فریدہ لاکھانی فرحؔ

کسی سے کوئی شکایت نہ کچھ گلہ رکھئے
دراز صرف محبت کا سلسلہ رکھئے

خیال و خواب میں ہی اس سے رابطہ رکھئے
خرد سے کچھ تو جنوں کا معاملہ رکھئے

دلوں کی بات دلوں تک رہے تو بہتر ہے
زبان کھول کے کیوں اپنا مدعا رکھئے

بہت ہے وقت کی تنگی محبتوں کے لئے
نہ بھول کر بھی کسی دوست کو خفا رکھئے

تمہاری راہ پہ آ جائے گا کبھی نہ کبھی
ابھی تو باتوں میں کچھ دن اسے لگا رکھئے

عطائے دوست ہے جانے نہ دیجیئے اس کو
متاعِ غم کو کسی طور سے بچا رکھئے

دلوں کی بات دلوں تک پہنچ ہی جائے گی
چھپا کے شعر میں کچھ حرفِ آشنا رکھئے

جو دوریاں رہیں اس سے، یہ اور بہتر ہے
قریب جا کے بھی کچھ اس سے فاصلہ رکھئے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے