غزل ۔۔۔ فقیر محمد گویاؔ

ہر روش خاک اڑاتی ہے صبا میرے بعد

ہو گئی اور ہی گلشن کی ہوا میرے بعد

 

کتنے دن یار نے شانہ نہ کیا میرے بعد

کیا پریشان رہی زلف دوتا میرے بعد

 

خوں مرا کر کے لگانا نہ حنا میرے بعد

دست رنگیں نہ ہوں انگشت نما میرے بعد

 

کوئی لاشے پہ مرے آ نہ پھرا میرے بعد

استخواں کھانے بھی آیا نہ ہما میرے بعد

 

کر دیا اس نے اسیروں کو رہا میرے بعد

طائر رنگ حنا تک نہ رہا میرے بعد

 

ذکر اس مصحف عارض کا کیا میرے بعد

اس طرح یاروں نے قرآن پڑھا میرے بعد

 

قتل سے اپنے بہت خوش ہوں ولے یہ غم ہے

دست قاتل کو بہت رنج ہوا میرے بعد

 

ٹھوکریں سر مرا کھاتا نہ پھرا کس کس کی

کون ہے دوست کہ دشمن نہ ہوا میرے بعد

 

سنگ سے پھوڑیں گے سر جام جو میں مست ہوا

کاٹ ڈالے گی صراحی بھی گلا میرے بعد

 

تھا دم قتل یہی دھیان نہ چھوڑوں اس کو

خوں بھی قاتل ہی کی جانب کو بہا میرے بعد

 

استخواں میری سگ یار تلک پہنچا دے

اتنا احسان کرے مجھ پہ ہما میرے بعد

 

صدمۂ تیغ سے اور فرط نزاکت کے سبب

پہلے میں گر پڑا اور یار گرا میرے بعد

 

چمن جوہر شمشیر سے منگوائے پھول

خوب قاتل نے سوئم میرا کیا میرے بعد

 

کیا ہی مرنے سے مرے شاد ہیں اللہ اللہ

بت کیا کرتے ہیں اب شکر خدا میرے بعد

 

نہ رہی بعد مرے نامہ و پیغام کی رسم

خاک اڑاتی پھرے گلیوں میں صبا میرے بعد

 

منہ دکھاتا تو کہاں باتیں تھیں اس کی مجھ تک

لن ترانی کی بھی آئی نہ صدا میرے بعد

 

کیا ہوا غم نہ کیا اس نے مرے مرنے کا

اس کا گیسو تو پریشاں رہا میرے بعد

 

چاک کرتا ہوں اسی غم سے کفن مرقد میں

کھلے رہتے ہیں ترے بند قبا میرے بعد

 

مجھ سا بدنام کوئی عشق میں پیدا نہ ہوا

ہاں مگر قیس کا کچھ نام ہوا میرے بعد

 

کبریائی تری ثابت نہ رہے گی او بت

کوئی کہنے کا نہیں تجھ کو خدا میرے بعد

 

استخواں کو نہ جلا دیجیو اے آتش غم

آ کے مایوس نہ پھر جائے ہما میرے بعد

 

سر اٹھایا مری وحشت نے پس از مردن بھی

بید مجنوں مرے تربت پہ اگا میرے بعد

 

سنگ مدفن کے عوض رکھ دیا مدفن پہ مرے

کوہ غم جبکہ کسی سے نہ اٹھا میرے بعد

 

سب سے پہلے ہوں میں اس سرو خراماں کا سر

طوق قمری کی بھی گردن میں پڑا میرے بعد

 

تیرے آنے کی دعا مانگی ہے اول میں نے

ساقیا ہاتھ سبو کا بھی اٹھا میرے بعد

 

اٹھ گیا صفحۂ ہستی سے نگیں کی صورت

نہ رہا میں تو مرا نام رہا میرے بعد

 

وہ جو برگشتگیِ بخت تھی ہرگز نہ گئی

خاک مرقد سے مرے چاک بنا میرے بعد

 

آخر اس نے مری مٹی کا بنایا تودہ

کوئی تیروں کا نشانہ نہ ہوا میرے بعد

 

بید مجنوں نہ ہوا گل کا گریباں نہ پھٹا

سنبل تر بھی پریشاں نہ ہوا میرے بعد

 

ولولہ جوش جنوں کا تھا مجھی تک گویاؔ

نظر آیا نہ کوئی آبلہ پا میرے بعد

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے