم الشان، اونچے اونچے دالانوں والا مکان ڈھے رہا ہے اور وہ کھڑا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ سارے معاملے کو ہی اس نے تاریخی جبریت Historical determinism کے فلسفہ میں دیکھ لیا ہے۔‘‘
نظم کے آخری حصہ کے بیسویں مصرعے میں غیر متوقع طور پر موڑ آ جاتا ہے اور نظم کا کیفیاتی پہلو اپنے نئے تناظر کے ساتھ تازہ کار جمالیاتی تجزیہ سامنے آتا ہے۔
اب میں گھر میں پانو نہیں رکھوں گا کبھی
گھر کی ہر اک چیز سے مجھ کو نفرت ہے
گھر والے سب کے سب میرے دشمن ہیں
جیل سے ملتی جلتی گھر کی صورت ہے
ابا مجھ سے روز یہی فرماتے ہیں
کب تک میرا خون پسینہ چاٹو گے
اماں بھی ہر روز شکایت کرتی ہے
کیا جوانی پڑے پڑے ہی کاٹو گے
بھائی کتابوں کو روتا رہتا ہے سدا
بہنیں اپنا جسم چراتے رہی ہیں
میلے کپڑے تن پہ داغ لگاتے ہیں
بھیگی آنکھیں جانے کیا کیا کہہ جاتی ہیں
چولہے کو جی بھر کے آنچ نہیں ملتی
کپڑوں کو صندوق ترستے رہتے ہیں
دروازے، کھڑکی، منھ کھولے تکتے ہیں
دیواروں پر بھتنے ہنستے رہتے ہیں
اب میں گھر میں پاؤں نہیں رکھوں گا کبھی
روز ہی ہیں سوچ کے گھر سے جاتا ہوں
سب رستے ہر پھر کے واپس آتے ہیں
روز میں اپنے آپ کو گھر میں پاتا ہوں
محمد علوی کے شعری مجموعہ کا نام ’’ خالی مکان‘‘ ہے۔ خالی مکان سے ذہن میں کئی خیالات ابھرتے ہیں۔ ڈاکٹر مغنی تبسم لکھتے ہیں:
’’ گھر‘‘ اپنے تکرر کی وجہ سے محمد علوی کی فرہنگ غزل کا ایک مانوس اور مخصوص جزو بن گیا ہے اور جس شعر میں بھی استعمال ہوا ہے بالعموم کلیدی لفظ بن کر آیا ہے۔۔۔ خالی مکان غیرآباد ہونے کی وجہ سے آسیب زدہ بھی ہو سکتا ہے۔ مکان گھر کا کنایہ ہے۔ مکان دفتر بھی ہو سکتا ہے اور گھر بھی۔ دفتر گھر نہیں ہو سکتا بلکہ دونوں ایک دوسرے کے تعین ہیں۔ لوگ گھر میں بھی رہتے ہیں اور سرائے میں بھی فرق طویل اور مختصر قیام کا ہے۔ سر ائے سے وہ دل بستگی نہیں ہوتی جو گھر سے ہوتی ہے۔ گھر انسان کی خلوت اور نجی زندگی کا محل ہے اس لیے گھر سے موانست کبھی اتنی شدید اور گہری ہو جاتی ہے کہ انسان اسے اپنی ذات سے Identity کرنے لگتا ہے۔‘‘
ذیل کی نظم میں مچھلی کی بو، زندگی کی علامت ہے جو تسلسل کے ساتھ پیچھا کرتی ہے۔ علوی نے نظم سے حسِ ذائقہ اور شامہ کے جڑواں عمل سے اپنے اظہار میں شعری معنویت پیدا کی ہے۔ نظم کی ابتدا سے اختتام تک کئی پرچھائیاں دیکھنے ملتی ہیں لیکن آخر میں یہ سب ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں لیکن مچھلی کی بو اس کے جنازہ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
درزی کی دکان سے لگ کر
جو ہوٹل ہے
اس ہوٹل کی
مچھلی ٹیسٹی ہوتی ہے
کل کھاؤں گا
لیکن مچھلی کی بو، سالی
ہاتھوں میں بس جاتی ہے
اتنا بہت سا سوچ کے وہ
سویا تھا مگر
پھر نہ اٹھا
دوسرے دن جب
اس کا جنازہ
درزی کی دوکان کے پاس سے گزرا
ہوٹل سے مچھلی کی بو
دور دور تک آئی تھی
کئی مواقع پر بلراج کومل محمد علوی کی شاعری کے رطب اللسان ہیں:
’’ محمد علوی کی نظمیں پڑھتے وقت مجھے اکثر احساس ہوا کہ وہ واقعی ان چند خوش قسمت شاعروں میں سے ایک ہیں جو ہر لمحہ شہادت کے کرب سے گزرتے ہیں اس معصومیت کے تحفظ کے لیے اس معصومیت کی بقاء کے لیے حیاتِ جاوداں کے لیے جو خدا نے روزِ اول طفلِ نو کو بخش دی تھی۔ میں ان کا مقابلہ Walter De La mare سے کرنے کے بعد بھی ان کی معصوم اور نیک فطرت کا کوئی نقش مرتب نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ معصومیت کبھی اسیر نقش نہیں ہوتی۔ اگر میں انھیں چینی شاعر کہوں تو وہ مجھے سرزمینِ جاپان کی دھوپ اور ہوا میں پرواز کرتے نظر آتے ہیں۔ اردو شاعر لکھوں تو مجھے اردو شاعری کے جملہ تنظیمی کلیوں کا منھ چڑاتے نظر آتے ہیں۔‘‘
محمد علوی اپنی ہی نظم ’’ تخلیق‘‘ کے مجسم پیکر ہیں:
ایک زنگ آلودہ
توپ کے دہانے پر
ننھی منی چڑیا نے
گھونسلہ بنایا ہے
شاعر کے لیے اس سے بہتر منصب کیا ہو سکتا ہے۔
محمد علوی کو مختصر نظم نگاری میں ایک خاص ہنر مندی حاصل ہے۔ وہ اپنی نظم بالکل سیدھے سادے انداز میں شروع کرتے ہیں۔ پھر نظم کو ایک Twist دیتے ہوئے ایک منفرد کیفیت سے ختم کرتے ہیں۔ جیسے مندرجۂ ذیل نظمیں:
موت:
جسم کے
کسی تاریک کونے میں
الارم لگا کے
میٹھی نیند سوتی ہے
الارم بجے
۲ بجے
کب جاگنا ہے
نیند میں بھی
اسے خبر ہوتی ہے
صبح کی نظم:
جیسے بہت سی عورتیں
ایک ساتھ
گھونگھٹ اٹھا رہی ہوں
اور سب کے چہرے
ہو بہو
ایک جیسے ہوں
شام:
بہت سی بلیوں کی غرغراہٹ
قریب آتے ہوئے قدموں کی آہٹ
جنگلی کبوتر سہما ہوا ہے
اڑا جاتا نہیں پھر بھی اڑا ہے
صبح:
کسی اونچی چھت سے
کوئی کالی بلی
زمین پر گری
دبائے ہوئے منھ میں کالا کبوتر
ان نظموں میں پیکر اور استعارہ اس طرح حاوی ہیں کہ بیانیہ کی اہمیت تقریباً زائل ہو گئی ہے۔ ’’ کالی بلّی‘‘، ’’ اجلا کبوتر‘‘ کو سطحی طور پر رات اور دن کے مفہوم میں کہا جائے تو نظم ایک خوش گوار لیکن معمہ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی لیکن اشاراتی انداز میں اگر اس نظم کی تفہیم کی جائے تو ایک طاقت ور اور بے بس کے درمیان استحصال کا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ بلّی جو ہمیشہ شکار کرنے والی علامت ہے مجبور کبوتر کو دبوچ لیتی ہے۔
محمد علوی کی شاعر کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ماحول میں پھیلے ہوئے چھوٹے پھوٹے مظاہر کو بچوں کی سی تحیر آمیز معصومیت کے ساتھ شعری جامہ پہنا دیتے ہیں اس طرح وہ مشاہدہ کے شاعر ہیں۔ مظہر امام انھیں آنکھ کا شاعر قرار دیتے ہیں یعنی وہ بصیرت سے زیادہ بصارت کے شاعر ہیں اس کا مطلب صرف یہ بھی نہیں کہ ان کی شاعری احساس و فکر سے ماورا ہے۔
مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ:
مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ
جو کانچ جیسے
چمکتے ہوئے پانیوں کے جزیرے میں گھرے ہیں
تو ممکن ہے
کچھ روز اور جی لوں
کہ شہروں میں اب مرا دم گھٹ رہا ہے
علوی کی یہ نظم پڑھتے ہوئے اخترالایمان کی نظم ’’ لڑکا‘‘ کی یاد آتی ہے جس میں فطرت کی طرف لوٹ جانے کی خواہش کا شدید اظہار ہے۔ جدید شاعروں نے موجودہ عہد میں قدروں کی شکست و ریخت، تنہائی، اجنبیت، خوف و دہشت اور شکست خوردگی کے احساسات کی ترجمانی گھر اور باہر کی دنیا کی کشمکش کے حوالے سے بہت متنوع، بھرپور اور موثر انداز میں کی ہے۔ محمد علوی نے اپنے ایک شعر میں گھر کے کردار کے دوغلے پن کی بڑی جامع تصویر پیش کی ہے:
گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو
دیواروں نے گھیر لیا ہے
راحت اور سکون کی توقع میں وہ گھر لوٹتا ہے لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اچانک اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے کہ دیواروں نے اس کو گھیر لیا ہے گویا وہ گھر میں نہیں قید خانے میں آ گیا ہے۔
اہم شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ذہن اور دل کو حیرت زدہ اور کچھ پل کے لیے ساکت کر دینے والے عناصر مضمر ہوتے ہیں۔ یعنی ہم جب کسی بہت عمدہ شعر کو پڑھتے ہیں تو ایک غیر متوقع تاثر بھی شعر کی اندرونی کیفیت سے نمودار ہوتا ہے جو ہمیں کچھ پل کے لیے بالکل ساکت کر دیتا ہے۔ ہم حیرت زدہ ہو کر بے ساختہ ’’واہ‘‘ کہہ اٹھتے ہیں اور دیر تک اس سرشاریِ کیفیت سے لطف اندوز اور بعض اوقات وجدانی طور پر محظوظ ہوتے ہیں۔ مجھے محمد علوی کی نظموں میں اسی متحیر اور متجسس کر دینے والی کیفیات ملتی ہیں اور یہ صورت حال اس وقت بہت دلچسپ ہو جاتی ہے جب نظموں میں Twist بھی آ جائے۔ مجھے محمد علوی کی ایک نظم بہت پسند ہے جس میں ان کا وہی Twisting Process روبہ عمل ہے جو ان کی شخصیت کی خاصیت ہے ’’ نظم ہے‘‘ کتبہ‘‘۔
کتبہ:
قبر میں اترتے ہی
میں آرام سے دراز ہو گیا
اور سوچا
یہاں مجھے
کوئی خلل نہیں پہنچائے گا
یہ دو گز زمین
میری
اور صرف میری ملکیت ہے
اور میں مزے سے مٹی میں گھلتا ملتا رہا
وقت کا احساس یہاں آ کر ختم ہو گیا
میں مطمئن تھا
لیکن بہت جلد
یہ اطمینان بھی مجھ سے چھین لیا گیا
ہوا یوں
کہ ابھی میں
پوری طرح مٹی بھی نہ ہوا تھا
کہ اور شخص
میری قبر میں گھس آیا
اور اب
میری قبر پر
کسی اور کا کتبہ نصب ہے
’’خالی مکان‘‘، ’’ گھر‘‘ محمد علوی کی مخصوص اعلامیے ہیں، مندرجہ ذیل چند منتخب اشعار میں علوی کی نفسیاتی کیفیات اور اس کے اندرونی خالی پن کو محسوس کیا جا سکتا ہے:
جالے تنے ہوئے ہیں گھر میں کوئی نہیں
’’کوئی نہیں‘‘ اک اک کونا چلاتا ہے
دیواریں اٹھ کر کہتی ہیں ’’ کوئی نہیں‘‘
’’کوئی نہیں‘‘ دروازہ شور مچاتا ہے
کوئی نہیں اس گھر میں کوئی نہیں لیکن
کوئی مجھے اس گھر میں روز بلاتا ہے
روز یہاں میں آتا ہوں ہر روز کوئی
میرے کان میں چپکے سے کہہ جاتا ہے
’’کوئی نہیں‘‘ اس گھر میں کوئی نہیں پگلے
کس سے ملنے روز یہاں تو آتا ہے
محمد علوی کی شعری تصنیف ’’ تیسری کتاب‘‘ کے دیباچہ میں وارث علوی، محمد علوی کی شاعری کی تخلیقی کرب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ علوی کی ذات وہ نقطۂ اتحاد ہے جہاں خارجی دنیا کے حادثات اور داخلی دنیا کی وارداتیں، دو دھاروں کی صورت آپس میں مل جاتے ہیں اور علوی نے ذات کو شخصیت میں بدلنے کے بجائے میڈیم میں بدل دیا ہے۔ تاکہ وجودی کرب کی گدلی لہر اور نشاطِ زیست کی چمک دار موج روحانی خلاء کے ہوس ناک سناٹوں اور حسنِ فطرت کی رنگا رنگ جلوہ فروشیوں کا تماشا پوری شدت سے کر سکے۔‘‘
آدمی کی زندگی کا ہر لمحہ غیر یقینی ہے۔ زندگی دکھ بھری ہو یا سکھ سے معمور اس سے نباہ کرنا آدمی کی مجبوری ہے۔ گھر بسا کر بیوی اور بچوں سے محبت کرنا اور ان کے غم و الم میں شامل ہونا اور اپنی شریکِ حیات کے ساتھ جینا نئی نظم کا اثباتی تصور حیات ہے۔ محمد علوی کی نظم ’’ شکست‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔
شکست:
دیواریں، دروازے، دریچے گم سم ہیں
باتیں کرتے بولتے کمرے گم سم ہیں
ہنستی شور مچاتی گلیاں چپ چپ ہیں
روز چہکنے والی چڑیاں چپ چپ ہیں
پاس پڑوسی ملنے آنا بھول گئے
برتن آپس میں ٹکرانا بھول گئے
الماری نے آہیں بھرنا چھوڑ دیا
صندوقوں نے شکوے کرنا چھوڑ دیا
’’مٹھو‘‘ بی بی روٹی دو کہتا ہی نہیں
سونی سیج پہ دل بس رہتا ہی نہیں
’’سنگر‘‘ کی آواز کو کان ترستے ہیں
گھر میں جیسے سب گونگے ہی بستے ہیں
تم کیا بچھڑے سمئے سہانے بیت گئے
لوٹ آؤ میں ہارا، لو تم جیت گئے
محمود ہاشمی نے محمد علوی کی نظم ’’ میں اور تو‘‘ کو ان کی شاعری کا Catharsis کہا تھا لیکن فاروقی نے علوی کی نظم ’’ گھوڑے پر ایک لا‘‘ش کو ان کی بہترین نظم قرار دیتے ہیں۔ یہ نظم بیانیہ انداز میں کہی گئی ہے جو ’’ اوز باخ‘‘ کی بیان کردہ ان تمام خصوصیات کا مکمل نمونہ ہے جو پس منظری بیانیہ کا خاصہ ہوتی ہیں:
گونج اٹھی ساری وادی زخمی گھوڑے کی ٹاپوں سے
ٹاپوں کی آواز، پہاڑوں سے ٹکرائی بکھری
دھوپ کسی اونچی چوٹی سے گرتے پڑتے اتری
پڑے پڑے پتھروں کے نیچے سایوں نے حرکت کی
اڑتے گدھ کی آنکھوں میں تصویر بنی حیرت کی
ریت چمکتی ریت، ریت اور پتھر اور اک گھوڑا
گھوڑے پر اک لاش، لاش کو لے کر گھوڑا دوڑا
حیرت کی تصویر گری چکرائے گدھ کی آنکھوں سے
گونج اٹھی ساری وادی زخمی گھوڑوں کی ٹاپوں سے
پوری کی پوری نظم پیکروں سے مل کر بنی ہے جس میں بصری پیکر، حرکی پیکر، سمعی پیکراور جمود کے پیکر شامل ہیں۔ نظم کے آخری دو مصرعوں میں بہ یک وقت انتشار بھی ہے اور سکوت وجود بھی۔ نظم میں ایک ایسی منظر نگاری ہے جو مصرع بہ مصرع اپنی گرہیں کھولتی ہے، گھوڑے پر رکھی لاش گھوڑے کی بے زبانی اور گھوڑے کے سوار کا سکوت محمد علوی کی صلابت قوتِ بیان کی دلالت کرتے ہیں۔ فاروقی کے لفظوں میں اس نظم کے سامنے ہمارے زیادہ تر شاعروں کی زیادہ تر نظمیں کھانستی ہوئی چڑچڑی بوڑھی عورتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یہ نظم محمد علوی کی شاعری ہی نہیں بلکہ تمام جدید شاعری میں ایک بلند، تنومند سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نظم کے بعد بھی اگر شاعری وہی رہی جو پہلے تھی تو شعر گوئی کارِبے کاراں ہے۔
محمد علوی نے بڑی خوبصورت مختصر مختصر نظمیں کہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی مصور نے ایک ہی کلر اسکیم سے کینوس پر مختلف تصویریں بنائی ہیں اور ان میں اپنے خونِ جگر کے رنگ کو بھی شامل کر دیا ہے۔ ان میں ان کی نظم ’’ڈرائیکولا‘‘ اپنی ہیبت ناکی کی وجہ سے خاصی اہمیت کی حامل ہے:
ڈراکیولا:
کمرے کی دیوار توڑ کر میرے سامنے آیا تھا
اپنا سینہ چیر کے مجھ کو اپنا خون پلایا تھا
چمگاڈر سا اڑا، کھلی کھڑکی سے باہر پہنچا
آنکھ سے اوجھل ہوا نہیں اور میرے اندر پہنچا
اب میں اس کا نوکر ہوں اس کا حکم بجاتا ہوں
اس کے لیے میں روز رات کو خون چوس کر لاتا ہوں
محمد علوی کو مختصر نظم لکھنے میں خاصا ملکہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کے ایجازی پیرہن میں وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جس کے لیے ایک طویل نظم درکار ہوتی ہے۔ ذیل کی نظمیں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔
پاگل لڑکی:
راتوں کو اٹھ کر رونے لگتی ہے
دن میں بیٹھے بیٹھے سونے لگتی ہے
میلے کپڑے تہہ کر کے رکھ دیتی ہے
دھلے دھلائے کپڑے دھونے لگی ہے
اپنے آپ سے باتیں کرتی جاتی ہے
لوگوں کے سائے سے ڈرتی رہتی ہے
خوفناک کمرہ:
آنکھیں تڑپ اٹھی ہیں اندھیرے میں ڈوب کر
کمرے میں اور کوئی نہیں کوئی ہے مگر
دیوار و در پہ ہانپ رہا ہے عجیب ڈر
میں سوچتا ہوں بھاگ ہی جاؤں مگر کدھر
ٹوٹا ہوا پڑا ہے مرا جسم فرش پر
آدمی:
اب جدھر بھی جاتے ہیں گائے بھینس کا ریوڑ
اب ادھر نہیں آتا
اونٹ تیڑھا تیڑھا سا
اب نظر نہیں آتا
اب نہ گھوڑے ہاتھی ہیں
اور نہ وہ براتی ہیں
اب گلی میں کتوں کا
بھونکنا نہیں ہوتا
رات چھت پہ سوتے ہیں
بھوت دیکھ کر کوئی
چونکنا نہیں ہوتا
اب جدھر بھی جاتے ہیں
آدمی کو پاتے ہیں
یہ نظم ایک طنزیہ ہے آدمی کے اس کردار کا جو درندوں سے ہی نہیں بلکہ مافوق الفطرت پیکروں سے بھی بدتر ہو چکا ہے ساتھ ہی یہ نظم آدمی کی معصومیت کے ختم ہونے کا نوحہ ہے۔ اسے اس کے اپنے روز مرہ کی معمولات کے ختم ہونے پر کوئی ملال نہیں۔ اس کی زندگی کا سادہ اور فطری چہرہ مسخ ہو چکا ہے لیکن اس پر اس لیے کوئی حیرت نہیں۔ نظم کا تانا بانا بہت سہل اور بیانیہ ہے لیکن نظم یا علوی کا تجربہ پیچیدہ ہے کیوں کہ اس میں معصومیت اور خدائی تقدس سے محرومی کا اظہار ابنِ آدم کی معصومیت کے زوال کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔
ہمارے بہت سے ہم عصر فن کار‘ ان سوالوں کا محور ہیں جو زندگی، اپنے زمانی اور مکانی تسلسل میں اپنی عصری آگہی میں اپنے عہد کی آبادیوں اور ویرانوں میں اور اس عہد کے آدمی اور اس کے گرد پھیلی ہوئی معمولی سے معمولی اشیاء کے بارے میں نئے شاعر سے Irony کے انداز میں پوچھتی ہے۔ یہ سوالات اور ان کا رد عمل اور زندگی کا چیلنج، نئے شاعر کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے الفاظ سے علامتوں کے اہرام بنائے جن میں زندگی سے بیزاری، موت کی دہشت اور ابدیت کی خواہش کو محفوظ کیا جا سکے اور ایسے ویرانوں میں خود بہ خود سنگ سار ہو، جہاں ویران، انتہائی اور پتھریلا پن زندگی کرنے کی علامت بن سکے۔
خواب صحراؤں کے:
بڑے بڑے پتھروں کو چن کر
اک اہرام بناؤں
اور اندر سو جاؤں
آنکھ کھلے تو
جلتے بجھتے
سورج کے ٹکڑے
اہرام کے چاروں اور پڑے پاؤں
کیوں جاگا
پچھتاؤں
جا کے پھر سو جاؤں
محمد علوی کی ذیل کی نظم اس نئے کلچر پر ایک طنز ہے جو مغرب کی تقلید میں اپنی وضع و قطع اور لباس کے علاوہ کردار کو بھی نیست و نابود کر رہی ہے۔ اس نظم میں بھی علوی کا وہی Twisting Process ہے جو ان کی نظم گوئی کا خاصا ہے۔
نئی نسل:
وہ گرمی کی
جلتی ہوئی دوپہر تھی
محلے کی کچے گھروں میں
سبھی لوگ دبکے ہوئے تھے
ہر اک کی زباں پر
یہی تذکرہ تھا
بڑے گھر میں لڑکا ہوا ہے
سبھی گھر کے بوڑھے یہی سوچتے تھے
بڑی گھر کی قسمت بڑی ہے
خدا نہ کرے
اپنے گھر
اب بھی لڑکی ہوئی تو
یہ لڑکا
ابھی سے اسے پھانس لے گا
انھیں کیا خبر تھی
بڑا ہو کے
محلے کی سب
لڑکیوں کو لیے
لڑکیوں جیسے کپڑے پہن کر
مٹکتا پھرے گا
علوی کے یہاں فرقہ وارانہ فسادات اور ملک میں پھیلی ہوئی مذہبی منافرت ایک شدید کرب کی صورت میں دکھائی پڑتی ہے جس کا اظہار انھوں نے اپنی نظم اور غزل دونوں میڈیم کے ذریعہ کیا ہے۔ آفاتِ سماوی پر مختلف نظموں میں ان کا ردعمل انتہائی فنکارانہ اور تخلیقیت آشنا ہوتا ہے نہ وہ خداسے شکایت کرتے ہیں نہ اربابِ سیاست سے شکوہ سنج ہوتے ہیں، گجرات کے زلزلے پر ایک نظم میں وہ صرف فطرت سے مخاطب ہوتے ہیں:
زلزلہ:
آنے سے پہلے کم سے کم
اک خط تو بھیج دیا ہوتا
ہم تیرا سواگت کرنے کو
گھر سے سڑکوں پر آ جاتے
گھر یوں ہم کو نہ کھا جاتے
احمد آباد اور گجرات کے فسادات فاشسٹ طاقتوں کی ایک خونین لیبارٹری ہے جہاں آزادی کے بعد سے نسل کشی کی مسلسل رو چل رہی ہے آج تک تقریباً سینکڑوں ایسے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں جن میں بہ یک وقت سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد کی جانیں گئی ہیں۔ عتیق اللہ کہتے ہیں ’’ احمد آباد کا فساد‘‘ علوی کا ذاتی تجربہ تھا جس نے اس کے گم شدہ خدا کے معصومانہ تصور پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا ہے۔ انسانی اور انسانیاتی وحدت کا آئینہ اس ثانیے کی زد میں آ کر چکنا چور ہو جاتا ہے۔ علوی اتنا تلخ پہلے کبھی نہیں تھا اب اس کے وجود کو خود اس کے پاؤں بیداری سے لچک رہے تھے۔
خدا کہاں ہے:
نہ مسجدوں میں، نہ مندروں میں
خدا کہاں ہے کدھر گیا ہے
چلو مرے ساتھ میں بتاؤں
مگر سمیے اب گزر گیا ہے
جلائے ہم نے جو ان گھروں میں
خدا بھی جل بجھ کے مر گیا ہے
علوی کی نظموں میں ’’میں اور تو‘‘، ’’خدا‘‘، ’’آخری دن کی تلا‘‘ش میں اعتقاد اور بے اعتقادی کا ڈائلیما واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ محمد علوی نے فرقہ وارانہ فسادات، فتنہ و شر پر غزلوں میں بھی اپنے کرب کا اظہار، دردناک لہجے میں کیا ہے:
یہ اشعار احمد آباد کے فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں ہیں جو احساس اور تجربے سے گذر کر کہے گئے ہیں اور واردات کا راست اظہار ہیں۔ سماجی اور سیاسی سطح پر ملک میں سانحات و وارداتیں آزادی کے بعد سے مسلسل وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں۔ ان کی خلش چبھن بن کر ان کے ذہن میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ جن کا اظہار ان کی نظم ’’ڈپریشن‘‘، ’’فالج زدہ شہر‘‘ اور ’’جل مرنے سے پہلے‘‘ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ڈپریشن:
رات کو سونے سے پہلے
ایسی جان لیوا فکروں میں
سارا دن ڈوبا رہتا ہوں
رات کو سونے سے پہلے
اپنے آپ سے کہتا ہوں
بھائی مرے! دن تو خیر سے گذرا
گھر میں سب آرام سے ہیں
کل کی فکر میں کل کے لیے اٹھا رکھو
ممکن ہو تو
اپنے آپ کو
موت کی نیند سلارکھو
فالج زدہ شہر:
ایک ہاتھ
اور ایک پاؤں
اور آدھا چہرہ
آدھے شہر میں
کرفیو اور پولیس کا پہرہ!
جل مرنے سے پہلے:
کھڑکی بند کرو
دروازہ مت کھولو
بولنا ہے تو آنکھوں ہی آنکھوں میں بولو
شور گلی تک آپہنچا ہے
جل مرنے سے پہلے
آؤ گلے مل کر رولو!
ان نظموں میں جو مسائل و مناظر آئے ہیں وہ ہمارے معاشرے کی اس غیر محفوظ سائیکی Psyche کا حصہ ہیں، جن سے ہم آزادی کے بعد سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔
اسی تناظر میں محمد علوی کی دو غزلوں کے مندرجہ ذیل اشعار قابل مطالعہ ہیں:
ابھی رویا ابھی ہنسنے لگا ہوں
تو کیا سچ مچ میں پاگل ہو گیا ہوں
ابھی میں اپنے گھر میں سو رہا تھا
ابھی میں گھر سے باہر ہو گیا ہوں
انہی لوگوں سے مل کر خوش ہوا تھا
انہی لوگوں سے چھپتا پھر رہا ہوں
مرے اپنے ہی مجھ کو مارتے ہیں
میں اپنی ہی شکایت کر رہا ہوں
٭
اس نے مجھے تباہ کیا اس کے باوجود
دو چار دن بھی اس سے میں نفرت نہ کر سکا
اپنے سے بڑھ کے تجھ پہ مرا اعتماد تھا
افسوس تو بھی مری حفاظت نہ کر سکا
سچ ہے وطن سے ایسی محبت نہیں مجھے
شاید اسی وجہ سے میں ہجرت نہ کر سکا
مندرجہ غزلوں اور نظموں کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بطن میں جو انسانیت کا درد ہے وہ انھیں مضطرب کر دیتا ہے وہ ایک سوالیہ نشان بن جاتے ہیں اور خود کلامی کے انداز میں اپنے احساس کا اظہار کرتے ہیں۔ اوپر درج کے گئے شعر، ان لمحات کے ہیں جب احمد آباد میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے اور خاک و خون کے مناظر ان کی روح کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو گئے تھے۔ اس واردات کو علوی نے خالص تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے جس سے یہ شعر تاثر پارہ بن گئے ہیں۔
محمد علوی نے اپنی نظموں میں انسان، ضمیر، روح اور روح عصر کے انتہائی سلگتے مسائل کو اپنی ذات کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ان کی نظم فکری نسبت، شعری و فکری ایجاز اور فنی برتاؤ میں ہیئتی ارتکاز کی وجہ سے اپنی انفرادیت کی آواز بن جاتی ہے۔ محمد علوی نے اپنی ذات کو ایک وسیع دائرے کا محوری نقطہ بنایا ہے جس پر استدلال سے عاری پاگلوں کی تلواریں جھپٹ رہی ہیں۔ گویا اصل مسئلہ وہ لامتناہی، بے کراں اور محیط دائرہ نہیں جو ازل سے ابد کے درمیان پھیلا ہوا ہے بلکہ وہ انسان ہے جو اس دائرے اور خدا کے وجود کا اعتراف اوراقرارِ شناخت اور علامت ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے