خورشید احمد جامی، اردو غزل کی توانا آواز ۔۔۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی

جدید غزل کے شاعروں میں خورشید احمد جامی کا مرتبہ صف اول شاعر کا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جامی، جدید شاعری کے ان اولین شاعروں میں ہیں جنھوں نے جدیدیت کو شعوری طور پر اس وقت قبول کیا جب اس کی رو، اردو ادب میں پوری طرح سرایت بھی نہ کر پائی تھی۔  ہر چند کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آ چکا تھا لیکن وہ قابلِ توجہ نہیں بن سکا تھا۔  ۱۹۶۰ء  میں جب ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’برگ آوارہ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تو غزل میں نئی لفظیات، نئی اشاریت، نئی علامت اور جدید حسیت نے نقّادانِ ادب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس مجموعہ غزل کی شاعری نے اردو ادب میں جاودانی حیثیت حاصل کر لی۔ ان کی نئی غزل کو پڑھتے ہوئے بار بار شکیب جلالی کی غزل یاد آتی ہے:

موسمِ گل بھی جب آیا ہے تو آتے آتے

ریگ زاروں سے کڑی دھوپ اٹھا لایا ہے

خود مرے حالات بھی جلدی میں تھے

وقت نے تم کو بھی ٹھہرایا نہیں

نیند آئے تو مجھے رات کا مجرم سمجھو

چاند نکلے تو اسے آج گناہ گار کہیں

’’برگ آوارہ‘‘ کے پیش نامے میں جامی نے اپنے تصورِ حیات اور نظریۂ فن کے بارے میں جو اشارے دئیے ہیں اس کے مطالعے سے ان کی شاعری کے حقیقی خد و خال کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔

’’وقت کی تیز و تند آندھیوں میں زندگی اس برگ آوارہ کی طرح ہے جو اپنا ماضی، حال اور مستقبل کھو چکا ہے۔  جلتی ہوئی تنہائیوں، ٹوٹے ہوئے خوابوں اور زخم خوردہ تجربوں کے اس صحرا میں جہاں ہرگزرا ہوا پل ایک صدی کی بات معلوم ہوتی ہے۔  تخلیق اور اظہار کی مختلف جہتیں ان گنت چھوٹی بڑی آوازوں کے شور میں اپنی آواز کو ڈھونڈنے، پہچانے اور پالنے کی خواہش کے سوا کچھ اور نہیں، فن کی دائمی قدروں اور ان گنت رنگوں کے بارے میں سوچنا دور کا مقدر نہیں ہے عمل اور ردِّ عمل کی برق رفتاری صرف لمحاتی تصورات کو جنم دیتی ہے اور کل کیا ہو گا کوئی بھی نہیں جانتا۔‘‘

خورشید احمد جامی کے ’’برگ آوارہ‘‘ میں اپنے عہد کی جدید حسیت کی جس رو نے اپنے وجود کا نمود کیا اس کی علامت، اشاریت ہی نہیں بلکہ لفظیات بھی چونکا دینے والی تھی۔  غزل کے قاری کو جامی کے یہاں نئی امیجری کے جو نقوش نظر آئے وہ اس سے پہلے کم از کم اس سرزمین پر مفقود تھے۔  جس سے ان کا تعلق تھا۔  انہوں نے ایسی علامتوں کی تخلیق کی جو غزل کے باب میں نادر و شاذ تھیں۔  صلیب، سحر، خیمۂ درد، دشت، کتابِ گل، قیمتِ عرض ہنر، برگ آوارہ، سفیرانِ سحر، وقت کی دھوپ اور نگار صبح خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔  اسی تناظر میں نامور نقاد سیدہ جعفر نے کہا تھا کہ جامی نے غزل کا تخلیقاتی Diction یکسر بدل دیا اور ایک نئی آواز میں زندگی کے گیت گائے۔  عصری آگہی اور تجربے کا تعین ان کی غزل کا امتیاز بن گیا ہے۔  جامی کی زندگی میں شکستگی، محرومی، محزونی، یاس و حرماں کا ہجوم تھا اس کے باوجود جامی کی تمنا کا دامن رجائیت کا احساس نہیں چھوڑتا۔ جامی زندگی کے اندھیروں کو اجالوں کی تعبیر قرار دیتے ہیں۔  اندھیروں کے طوفان میں روشنی کا پتہ دیتے ہیں۔  دشتِ ظلمات میں سورج کے ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں اور غمِ حیات کے سلسلے کو پیمبری عطا کرنے کا رجائی اعلان کر کے زندگی سے اپنی اٹوٹ وابستگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

دیکھو تو صرف ایک اندھیرا ہے بے کراں

سوچو تو زندگی بھی اجالوں کا شہر ہے

غمِ حیات، مرے ساتھ ساتھ ہی چلنا

پیمبری سے ترا سلسلہ ملا دوں گا

دشتِ ظلمات میں چپکے سے کوئی کہتا ہے

اور دو گام کے سورج بھی یہیں رہتے ہیں

کناروں پر اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں آؤ

وہاں اک روشنی سی ہے جہاں طوفان اٹھتے ہیں

جامی کی شاعری کا نقطۂ نظر ارضی اور حقیقت پسندانہ ہے اور اس میں اس عہد کے انسان کی غیر یقینی صورتِ حال اور وقت کی تصویریں ملتیں ہیں۔ خورشید احمد جامی نے غزل کو نئی تراکیب دیں جیسے خوابوں کی چاندنی سے نہائے ہوئے بدن، رات کا جنگل، سیاہی کا سمندر، چاہتوں کی پگھلتی زنجیریں، الفاظ کے جنگل میں صدائیں دینا یہ سب لفظیاتی تراکیب جدید شاعری کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور آنے والی شاعری میں اس کی پیروی شد و مد سے کی گئی۔

نیم تاریک سی گلیوں میں کہیں ٹھہرا کر

چھپ گئی گردِ کشاکش میں امیدوں کی سحر

پگھلا دیے ہیں تلخ حقائق کی آگ نے

خوابوں کی چاندنی سے نہائے ہوئے بدن

گھر سے دن کے ساتھ نکلا تھا کوئی

رات کے جنگل میں جا کر کھو گیا

ہم سے کوئی جواب تو ان کا نہ بن پڑا

مجرم بنے ہوئے ہیں سوالوں کے سامنے

لوگ کہتے ہیں سیاہی کے سمندر میں کہیں

اور بھی ایک چمکتا ہوا دن ڈوب گیا

اپنے بارے میں سوچنا بھی اب

ایک دشوار مرحلہ ٹھہرا

جامی کی شاعری میں ان کی زندگی اور ان کی کائنات بھرپور انداز میں ملتی ہے۔  انہیں یہ احساس تھا کہ ان کے ساتھ زندگی نے وفا نہیں کی اور نہ وہ آسودگی بخشی جس کے وہ متمنی تھے۔  گھر کی معنویت ان کے لیے بے گھری کی تھی۔  لیکن ان کی شاعری زندگی کی تلخیوں اور احساسات کے سانحوں سے عبارت تھی۔  وہ آسودہ حال تھے نہ آسودۂ حیات، ان کی زندگی میں درد و غم، حادثات و سانحات اور محرومیاں اس قدر تھیں کہ انھیں کہنا پڑا:

اے خدا تیرے اس جہنم میں

زندگی سے بڑا ہے کوئی عذاب نہیں

زندگی بھر مجھے دوزخ میں جلایا جامیؔ

زندگی سے مری دیرینہ شناسائی ہے

کچھ نہیں ان راستوں میں دور تک

کھڑکھڑاتے خشک پتوں کے سوا

زندگی کی شکستیں، محرومیاں، مخزونیاں ان کے لئے سوہان روح بن گئی تھیں۔  انہوں نے اس غم کو اپنے غم دوراں میں مدغم کر کے اسے آفاقیت بخشی۔

مجھ سے کہیں ملا غمِ دوراں تو اس طرح

جیسے مری طرح سے ہے وہ بھی تھکا ہوا

چاہتیں ہیں کہ پگھلتی ہوئی زنجیریں ہیں

زندگی ہے کہ سلگتا ہوا ارمان کوئی

کس کو الفاظ کے جنگل میں صدا دیتے ہو

زندگانی تو کتابوں سے نکل آئی ہے

زندگی سے شدید محبت کا جو اظہار جامی کے یہاں شکستگی و کرب کی شکل میں ملتا ہے اس کی مثال دوسرے شاعروں کے یہاں کم کم ملتی ہے۔ کہتے ہیں:

یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا

ہم زندگی کے ساتھ ساتھ بہت دور تک گئے

کچھ دور آؤ موت کے ہمراہ بھی چلیں

ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے

وقت کی دھوپ ہے اور درد کا لمبا رستہ

زندگی سوچ کے سائے میں کھڑی ہے تنہا

ہر چند کہ جامی نے اپنی شاعری کا خمیر کلاسیکی غزل سے اٹھایا تھا لیکن نئے عہد کی تبدیلیوں میں انہوں نے جدید غزل کا طرزِ اظہار اختیار کیا اور اس طرز کے معمار ثابت ہوئے۔  انھوں نے روایت سے بغاوت کی اور ان تمام فکری سانچوں کو مسترد کر دیا جو قدیم فکر کی نمائندگی کرتے تھے۔  درد کو سورج کہنے والے شاعر کا یہ ادعا بالکل بجا ہے کہ انھوں نے غزل کو نیا اسلوب دیا۔

لے کے پھرتی ہیں آندھیاں جس کو

زندگی ہے وہ برگِ آوارہ

دیارِ شعر میں جامیؔ قبول کر نہ سکا

مرا مذاق روایت کی حکمرانی کو

تمھارے درد کو سورج کہا ہے

نیا اسلوب غزلوں کو دیا ہے

پہچان بھی سکی نہ مری زندگی مجھے

اتنی رواروی میں کہیں سامنا ہوا

غم حیات نے دامن پکڑ لیا ورنہ

بڑے حسین بلاوے تھے ان نگاہوں کے

کچھ دور آؤ موت کے ہمراہ بھی چلیں

ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے

ڈاکٹر محمد حسن کے بہ موجب ’’ خورشید احمد جامی کی شاعری فکری فضا کی شاعری ہے اس کا مقصد محض جذبے کا اظہار نہیں بلکہ مناسب نفسیاتی یا حسی فضا تک قاری کو پہچانا ہے، جہاں نئے استفہامیوں کے دروازے کھلتے ہیں۔  پرانے خواب سوال بن جاتے ہیں اور ایک ایسی ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو انسانی وجود اور فطرت کے تعلق کو نئے زاویے سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔  پوری کائنات ایک بولتی چالتی انجمن کے ساتھ چلتا ہوا قافلہ بن جاتی ہے جہاں چمک، روشنی اور جگمگاہٹ ہے اور یہ اجالے انسان کو زندگی سے اپنے تعلق پر دوبارہ نظر انداز کرنے کے لیے للکار رہے ہیں۔‘‘

’’ خورشید احمد جامی نے زندگی کے موضوعات و مسائل پر قلم اٹھاتے ہوئے اپنے پیکری اسلوب کو کام میں لایا چلتی پھرتی زندگی کی روح کو پیکری سانچوں میں ڈھال دیا ہے جامی کا پیکری اسلوب نئے علائم نئے استعاروں اور نئی تراکیب سے عبارت ہے ان عناصر سے ان کا تمثیلی پیکر اسلوب تشکیل پایا ہے۔  جامی کے فن کارانہ شعور سے ان کے تجربے اور طرزِ فکر میں ان کے مزاج کے اچھوتے پن کو بڑا دخل ہے اور ان دونوں کے پیچھے اس زمانے کی تہذیبی، معاشی اور اخلاقی قدریں رہی ہیں۔‘‘

جامیؔ کی شاعری میں زندگی کلیدی موضوع رہی ہے۔  زندگی سے جامی نے جس قدر پیار کیا وہ اس سے اسی قدر دامن بچاتی رہی لیکن زندگی سے قربت کا احساس ان کے اشعار میں جاں گزیں نظر آتا ہے۔ جدید غزل میں زندگی کی مختلف جہتوں، اس کے نشیب و فراز، ناکامیوں، محرومیوں، شکستوں اور کربناکی کی جو ترجمانی خورشید احمد جامی کے یہاں ملتی ہے ان سے پہلے مفقود تھی اسی لئے سرورالہدیٰ نے لکھا ہے کہ

’’مجھے نہیں لگتا کہ جدید غزل میں خورشید احمد جامی کے علاوہ کسی اور نے زندگی کے مختلف خد و خال کو اتنے دلکش انداز میں ابھارا ہو گا۔  ان کی ذہنی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی وہ ترقی پسندانہ تھا۔  خورشید احمد جامی کو اس امر کا احساس تھا کہ زندگی اور سماج سے وابستگی کا مطلب قطعی یہ نہیں ہوتا کہ زندگی کے تاریک پہلوؤں کو تاریک نہ کہا جائے۔  خورشید احمد جامی کی غزل کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ خیال و فکر کی کرنیں زندگی اور سماج سے پھوٹتی ہیں مگر جامی کا سیاسی و سماجی شعور انھیں مداری نہیں بناتا اور نہ انھیں چیخ و پکار پر آمادہ کرتا ہے۔‘‘

جامی کی شاعری میں زندگی اساسیت رکھتی ہے۔  انھوں نے اس خاص موضوع پر بے شمار اشعار کہے ہیں جن میں ان کا ذہنی کرب، محرومیاں اور نجی اذیتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا

ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے

آپ کے شہر میں اب کے تو بڑی رونق تھی

لوگ ہاتھوں میں صلیبوں کو لیے چلتے تھے

زندگی تلخ ہی سہی جامی

زندگی سے قریب ہو جاؤ

چاہتیں ہیں کہ پگھلتی ہوئی زنجیرں ہیں

زندگی ہے کہ سلگتا ہوا ارماں کوئی

زندگی بھر مجھے دوزخ میں جلایا جامی

زندگی سے مری بس اتنی شناسائی ہے

زندگی آج وہ صحرائے الم ہے جس میں

آرزؤں کے بھٹکتے ہوئے آہو بھی نہیں

بڑا ہجوم تھا لفظوں کی شاہراہوں پر

مگر وہاں بھی نہ تھا درد آشنا کوئی

نہ جانے آج ہے کس دشتِ نارسائی میں

وہ ایک شخص جو کل تک شریک محفل تھا

نظر کے سامنے آئے وہ ریگزار جہاں

سرابِ عمر رواں تشنگی کا حاصل تھا

جامی نے لفظی استعاروں کو خوبصورت تراکیب میں بدل دیا اور پیکر تراشی کا ایک جہانِ تازہ آباد کیا۔  چاہتوں کی پگھلتی زنجیریں، سلگتے ہوئے ارمان، آرزوؤں کے بھٹکتے آہو، لفظوں کی شاہراہیں، دشتِ نارسائی، سرابِ عمر رواں وغیرہ ان کی شاعری میں استعاروں اور علامتوں کی شکل میں زندگی کے مختلف زاویوں کی داستان سناتے ہیں۔ انہیں جو غزل اپنے عہد کی وراثت میں ملی تھی وہ ایک بندھے ٹکے اور طے شدہ الفاظ اور رموزو علائم کی زبان لیے ہوئے تھی۔  وہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ بھی رہے جس کی جانب جگناتھ آزاد نے اپنے ایک مضمون میں یوں اشارہ کیا ہے۔

’’میرا عہد تو ایک ایسا انقلاب آفرین عہد ہے جس کی پھیلی ہوئی بانہوں میں انسان کے صدیوں پرانے خواب اپنی تعبیر کے چمکتے ہوئے لب چوم رہے ہیں۔  آج کی زندگی علم و ہنر اور شعر و ادب کی راہوں میں ایک عظیم اور تابناک مستقبل کی آہٹ سن رہی ہے کہیں صاف اور کہیں مدھم اور آج تو دل کی ایک ایک دھڑکن میں لاکھوں دھڑکنیں اور ایک ایک آواز میں کروڑوں آوازیں شامل ہوتی جا رہی ہیں اور زندگی اپنی ساری تلخیوں کو بھلا کر اپنی کوششوں کو تیز تر کر رہی ہے۔‘‘            ۱؎

جامی نے جس عمر میں نئی غزل کہنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کیا وہ عام طور پر اردو شعراء کے لیے توبہ و استغفار کی، ترک اشعار کی منزل ہوتی ہے۔  جامی نے جدید شاعری کی جانب چالیس سال کی عمر میں توجہ کی تھی اس سے قبل وہ کلاسیکی شاعری اور ترقی پسند شاعری کی زمینوں سے گذر آئے تھے۔  ایک لمحۂ گریزاں کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا کہ اسے ادب میں ایک دوامی حیثیت حاصل ہو جائے جامی کی شاعری کا کارنامہ ہے۔  غلامی کے دور میں نئی سحر کی تلاش میں بیسیوں شاعر نکلے لیکن تلاش و جستجو کا یہ مقام شاید جامی کے سوا کسی اور کو نہ ملا۔

غمِ حیات کے بیدار و خوں چکاں لمحے

نئی حیات کے خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں

کتنی شبوں کا زہر پیا ہے نگاہ نے

اس انتظار میں کہ نگار سحر ملے

آخرِ شب کے دھندلکوں میں گلستاں سارا

صرف کانٹوں کا حسیں خواب نظر آتا ہے

ضرور کوئی تعلق میرے اندھیرے کا

تمھارے شہر کی اک صبحِ زرنگار سے ہے

تحریک سے وابستگی کے باوجود ان کے کلام میں نعرہ بازی یا پروپگنڈہ والی کوئی بات واضح طور پر نظر نہیں آتی۔  لیکن وہ جو جدید شاعری کی ابتدا سے پہلے انقلابی تحریکات میں اردو شاعری کی اپنی اختیار کردہ لفظیات تھیں۔  ترقی پسند غزل اور نظم میں جن لفظیات نے اپنا سکہ جما رکھا تھا جامی کی شاعری میں شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل نظر آتی ہیں۔ مثلاً سورج، اندھیرا، اجالا، پتھر، وقت، دیوار، دروازہ، چہرہ، زنجیر، زنداں، زخم، لہو، چراغ، خواب، درد، دھواں، زنداں، صلیب، فصیل، لاش، کتبہ، مشعل، گھاؤ، دہشت، وحشت، بگولے، آنچ اور الاؤ وغیرہ۔

زبیر رضوی ’’سماجی بصیرت اور انسانی ادراک کا شاعر‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں جامی کی غزلوں میں ہمارے اس بے کلچر عہد اور معاشرے کا وہ تمام تر مرکب سمٹ آیا ہے جسے اپناتے ہوئے ہمارے پہلے شاعر ڈرا کرتے تھے۔  جامی کی غزل کی صرف یہی ایک خوبی نہیں کہ وہ زندگی کی سیاہ راتوں میں اجنبی کی طرح گھومنے والی رات اور دن کی روشنی میں ایک فلسفی کی طرح سوچنے والے انسان کی ایک سانس لیتی ہوئی کہانی ہے۔  ان کی غزلوں میں سماجی بصیرت اور انسانی ادراک کی ایک ایسی توانائی ہے جو بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے۔

جامی نے فیض اور مخدوم کی روایات سے بہت جلد دامن چھڑا کر اپنا رشتہ تازہ ترین لہجے سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ان کی علامتیں، استعارے اور امیجری، نئے لفظی تلازمے اور بے تکلف اندازِ بیان نے نئی غزل کو نیا رنگ و آہنگ دیا۔

وہ زمانہ جامی کی شاعری کا سنہری دور ہے جب انھوں نے انقلابی ڈکشن سے احتراز کرتے ہوئے جدید شاعری کے لب و لہجہ سے خود کو وابستہ کیا۔  نئے رجحانات کی آمد کے ساتھ ہی نئی غزل کے مضامین بھی وسعت اختیار کرنے لگے تھے نئی غزل کے ساتھ نئی لفظیات کی تشکیل بھی ہونے لگی تھی۔  انہیں ’’غزل کی زبان جو ورثہ میں ملی تھی ایک طے شدہ زبان تھی۔  بندھے ٹکے الفاظ اور رموز و علائم، نئی غزل کے مطالبات کو پورا کرنے کے قابل نہ تھے اس لیے جامی الفاظ تلاش کرنے اور نئی ترکیبیں تراشنے کی طرف مائل ہوئے۔  انھوں نے ایسے الفاظ اپنی طرف سے غزل میں داخل کیے جو اس سے پہلے روایتی غزل میں تھے ہی نہیں اور اگر ان میں سے کچھ تھے تو ان کا استعمال شاذ ہی ہوتا تھا۔  جدید غزل کو یہ لفظیات جامی کی دین ہیں۔  یہ الفاظ ان کے خود تخلیق کردہ ہیں۔

جدید شاعری کا سورج غالب ہی کے زمانے میں طلوع ہو چکا تھا۔  نئی غزل اپنے ساتھ لفظیات، تشبیہات، لب و لہجہ، اسلوب و آہنگ، اشاریت و ایمائیت اور نئی معنویت کی ایک پوری کائنات لیے آئی تھی۔ جامی کا الگ لہجہ و اسلوب ان اشعار میں محسوس کیا جا سکتا ہے:

گھر ہو کہ راستہ ہو اک آسیب ہر جگہ

تنہائیوں کا زہر اگلتا دکھائی دے

بجھتا ہوا اک تارہ صلیبوں سے افق پر

یا وہ کسی محبوب کی آمد کا نشان تھا

چاند نکلا تو کسی یاد نے دستک دی ہے

رنگ بکھرے ہیں تو عکس لب و رخسار بنے

ملا کرتا ہوں اکثر دور خوابوں کے جزیرہ میں

نہ جانے کب تمھارا نام لے کہ وہ سحر آئے

جدید غزل میں جو نئی لفظیات در آئیں۔  ان پر جامی کے دستخط ہیں جنھیں بعد کی نئی نسل نے شعوری اور غیر شعوری طور پر اختیار کیا اور ان کے اثرات قبول کیے تھے۔  آسیب، بگولے، پرندہ، پیکر، تنہائی، جھیل، برف، چہرہ، جزیرہ، حصار، دستک، سناٹا، شخص، فصیل، صلیب، کتبہ، کرب، قندیل، تتلی، محراب، اجنبی، دھوپ، سایہ، آئینہ، تنہائی، شہر، دشت، سراب، صحرا وغیرہ۔  نئی لفظیات کے ساتھ ہی ساتھ خورشید احمد جامی نے اشعار اور نئی تراکیب سے نئی غزل کو ایک نیا اسلوب عطا کیا۔ جامی نے جو استعارہ آمیز تراکیب تخلیق کیں وہ ان سے پہلے کسی جدید شاعر کے یہاں دستیاب نہیں تھیں۔

اس ضمن میں مغنی تبسم لکھتے ہیں:

’’انھوں نے جہاں قدیم استعاروں کو نئے تلازموں کے ساتھ برتا وہیں بہت سے نئے استعارے وضع کیے۔  ان کے اشعار میں ’’وارفتگان شوق‘‘، ’’دشتِ بے کراں‘‘، ’’غم روزگار، ’’یادِ جاناں‘‘، ’’چراغِ منزل‘‘جیسی تراکیب کے ساتھ ’’صداؤں کے جنگل‘‘، ’’خیالوں کی بھیڑ‘‘، ’’دل کی دہلیز‘‘، ’’رات کی دیوار‘‘۔  رات کے زینے، خوابوں کے دریچے، خیالوں کی قندیل، یادوں کے مینار، الفاظ کے شیشے، اندھیروں کے بدن، تنہائیوں کی برف، درد کا چاند، وجود کا صحرا، اجالوں کی زبان، دشت کے زخم، ہجر کے موسم، اجالوں کے پیمبر، امیدوں کے کھنڈرغیرہ ہیں۔  اس کی تصدیق میں ڈاکٹر محمد حسن نے کہا تھا کہ جدید غزل کے بانیوں میں خورشید احمد جامی کو اولیت حاصل ہے۔  نئی لفظیات، نئی تراکیب کے علاوہ جامی کے یہاں پیکر تراشی کا عمل ایک خاص وصف رکھتا ہے اگر استعاروں اور تشبیہات کی فرہنگ تیار کی جائے تو اس کا سب سے بڑا ذخیرہ جامی کے یہاں دستیاب ہو گا۔

جامی کے استعارات اور پیکروں میں جو علامتی اسلوب ہے وہ پیچیدہ نہیں۔  ان کی علامتی داخلی متعلقات سے قاری کے ذہن کو بوجھل نہیں کرتیں چناں چہ پروفیسر احتشام حسین، خورشید احمد جامی کو علامتی اسلوب کا شاعر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کا استعاراتی انداز، پیکری اور علامتی اسلوب سے نکھرا ہے۔  ان کے رنگ کا نیا پن محض تقلیدی نہیں ہے بلکہ فنکارانہ شعور سے وجود میں آیا ہے اور طرزِ فکر کا جزو بن گیا ہے۔  جامی کو اپنے اظہارات کو پیش کرنے میں حسی پیکروں کا وسیلہ حاصل کرنے کا گر بہت خوب آتا ہے۔  وہ حسی پیکروں کے ساتھ ساتھ شخصی اور غیر شخصی علائم کے ذریعہ رمزیت اور ایمائیت کی ایک خاص فضا اور منظر و ماحول تخلیق کر دیتے ہیں۔

بے برگ و خزاں دیدہ درختوں کی خموشی

جیسے کسی بیتے ہوئے موسم کی صدا ہے

گھر سے دن کے ساتھ نکلا تھا کوئی

رات کے جنگل میں جا کر کھو گیا

یوں تو نفس نفس میں اندھیروں کا زہر تھا

پھرتے ہیں لوگ شہر میں صحرا بنے ہوئے

ان کے یہاں رچی ہوئی نغمگی ملتی ہے وہ شعر کے آہنگ کو جاذبِ سماعت بنانے کا خاص سلیقہ رکھتے ہیں۔  جامیؔ کے یہاں امیدوں، خواہشوں اور تمناؤں کی شکستگی کی تہہ میں المیہ احساسات کی رو دوڑتی نظر آتی ہے۔  خوابوں کے ٹوٹنے کا غم اور ماضی کی یاد کا عذاب منڈلاتا رہتا ہے۔

حیات بچ کے نکل آئی قتل گاہوں سے

مگر جو خواب تھے وہ خواب سب شہید ہوئے

خوابوں کی تیز دھوپ تو سر سے گذر گئی

اب کیوں کھڑے ہو رات کی دیوار کے تلے

رکتی ہے دل کے پاس مرے اب بھی اک صدا

رہتی ہے اب بھی میرے تعاقب میں ایک رات

ہے برگ و خزاں دیدہ درختوں کی خموشی

جیسے کسی بہتے ہوئے موسم کی صدا ہے

آج مقروض تہی دست عزیزوں کی طرح

میرے خوابوں سے گریزاں مری تعبیریں ہیں

بھٹک رہا ہوں بگولوں کے ساتھ صحرا میں

مرے نصیب میں شعلوں کی تشنگی کیوں ہے

جامی کی غزل، طرزِ احساس اور اسلوبِ اظہار دونوں اعتبار سے اپنے اندر تازگی رکھتی ہے ان کی غزل میں وہی کرب و اضطراب، تجسس و تامل، خوابوں کے دھندلکے، آدرشوں کی شکست فرد کی گمشدگی ملتی ہے جو آج کے انسان کا مقدر ہے۔  میں ابو الفیض سحر کی اس بات سے متفق ہوں کہ ناقدین کی بے اعتنائی کی وجہ سے نئی غزل کی اٹھان کے باب میں خورشید احمد جامی جیسے بنیاد گذار کا درجہ رکھنے والے شاعر پر اتنی توجہ نہ ہو سکی، جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے، حالاں کہ وہ نئی غزل کے فنی و فکری اور جمالیاتی ارتقاء میں ناصر کاظمی سے یا فیض کے ہم عصر غزل گو جیسے فراق، جاں نثار اختر، مجروح، جذبی، مخدوم اور احمد ندیم قاسمی سے ہرگز پیچھے نہیں ہیں۔

سلیمان اریب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ غزل ایک ایسی محبوبۂ طنازہ و ناظورۂ ہزار شیوہ ہے جو دل گداختہ بھی مانگتی ہے اور دست مینا کار بھی چناں چہ ہر وہ شاعر جو غزل کے فارم کو رواجِ عام کے مطابق اختیار و استعمال کرتا ہے ضروری نہیں کہ غزل کا ادا شناس بھی ہو۔  لیکن جامیؔ ہند و پاک کے ان گنے چنے شاعروں میں سے ہیں جو غزل کے مزاج کو خوب سمجھتے ہیں اور جو غزل کو اس کی تمام فنی لطافتوں کے ساتھ برتنا جانتے ہیں۔

خورشید احمد جامی کا انوکھا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے نئی لفظیات اور نئی تراکیب و علامات سے نئی نسل کو روشناس کروایا۔ اور اس نئے اسلوب سے متعارف کروایا جو اب تک دیدہ و شنیدہ نہ تھے۔  جامی کو نئی غزل کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔  انھوں نے غزل کی لفظیات کو نئی معنویت بھی بخشی ان کے یہاں جو نئی لفظیات ہیں وہ اس عہد کے شاعروں کے یہاں نہیں ملتیں۔  انہوں نے اس قدر نئے استعاراتی پیراہن غزل کو دیئے کہ نئی شاعری کے نقادوں کو کہنا پڑاکہ اگر اس دور کے استعاروں اور تشبیہوں کی فرہنگ ترتیب دی جائے تو شاید جامی کے مجموعے میں سب سے زیادہ ذخیرہ حاصل ہو گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے