مصحف اقبال توصیفی

مجھ کو اکیلا پا کر دل نے مجھ سے کیسی گھاتیں کیں
میں جو نہیں تھا، وہ بھی کہاں تھا، کس نے کس سے باتیں کیں؟

آنکھیں خشک تھیں لیکن میں تو پاؤں سے سر تک بھیگ گیا
اک آنسو نے میرے اندر آج عجب برساتیں کیں

آنکھیں بند تھیں اُن میں دیکھا دنیا کے بازاروں کو
گھر میں سب کے بیچ میں بیٹھا، خواب میں سب سے باتیں کیں

اک لمحے کا کھیل تھا سارا، صبح ہوئی پھر شام ہوئی
اک دن کو انگلی پہ گھمایا اور اس سے سو راتیں کیں

سورج کی کرنوں کو باندھا شام کی میلی چادر میں
اس عارض کی صبح سے پیدا ہجر کی کالی راتیں کیں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے