گھنٹی بجانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس کی نظر دروازے کی بائیں جانب آویزاں باپ کے نام کی تختی پر پڑ گئی ‘ماسٹر عنایت اللہ ’ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔ اسے وہ دن کل کی طرح یاد تھا جب اس کے باپ نے وہ تختی اس جگہ پر لگائی تھی۔ اس دن اس کا باپ کتنا خوش تھا۔ اس کی نئی نئی ترقی ہوئی تھی اور تنخواہ بھی بڑھ گئی تھی۔ اسے اپنی وہ معصوم خواہش بھی یاد تھی جب اس نے باپ سے ضد کر کے اپنے نام کی بھی تختی لگوا دی تھی ‘ہدایت اللہ منزل ’ وہ تختی بھی اپنی جگہ پر جوں کی توں موجود تھی۔
برخور دار! ماسٹر جی تو گاؤں شفٹ ہو چکے ہیں۔ اس نے چونک کر نظر نیچے کی تو دروازے پر بڑا قفل لگا ہوا تھا۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے قریب کھڑے سفید ریش پر نظر ڈالی جو ہاتھ میں تسبیح اٹھائے اسے بڑے تجسّس سے دیکھ رہا تھا۔
کب گئے یہاں سے۔۔۔۔۔۔؟ اس کی آواز میں مایوسی تھی۔
لگ بھگ دو سال تو ہوہی گئے ہوں گے۔ شاگرد لگتے ہو ان کے۔۔۔۔ سفید ریش نے کریدا۔
جی۔۔ آپ ٹھیک سمجھے۔ بہت شکریہ آپ کا۔۔۔۔۔۔۔ ہدایت اللہ نے وہاں سے نکل جانے میں عافیت سمجھی مبادا کہ وہ یا محلے کا کوئی اور شخص اسے پہچان لے۔
گاؤں شہر سے کوئی چالیس کلو میٹر دور تھا۔ اماں کی اچانک موت کے بعد اس کے باپ کا دل شہر میں نہ لگا اور وہ اس ننھی سی جان کو لے کر گاؤں چلا گیا تھا۔ پہلی تین کلاسیں اس نے گاؤں کے اسکول ہی میں پڑھی تھیں۔ پھر جب اس کے باپ کی ترقی ہو گئی تو اسے شہر جا کر چارج سنبھالنا پڑا۔ یوں وہ واپس شہر آ گئے تھے۔
اس کے باپ نے دوسری شادی نہیں کی اور ساری توجہ ہدایت اللہ کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کر دی تھی۔ اس کی پرورش میں اس کی غیر شادی شدہ پھوپھو کا بھی بڑا ہاتھ تھا جواس کے باپ کی خواہش پر ان کے ساتھ مستقل طور پر شہر منتقل ہو گئی تھی. یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اس کی پھوپھو بھی ہائی سکول ٹیچر تھی۔ گھر میں دو اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت نے اس کی خدا داد ذہانت اور صلاحیتوں کو جلا بخشی اور وہ تعلیمی میدان میں اس قدر آگے بڑھا کہ کالج کے ابتدائی سالوں ہی میں اسے حکومتی وظیفہ پر چند دوسرے طلباء کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیج دیا گیا۔
معاشی، سیاسی اور اخلاقی طور پر پسماندہ ماحول سے نکل کرشفاف، مستحکم اورمنصفانہ ماحول میں پہنچا تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ تنگ نظری اورگھٹن کی جگہ ذہنی کشادگی اور آزاد منشی نے لے لی. وہ نئے ماحول میں بڑی آسانی کے ساتھ رچ بس گیا۔ شروع کے چند برس تو وہ کالج اور سٹڈی میں گم رہا۔ پھر گریجوایشن سے پہلے ہی اسے جاب کی آفر مل گئی اور یوں کالج سے نکلتے ہی وہ عملی زندگی میں آ گیا۔ کالج کے دور میں سنہری بالوں کا اسیر ہو چکا تھا۔ جاب شروع کرتے ہی شادی کر لی۔
امریکہ پہنچ کرپہلے سال کے دوران باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے باپ کو خط لکھتا تھا۔ سٹڈی کا دباؤ بڑھا تو خط و کتابت میں کمی آ گئی۔ جاب، شادی اور پھر بچوں نے اسے دنیا ما فیہا سے بے خبر کر دیا۔ آسودہ حالی میں وقت گزرنے کا احساسں نہیں رہتا۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بچے بڑے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگے تو ایک دن اچانک اسے اپنا باپ یاد آ گیا جس کو چھوڑے اسے بیس برس ہو چکے تھے اور جس کی خبر لئے بھی اسے سالہا سال گذر چکے تھے۔ باپ کی محبت نے ایسا جوش مارا کہ چند ہی دنوں میں وہ پاکستان پہنچ گیا۔
اس وقت وہ ٹیکسی میں سوار گاؤں کی طرف رواں دواں تھا۔ یہ رستے اس کے دیکھے بھالے تھے لیکن گزشتہ بیس برسوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ گاؤں کے راستے میں آنے والے سارے ویرانے آباد ہو چکے تھے۔
ٹیکسی سے اترا تواس نے اپنے آپ کو ایک اجنبی مقام پر پایا۔ اس کا گاؤں بھی اب ایک شہر کاروپ دھار چکا تھا۔ وہ تو بھلا ہو کہ اس کے دادا نے مکان گاؤں کی سب سے پرانی مسجد سے متصل بنوایا تھا ورنہ تو گھر پہنچنا مشکل ہو جاتا اس کے لئے۔
اپنے آبائی مکان کی کشادہ گلی میں پہنچ کر وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ لمبی گلی میں دونوں اطراف کے مکانات تین تین منزلہ اور پکے ہو چکے تھے سوائے ایک مکان کے، مسجد کی دیوارکے ساتھ ننگی اینٹوں والا ایک بوسیدہ سا مکان، اسے شدید شرمندگی کا احساس ہوا۔
اتفاق سے گلی میں کوئی نہیں تھا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر کنڈی ہلانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ یہ خوشی تھی، پشیمانی تھی، کوئی انجانا ساخوف تھا یا پھران ساری کیفیات کا ملا جلا ردّ عمل، اسے کوئی اندازہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچتا۔ اس وقت تو وہ فوراً سے پیشتر اپنے باپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے گلے لگنا چاہتا تھا اور رو رو کر اس سے گذشتہ بیس برسوں کی غیر حاضری کی معافی مانگنا چاہتا تھا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے کنڈی ہلائی۔
خاموشی۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دوبارہ قدرے زور سے کنڈی دروازے کے ساتھ بجائی۔
اب اسے قدموں کی ہلکی چاپ سنائی دی تو جیسے اس کا دل دھڑک کر سینے سے باہر آ گیا۔ آنکھوں میں آنسوتیرنے لگے۔
دروازہ بڑی آہستگی کے ساتھ کھلا اور ایک بوڑھی اور لاغر خاتون کا چہرہ اس کے سامنے نمودار ہوا۔
پھوپھو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہدایت۔۔۔۔۔ اس کا گلا رندھ گیا اورحیران و ششدر پھوپھو کی چیخ نکل گئی۔ آگے بڑھ کر وہ پھوپھو کو باہوں میں نہ بھر لیتا تو وہ زمین پر گر چکی ہوتی۔
میرا پتر۔۔۔۔۔ میرا پتر۔۔۔۔۔ کہاں چلا گیا تھا میرا ہدایت۔۔۔۔ پھوپھو کی تو سانسیں اوپر تلے ہونے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں بھی برسات لگ چکی تھی لیکن ابھی اس کا ایک اور امتحان باقی تھا۔
ابا کہاں ہیں پھوپھو۔۔۔۔۔ ابا جی کہاں ہیں؟ اس نے بے قراری سے پوچھا۔
اندر ہے پتر۔۔۔ اندر ہے ابا۔۔۔ آ جا۔۔۔ آ جا۔۔۔۔
پھوپھو کو اپنی باہوں میں لئے وہ دونوں کمرے کی طرف بڑھے۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے ڈرتے ڈرتے نظر اٹھائی۔ کمرے میں بلب کی ہلکی زرد روشنی میں اسے سامنے چارپائی پر ایک دھان پان سا اور کھچڑی سی سفید داڑھی والا شخص بیٹھا نظر آیا۔ اس کی نظریں دروازے پر ہی تھیں۔ باپ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کا جیسے دل پھٹ گیا۔ آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر سارے بندھ توڑ کر باہر نکل آیا۔
ابا جی۔۔۔۔۔ وہ بھا گا اور باپ کی گود میں سر رکھ کر اس قدر زار و قطار رویا کہ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ پھوپھو خود بھی روتی رہی اور مسلسل اس کی کمر اور اس کے بالوں کو سہلاتی رہی۔ بس کر میرا بچہ۔۔۔ بس کر۔۔۔۔۔
اچانک اسے کچھ احساس ہوا اور اس نے سر اٹھا کر باپ کی طرف دیکھا تو وہ اب بھی اسی کیفیت میں دروازے پر نظریں جمائے منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا۔
٭٭٭