سلام ۔۔۔ جلیل عالی

دامِ دنیا نہ کوئی پیچِ گماں لایا ہے
سوئے مقتل تو اُسے حکمِ اذاں لایا ہے

خونِ شبیر سے روشن ہیں زمانوں کے چراغ
شِمر نسلوں کی ملامت کا دھواں لایا ہے

گونج اِس گنبدِ گیتی میں ہے دَم دَم اُس کی
اک بیاں وہ جو سرِ اوجِ سِناں لایا ہے

فیصلہ حُر نے کیا اور حِرا نے دیکھا
جست بھرتے ہی اُسے بخت کہاں لایا ہے

آج بھی سر بہ گریباں ہے اُسی حُزن میں وقت
شامِ غربت سے جو احساسِ زیاں لایا ہے

وہ شہِ رنج و رِجا ہے سو یہ اُس کا شاعر
نذر کو چشمِ رواں، قلبِ تپاں لایا ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے