زندگی ایک طویل کہانی ہے، جس میں جھلساتی دھوپ بھی ہے، گھنی چھاؤں بھی ہے، اس کے پھیلے سایوں میں خوشی، غمی کے تانے بانے سے بُنی داستانیں بھی ہیں۔ یہ داستانیں کبھی ان سایوں سے بھی طویل ہو گئی ہیں، تو کبھی چھوٹی رہیں، کبھی مختصر سی اور تو کبھی نقطہ برابر ہی رہیں، جہاں ان داستانوں کے کرداروں کی زندگیاں بھی اسی نقطے میں سمٹ کر رہ جاتی ہیں۔
سندھی ادب کے معروف کہانی نویس جناب ایشورچندر کی تحریر شدہ کہانی ’’اپنے ہی گھر میں‘‘پڑھنے کا موقع ملا۔ پڑھتے ہوئے معاشرتی اور خاندانی حالات سے واقف ہو کرمیری سوچیں بھروسے اور بد اعتمادی کی دوئی میں جکڑتی چلی گئیں۔ کیا ایسا ہونا بھی ممکنات میں سے ہے، وہ بھی اپنے ہی گھر میں؟ جہاں پیدا کرنی والی ماں، اپنی ہی شادی شدہ بیٹی کو پہلی بار ایک ہفتہ کیلئے میکے آنے کی دعوت بھیجتی ہے، وہ بھی اپنے شوہر کی منت سماجت کر کے، اسے منانے کے بعد۔ لڑکی بھی سسرال میں اپنا وقار برقرار رکھنے کیلئے اپنے چار ماہ کے دودھ پیتے بچے کو لے کر میکے آتی ہے۔
گھر کے سامنے تانگہ رکتے ہی دروازے پر ماں ملتی ہے۔ روایتی انداز میں گلے لگانا، کیسی ہو، داماد جی کیسے ہیں؟ پوچھتے ہوئے اس کیلئے چائے بنانے ہوئے، باورچی خانے میں اپنی بے چینیوں کے ساتھ تھاہ پاتی ہے۔ پھر کالج جاتے چھوٹے بھائی اور اسکول میں پڑھتی بہن سے پیار بھری ملاقات کرتے ہوئے گھر کے در و دیوار، کونوں، چارپائیوں پر نظریں گھماتے ہوئے پایا کہ سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔
’’۔۔۔ ہوں۔۔ ہوں۔۔۔ ‘‘ کھانسنے کی کچھ ناکام سی کوشش کرتے والد صاحب گھر میں داخل ہوئے۔ پلنگ سے اٹھ کر باپ کے سینے سے لگ گئی منّی۔
’’بابا آپ کیسے ہیں؟ آپ کتنے کمزور ہو گئے ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ اور جواب میں والدصاحب نے تین چار سوالات اس کے سامنے رکھ دئیے۔
’’ارے منّی تم بتاؤ کیسی ہو؟ داماد جی کیسے ہیں، آئے کیوں نہیں؟ اب تو منّی تم خود بھی ایک منے کی ماں بن گئی ہو، گھر گرہستی کیسی چل رہی ہے؟‘‘
والدصاحب نے پہلے بولنے کی بھر پور کوشش کی۔
’’بابا، سب بالکل ٹھیک ہیں۔ میں اور منّا آپ کے سامنے ہیں آپ کے پاس۔ تین سالوں تک یہاں آنے کا انتظار کیا اور آج یہاں ہوں، خوش ہوں ماں کو، آپ کو، بھائی اور بہن کو دیکھ کر۔ اور سنائیں آپ کی صحت کیسی ہے، کام کیسے چل رہا ہے؟‘‘اتنا کہتے ہوئے منّی نے باپ کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔
باپ نے اپنے کھردرے ہاتھوں سے اسے خود سے کچھ دور کرتے ہوئے کہا، ’’میں ٹھیک ہوں، جاؤ، چائے پانی، ناشتا کر لو۔ ‘‘
اتنے روکھے اور سخت رویے کی توقع نہ تھی منّی کو۔ اسے ایساکیوں لگنے لگا کہ وہ سب کے سب اس سے کھنچے کھنچے سے تھے۔ پہلے دن چائے ناشتے کے بعد، پھر رات کو ہی سادہ سا کھایا۔ دوسرے دن اسے لگا ماں بھی اس سے خار کھا رہی تھی۔ منے کیلئے دودھ کے لئے پوچھا تو جواب دیا، ’’تیرے بابا لانے گئے ہیں۔ ‘‘
عجیب و غریب رویے سے زیادہ عجیب تب لگا، جب منّا بھوک سے بلبلانے لگا اور دو گھنٹے سے دودھ لانے کے لئے نکلے ہوئے اس کے والد کا پتہ تک نہیں تھا کہ وہ کس سمت سے آنے والے ہیں۔ اسی وقت والد صاحب نے گھر میں قدم رکھے، جوتے اتارے، ہاتھ میں پکڑے دودھ کی تھیلی اسے تھماتے ہوئے کہا، ’’منّی یہ دودھ لے کر جا باورچی خانے میں، آج اسی سے کام چلانا!‘‘
منّی حیران، تین برس بعد میکے آئی، منے کیلئے دودھ کی تاکید۔۔۔۔۔۔ آگے کیا ہو گا، کیا دیکھنا پڑے گا، کیا سننا پڑے گا، اس انجانی سی سوچ سے وہ بے چین ہو گئی اور منے کو دودھ پلاتے پلاتے، انہیں سوچوں کو اوڑھ کر وہ بھی اس کے پہلو میں ہی لیٹ گئی۔ اپنے میکے آنے کی خوشی رفو چکر ہو گئی۔
صبح اٹھی تو ماں نے گرم چائے کی پیالی کرتے ہوئے کہا، ’’منّی چائے پی کر آنگن میں آنا۔ دھوپ میں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ ‘‘
’’کیوں کیا بات ہے ماں؟ بابا بھی چپ چاپ سے ہیں، آپ بھی خاموش سی۔ آخر ہوا کیا ہے؟ کچھ بتائیں بھی۔۔۔!‘‘ کہتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’ارے کچھ بھی تو نہیں۔ تُو آرام سے چائے پی لے، میں بھی گھر کا کام نبٹا لوں، پھر بیٹھ کر آرام سے باتیں کریں گے۔ ‘‘ ماں کا کہا ہر لفظ بغیر کسی مفہوم کے کانوں سے ٹکراتا رہا۔
’’کیا بات کرنی ہے ماں کو، کسی نوع کے مسئلے کا آغاز تو نہیں ہونے جا رہا ہے؟ بہن سے بھی پوچھا۔ لیکن ’’پتہ نہیں۔ ‘‘ کہہ کر وہ کتابیں سمیٹنے لگی۔ بھائی سے بات کرنے کی کوشش کی تو سننے کو ملا ’’مجھے پڑھائی کرنی ہے دیدی۔‘‘ اور پھر وہ دوست کے یہاں چلا گیا۔ ان تمام رویوں کے پیچھے کوئی تو مسائل سے لبریز گتھی تھی، جو وہ باوجود کوشش کے سلجھا نہیں پا رہی تھی۔ شاید ماں سے بات کرنے پر اس کی وجوہات کا کوئی مناسب اشارہ مل سکے۔
اس نے چائے پی، نہا دھو کر منے کو دودھ پلا کر اسے گود میں لئے آنگن میں رکھے لکڑی کے تخت پر بیٹھ گئی اور پھر ماں کو آواز لگائی۔ وہ ’’آئیْ ْ۔۔ آئی‘‘کہتے ہوئے باورچی خانے سے ساڑی کے پلو سے ہاتھ پونچھتے ہوئے باہر آئی اورمنّی کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔
’’ارے بتا منّی، داماد جی کا کام کیسے چل رہا ہے، مکان کی مرمت ہو گئی یا ابھی باقی ہے؟‘‘کچھ اس نوعیت کے سوال وہ پوچھ بیٹھی۔
’’ماں میں، منّا اور آپ کے داماد جی بالکل ٹھیک ہیں۔ سسرجی کی ضعیف العمری کی وجہ سے کل انہیں ان کی بیٹی کے ہاں چھوڑ آئے، تاکہ وہ ان کی بھر پور طریقے سے دیکھ بھال کر سکے۔ اب آپ سنائیں ماں۔ کیا میرے آنے کی آپ لوگوں کو کوئی خوشی نہیں ہے۔ میری تو جان پر بن آئی تھی۔ جب بھی کوئی پوچھتا کہ ارے تم شادی کے بعد تین سال سے میکے نہیں گئی ہو؟ تیج تہوار کو تو میکے سے بلاوا آ ہی جاتا ہے۔ اور تمہارا گاؤں تو کوئی ایسا دور بھی نہیں، بس کچھ ہی فاصلے پر ہی ہے۔ یہ سن کر تو شرم کے مارے نہ میں مر پاتی، نہ جی پاتی۔ بتائیں نہ ماں ایسی کیا مجبوری ہے، جو آپ نے مجھے بلانے میں اتنے سال لگا دیئے۔ ‘‘منّی آنسوؤں بھری آنکھوں سے ماں سے جواب طلب کرنے لگی۔
’’وہی تو میں بتانا چاہتی ہوں منّی۔ بہت اصرار کر کے تیرے باپ کو ہر سال تجھے بلانے کیلئے آمادہ کرتی رہی اور آخر اس سال انہوں نے تجھے بلا ہی لیا۔ لیکن۔۔ لیکن کل سے۔۔۔ ‘‘ اتناکہہ کر ماں نے اپنی آنکھیں اپنے پیروں کے انگوٹھوں پرٹکادیں۔
’’لیکن کل سے کیا ماں؟‘‘ منّی کا تجسس اب سارے بند توڑنے پر تیار تھا۔
’’کل سے تیرے بابا پوچھ رہے ہیں، منّی کب تک رہے گی۔ دو دن یا تین دن؟‘‘
یہ سن کر منّی کو لگا جیسے اسے کسی نے بلندیوں سے اٹھا کر کھائی میں پھینک دیا ہو، جہاں سے اسے کہیں سے بھی تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اپنے اندر کی گہرائیوں میں ڈوبتی جا رہی تھی، اپنے وجود کو بکھرنے سے بچانے کی ہر کوشش جیسے رائیگاں ثابت ہو گئی ہے۔
’’منّی، برا مت ماننا بیٹا، تیرے بابا کی یہ مجبوری ہے۔ وہ ہم چاروں کو دن میں ایک وقت کی روٹی دینے کیلئے بارہ گھنٹے اپنے بوڑھے کاندھوں پر تیس کلو سامان کے ساتھ ٹھیلے کو بیل کی طرح گھسیٹتے ہیں۔ آج وہ پانچ گھنٹے زیادہ کام کریں گے۔ دودھ دے کر کہہ گئے ہیں، پوچھ لینا۔ ‘‘
کہتے ہوئے ماں کی آنکھوں سے لاچاری کے آنسو پورے بہاؤ سے بہنے لگے۔
’’بیٹے۔۔۔۔۔ ‘‘اس سے آگے وہ کچھ کہہ نہ پائی۔
منّی نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’بس ماں۔ میں آپ کی بیٹی ہوں۔ جیسا بھی ہے میرا اپنا گھر ہے، جیسی بھی ہوں، خوش ہوں۔ میکے میں آنے کی خوشی چاہی وہ مل گئی۔ آپ کی ہاتھ کی چائے پی، رات کاکھانا کھایا۔ میں کل صبح ناشتے کے بعد گاڑی میں روانہ ہو جاؤں گی، پتا جی کو بتا دینا۔ ‘‘ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔
اس کہانی کے کرداروں کی اپنی اپنی مجبوری ہے۔ کچھ کہانیوں میں کردار خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہتے ہیں۔ اور کچھ میں ان کی گھٹن سب کچھ عیاں کر دیتی ہے۔
ان سبھی صورتوں پر معاشیات کا گہرا اثر ہے، بلکہ ایک طرح سے گرہن لگا ہوا ہے۔ کبھی کبھی اچھے الفاظ کے مفہوم کے پردے میں بھی برائی چھپی ہوتی ہے۔ کوئی بھی کسی کا دشمن نہیں، صرف رشتوں کی دیواروں میں حالات دراڑ ڈال دیتے ہیں۔ اور جب فاصلے بڑھتے ہیں تو باہمی اپنائیت، پیار کے دھاگے جیسے الفاظ بے مطلب کے ہو جاتے ہیں۔ انہیں تمام تر تخیلات اورحقائق کی کشمکش کے بیچ میں پھنسی منّی، صبح اٹھ گئی۔ باورچی خانے میں جا کر بچا ہوا دودھ گرم کیا، پھر ابھی وہ اپنے کپڑے سمیٹنے ہی لگی تھی کہ باپ کی آواز باہر سے آئی، ’’منّی کی اماں، باہر تانگے والا آ گیا ہے، بس ڈپو تک لے جائے گا اور پھر وہاں سے بس کا سفر ہے۔ جب منّی تیار ہو جائے تو بتا دینا۔ ‘‘
منّی کو لگا وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئی ہو۔ اگر وہ نہ آتی تو کم از کم رشتوں کا بھرم تو بنا رہتا۔ اب تو جو آس کے دروازے کھلے تھے، وہ بھی وہ اپنے پیچھے بند کرتی جائے گی۔
پھر مزید وقت ضائع کئے، وہ اپنے بچی کھچی عزت کی پوٹلی اپنے اندر لئے باہر آئی۔ ماں کو گلے لگایا، بہن کو سینے سے لگایا اور بھائی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے منے کو سنبھالتے ہوئے دہلیز کے باہر آتے ہی تانگے کی جانب بڑھی یہ کہتے ہوئے، ’’چلئے بابا۔ ‘‘
باپ کے منہ سے ایک حرف نہ نکلا، نہ بیٹی کے لئے دعا، نہ آشیرواد۔ بس کسی نوع کی رسم نبھاتے ہوئے اپنے چار ماہ کے نواسے کو بیٹی کی گود سے لیا اور اس کا ما تھا چومتے ہوئے ’’خوش رہو‘‘ کہہ کر منّی کی جانب بڑھا دیا۔
منّی کیلئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ یہ چومنا محبت کی علامت ہے یا رشتوں کی رخصت کاکوئی اشارہ!
اور تانگے والا گھوڑے کو چابک مارتا ہوا آگے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ منّی کی سوچ کی رفتار ان سبھی گاڑیوں سے بھی زیادہ تیز رفتار میں اس کے اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی۔
٭٭٭