اوم پربھاکر

کبھی آنگن، کبھی زینہ، کبھی کمرہ مہکتا ہے

ہمارے درمیاں اک پھول نا دیدہ مہکتا ہے

 

ٹھٹھک کر رہ گیا جو تیرے سرہانے ابھی آ کر

تری روشن جبیں وہ دھوپ کا ٹکڑا مہکتا ہے

 

تو میرے ساتھ ہے، اتنا بہت ہے، صرف اتنے سے

مرے گھر کا ہر اک گوشہ، ہر اک ذرہ مہکنا ہے

 

نہ جانے کون اس میں جھولتا ہوگا بہت پہلے

وہ رسی ہل رہی ہے اور گہوارا مہکتا ہے

 

کھلا صحرا میں میرے دل کی صورت ایک گل تنہا

جھلستا جا رہا پھر بھی وہ بیچارہ مہکتا ہے

 

بتا سکتی ہو نقشے میں، کہاں ہے وہ نگر جس میں

گلی کے پار در کھلتا ہے گل یارا مہکتا ہے

٭٭٭

 

 

اڑانوں سے امبر بچا ہی نہیں

پرندے کو لیکن ملا ہی نہیں

 

کسی سے کہوں بھی تو میں کیا کہوں

میرا تو کوئی مدعا ہی نہیں

 

شب و روز بھٹکے ہے در در ہوا

ہوا کا کہیں گھر بسا ہی نہیں

 

علحدہ ہوا ہم سے کس دن خدا

کتابوں میں ہم نے پڑھا ہی نہیں

 

کہا ماں نے بیٹا، خدا سے ڈرو

وہ ‘ڈر’ زندگی بھر گیا ہی نہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے