عاطف چودھری

میں ٹوٹ کے اس وقت کے آثار سے نکلا
آنسو بھی نہ اک چشمِ عزادار سے نکلا

دنیا سے عداوت تو بہت بعد میں ٹھہری
پہلے میں تِرے دل، تری گفتار سے نکلا

لہجہ ترا کچھ اور تھا، آنکھوں میں تھا کچھ اور
اقرار کا پہلو ترے انکار سے نکلا

ہے رقص میں ہوتے ہوئے تنہائی کا دکھ بھی
میں دشت سے نکلا ہوں کہ دیوار سے نکلا

مجھ سے وہ بچھڑ کر کہیں آباد تھا مجھ میں
سایا کبھی گرتے در و دیوار سے نکلا

اس دشت میں رکنا مری پسپائی تھی عاطف
میں آبلہ پا اور بھی رفتار سے نکلا
٭٭٭

چپ چپ رہنا کچھ نہ کہنا یہ بھی ایک اداسی ہے
ہنس کرسارے صدمے سہنا یہ بھی ایک اداسی ہے

بیٹھے بیٹھے کھو سا جانا یونہی دور خلاؤں میں
چلتے چلتے ہنستے رہنا یہ بھی ایک اداسی ہے

مار کے کنکر لہریں گننا،بیٹھے جھیل کنارے پر
کچھ لوگوں کا ہے یہ کہنا یہ بھی ایک اداسی ہے

بے تابی سے اٹھنا جب بھی بولے کاگ منڈیروں پر
یاد کا ہر اک چھت پر بہنا یہ بھی ایک اداسی ہے

دروازے پر ناری بیٹھی روز پیا کی آس لگائے
ہاتھوں میں ہو پیار کا گہنا یہ بھی ایک اداسی ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے