آسمان میں چاند پریشان تھا۔ ستاروں کی نظریں زمین پر لگی ہوئی تھیں۔ جنگل میں گھنی جھاڑیوں کے ایک گوشے میں درندے، چرندے اور پرندے ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ موسم بھی بڑا عجیب و غریب ہو گیا تھا۔ ہوائیں کبھی تو گرم ہو جاتیں اور کبھی بالکل سرد۔
’’آخر جنگل میں آج کل یہ کیا ہو رہا ہے؟ ‘’ چاند نے ستاروں کی طرف دیکھا، ’’نہ تو شیر کی دھاڑسنائی دے رہی ہے؟، نہ ہاتھی ہی چنگھاڑ رہا ہے؟ ہرنوں کے غول ایک کونے میں دبکے ہوئے ہیں۔ بکریوں کے چہرے اُداس ہیں۔ بلی کے سر پر گورئیا بیٹھی ہوئی ہے۔ ریچھ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔ خرگوش چیتے کے کان میں کچھ آہستہ آہستہ کہہ رہا ہے۔ لومڑی کے سامنے ڈھیروں انگور پڑے ہیں اور بندر اُسے اپنے ہاتھوں سے کھلا رہا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ سب اپنی اپنی جبلتیں بھول گئے ہیں؟‘‘
یہ جنگل تو گوں ناگوں بولیوں سے کبھی گونجتا تھا، کوئل کی کوک، پپیہے کی ہوک، مور کا ناچ، فاختا وں کی اللہ ہو اللہ ہو کی آوازیں دلوں کو کیسے مسرور کرتی تھیں۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں تھا کہ کسی نے لومڑی کی مکاریوں پر کوئی پابندی لگائی تھی۔ طوطا اپنی تمام تر طوطا چشمیوں کے باوجود بھی بس دل بدلو کہلاتا تھا۔ بندروں کی بے وقوفیاں بھی تھیں کہ جانور اُسی کے بہانے ہنس لیا کرتے تھے۔ لیکن چند مہینوں سے جیسے جنگل کی ساری فضاء ہی بدل گئی ہے اور ایک عجب منظر دکھائی دینے لگا ہے۔
’’میں نیچے جاتا ہوں اور حقیقت معلوم کرتا ہوں۔ ‘’ شہاب ثاقب اپنی جگہ سے اُٹھا اور ایک لمبی جست لگائی۔
ستاروں نے دیکھا وہ بہت تیزی کے ساتھ جنگل کی طرف بڑھ رہا تھا۔
چاند اور ستارے دم سادھے جنگل کی طرف دیکھ رہے تھے۔
شہاب ثاقب املی کے ایک گھنے درخت پر اُتر گیا اور اُس نے چاند تک پیغام رسائی کے آلات کو فوراً کنکٹ کیا اور اُن کی باتوں کو چاند تک پہچانے کا بندوبست کر دیا اور خود بھی سننے لگا۔
’’مترو جنگل کے حالات سے آپ سب اچھی طرح پریچت ہیں۔‘‘ گیانی ریچھ نے نہایت گمبھیر لہجے میں کہنا شروع کیا، ’’جب سے یہ حشرات الارض، زمین کے اوپر آئے ہیں جنگل میں آتنک واد چھا گیا ہے۔ آج ہمیں سوچنا ہے کہ ہم اُن سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں؟ اسی لیے میں نے آپ سب کو یہاں بلایا ہے۔‘‘
’’گیانی جی میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اس سے تو شیر ہی بہتر تھا۔ ‘’ مور شاہی آداب بجالایا اور پھر پلٹ کر کہنے لگا، ’’جنگل میں کم از کم بھید بھاؤ تو نہیں تھا۔‘‘
شیر نے گھبرائی ہوئی نظروں سے سب کی طرف دیکھا، ’’مجھے معاف کریں، اگرچہ جنگل کی محبت مجھ سے چھوٹتی نہیں ہے۔‘‘ پھر اُس نے سب کی جانب دیکھا، ’’میرا خاندان پہلے ہی بہت دکھ اُٹھا چکا ہے۔ ‘’ اُس نے اپنی گردن جھکا دی، اور ماضی اُس کے آنکھوں میں در آیا کہ کس طرح شکاری بھوک اور پیاس کا بہانہ بنا کر جنگل میں داخل ہوئے تھے اور اُس کے پرکھوں نے اُنھیں رہنے کی اجازت دے دی تھی، وہ بھول گئے تھے کہ شکاری کبھی کسی جانورکے دوست نہیں ہو سکتے، اور آخر اُنھوں نے ایک دن اُس کے ہی خاندان کے بزرگ کو جلا وطن کر دیا تھا۔ اس نے گردن اُٹھائی، ’’ساتھیوں اب زمانہ بدل گیا ہے اور میں جنگل بدر ہونا نہیں چاہتا۔ ‘’
’’شیر بھائی۔‘‘ گورئیا نے اُسے مخاطب کیا، ’’میں تمہارے خاندان کی بپتا جانتی ہوں، اور تم بھی یہ جانتے ہو کہ اُس کے بعد اسی جنگل میں بسنے والے جانور اُس وقت تک خاموش نہیں بیٹھے جب تک اُنھوں نے اس جنگل کو اُن شکاریوں سے پاک نہیں کر دیا۔‘‘
شیر نے گھوڑے کی جانب دیکھا،
’’شیر بھائی۔۔۔‘‘ گھوڑے نے آسمان کی طرف دیکھا، ’’آپ کے بزرگ کے یہاں سے جاتے ہی ہم شرفاء کے بدن سے عزت کی زین بھی اُتر گئی اور خاندانی وقار بے معنی ہو گیا اور ہمارے ساتھ بکریاں بھی مشکوک ہو گئیں کیونکہ ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ جنگل کی تقسیم کے بعد بھی ہم نے اپنا مقام نہیں بدلا تھا۔‘‘
بکریوں نے بے بسی سے سب کی طرف دیکھا
لومڑی نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا، ’’باہر سے آنے والے تم، کب تک ہم سے عزت کرواؤ گے؟‘‘ بیل نے اپنے گلے میں بندھے ہوئے گھنگھروؤں کی آواز میں کہا، ’’دن رات محنت کروں میں اور کھوٹے سے بندھے تم اتراتے تھے۔ کیا یہ انصاف تھا؟‘‘
سبز ٹہنی پر جھولتے ہوئے طوطے نے گھوڑے اور بکریوں کو دیکھتے ہوئے اپنی گول گول آنکھوں کو گھمایا، ’’بہت حکومت کر لی تم نے، اختیارات چھن گئے تو ہنہنانے لگے۔‘‘ یکایک گدھے نے طیش میں آ کر ڈھینچوں ڈھینچوں کی آوازوں سے سارے جنگل کو دہلادیا، ’’جب سے یہ گھوڑے یہاں آئے ہیں میں تو گویا دھوبی گھاٹ کا ہو کر رہ گیا ہوں۔‘‘ کووں نے کائیں کائیں شروع کی اور چیتا بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا، گرگٹ کا بھی رنگ بدلنے لگا تھا۔
بزرگ ریچھ نے فکر میں ڈوبی ہوئی اپنی آنکھوں کو اوپر اُٹھایا، ’’ہم یہاں ماضی کی باتیں کرنے جمع نہیں ہوئے ہیں، یاد رکھو! اسی نفاق نے شکاریوں کے حو صلے بڑھا دیے تھے۔ اور اب بھی تم وہی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ پھر اُس نے اپنے گھنے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں، ’’ہماری آج کی بیٹھک کا ایجنڈا میں آپ تمام کو بتا چکا ہوں۔‘‘
سارے جانور خاموش ہو گئے۔
بس جھینگروں کی جھائیں جھائیں کی آوازیں سنائی دینے لگی
’’اُف یہ جھینگر۔۔۔۔‘‘ طوطے نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے، ’’یہ کیوں روتا رہتا ہے؟‘‘
’’تم کیا جانو راگ اور راگنی کیا ہوتی ہے؟‘‘ شیر کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی، ’’یہ تو شری گج راج جی کا اور میرا خاندان تھا جس نے فنون لطیفہ کی سر پرستی کی، کوئل کو سنگیت سمراٹ کا خطاب دیا تھا، مور کے رقص کی خوبیوں کو دنیا کے جنگلوں تک پہنچایا، میرے دوست یہ جھینگر روتا نہیں ہے۔ رات کی ٹھنڈی چاندنی، سرد ہواؤں کی سر سراہٹ، اور بہتے جھرنوں کا شیتل پانی جب زندگی کا پیغام سناتا ہے تو تو جھینگر بے خود ہو کر ان کے سروں میں اپنے سر بھی ملا دیتا ہے اور رات کے پُر امن ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔‘‘
’’جس کے خاندان کے بچوں کو دن دھاڑے سب پنچھیوں کے احتجاجی شور کے باوجود ناگ چٹ کر جاتا ہے اور، آپ رات کے پُر سکون ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے۔‘‘ گورئیاکی آواز میں ایک درد تھا۔
شیر نے ایک سرد آہ بھری، ’’مجھے معاف کریں بہن گورئیا، ذہن سے ماضی نکلتا نہیں ہے۔ من مانی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اب تو ہم درندوں سے بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم گھانس پھوس کھائیں۔‘‘
’’تو پھر ہمارے لیے کیا بچے گا؟‘‘ ہرنوں نے ادھر اُدھر دیکھا، ’’جنگل میں پہلے ہی گھانس کی کمی ہے۔‘‘
’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘‘ بھیڑ یے نے گردن جھکا کر کہنا شروع کر دیا، ’’کسی بھی بات کا اِشو بنایا جاتا ہے، اور سنپولے، بچھو، زہریلے کیڑے شور مچاتے ہوئے نکلتے ہیں اورجس جانور کو چاہتے ہیں اُس کا شکار کر لیتے ہیں۔‘‘
’’نہ کوئی داد نہ فریاد؟‘‘ گورئیاکی آواز میں ابھی تک وہی اُداسی تھی، ’’زمین کے اندر رہنے والے اب آزادانہ زمین کے اوپر ادھم مچا رہے ہیں۔‘‘
’’جنگل میں سب ایک تھے اب پھوٹ ڈالی جا رہی ہے۔‘‘ زیبرا جو بہت دیر سے خاموش بیٹھا تھا، اُٹھ کر کھڑا ہو گیا، اور سب کی جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا، ’’میں، گھوڑا، گدھا اور خچر۔۔۔ ہم میں صرف قد اور رنگ کا ہی فرق ہے۔ کھانے میں ہماری پسند ایک ہی ہے۔ کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے۔ یہ سنپولے ہم میں بھی پھوٹ ڈالنے آئے تھے۔‘‘
’’تو۔۔۔؟‘‘ بندر نے سوال کیا۔
’’تو کیا۔۔۔ گھوڑے بھائی کو تو پہلے ہی سے اپنی جاتی اور اپنے خاندان پر فخر ہے۔‘‘ زیبرے نے گھوڑے کی طرف دیکھا، ’’وہ دیکھو وہ اب بھی ہم سے دور کھڑے ہیں۔ ‘’
گھوڑا شرمندگی سے ہنہنایا، ’’نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے۔ ہمارے اُصول بھید بھاؤ کی اجازت نہیں دیتے۔ ‘’
’’بھید بھاؤ تو زمانہ ہوا کب کا ختم ہو چکا ہے۔‘‘ طوطا اب بھی ٹہنی پر جھول رہا تھا۔
’’پھر بھی دلوں میں باقی ہے۔‘‘ بکری ممیائی، ’’یہی نہیں اب تو تنگ نظری نے بھی حد کر دی۔‘‘
’’ہاں اور کیا۔۔۔۔‘‘ کوآ بول پڑا، ’’پڑوسی جنگل کے مہان گائک شری مان بلبل جی اپنے گائین کا پروگرام یہاں کرنا چاہتے تھے مگر اُنھیں انومتی نہیں دی گئی۔‘‘
’’حالانکہ اُن کی گائیکی کے سب دیوانے ہیں۔ ‘’
’’اس سارے بکھراؤ میں ہمارے جنگل کا کیا بنے گا؟‘‘ شری مینا نے اپنے کان میں اٹکے ہوئے جنیؤ کی ڈوری پر ہاتھ پھیرا، ’’یہ بات ہمارے مہاراج مانڈول جی کو کوئی سمجھاتا کیوں نہیں؟‘‘
’’یہ بات تو ہمارے فلسفی دانشور اُلّو صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔‘‘
اپنا ذکر سنتے ہی اُلّو درخت کی ٹہنی سے زمین پر اُتر آیا، اور سب کے بیچ ٹہلتے ہوئے کہنے لگا، ’’مترو جتنی باتیں اور سمسیائیں آپ بتا رہے ہیں، اُن کا آدیش ہمارے مہاراج مانڈول جی نے تو نہیں دیا؟ حالانکہ اُنھیں ایشور نے دو منہ دئیے ہیں۔‘‘
’’مگر وہ کبھی تو ایک منہ سے یہ کہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے اور خاطیوں کو اس کی سزا ملے گی۔‘‘ بکری کا لہجہ اونچا ہو گیا تھا۔
فلسفی جی نے پلٹ کر بکری کی طرف دیکھا، ’’بہن جی آپ جانتی نہیں ہیں۔ ہمارے مانڈول جی کتنے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ آخر پارٹی کا اپنا بھی تو ایجنڈا ہے؟‘‘
’’لیکن راج گدی کو حاصل کرتے وقت تو وہ دونوں منہ سے کہتے تھے۔‘‘ ہاتھی نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
’’بزدل۔۔۔‘‘ ننھی سی چیونٹی نے طنز کیا
’’دیکھ لیا سنسکرتی کا پریورتن۔‘‘ ہاتھی نے اپنی سونڈ اُٹھا کر سب کو متوجہ کیا، ’’یہ چیونٹی بھی بڑے بڑوں پر حملے کرنے لگی ہے۔‘‘
’’تم کوئی بڑا کارنامہ ہی کر دکھاتے؟‘‘ چیونٹی درخت پر چڑھتے ہوئے کہنے لگی، ’’ان کو جب بھی کچھ کرنے کا موقع ملا، انھوں نے اُلٹا ہی کام کیا، راجہ پورس اور ابراہیم لودھی نے انھیں اپنی فوج میں داخل کیا تو عین جنگ میں انھوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالا۔‘‘
’’تنکا تنکا جمع کرنے والے تم کمزور جیو کیا جانو جنگ کو؟‘‘ ہاتھی کو غصہ تو بہت آ رہا تھا لیکن چیونٹی پر گرفت کرنا اُس کے لیے مشکل تھا۔
’’ہاں۔۔۔ لیکن ہم اپنے راجہ سے غداری نہیں کرتے۔‘‘ چیونٹی نے منہ چڑھایا، ’’چاہے کچھ ہو جائے ہم کبھی اپنے راجہ کو چھوڑ کر بھاگتے نہیں۔‘‘
’’ارے تم کس کو یہ سبق پڑھا رہی ہو؟‘‘ خرگوش نے منہ کھولا، ’’جنگ، وفا داری اور حکومت کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
’’اسی لیے تو آج کل ہاتھی سرکسوں میں کام کرنے لگے ہیں۔‘‘ چیتے نے قہقہہ لگایا، رنگ ماسٹر نے کوڑا مارا کہ یہ اسٹول پر بیٹھ گئے۔‘‘
’’اور تم کیا کرتے ہو؟‘‘ ہاتھی چیتے پر حملہ کی نیت سے جونہی بڑھا، گیانی ریچھ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اُسے رک جانے کا اشارہ کیا، ’’بھائی مجبوری سب سے وہ کام کرواتی ہے جو وہ کرنا بھی نہیں چاہتا۔ آپ تو گج راج ہیں۔ شانت ہو جائیے۔‘‘
ہاتھی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
’’کیا ہم کبھی سنجیدہ ہو کر گفتگو نہیں کر سکتے؟‘‘ ریچھ نے پھر ایک بار اپنی پلکیں اُٹھائیں، ’’ہم سب یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہمارے جنگل میں جو بستی راج پنپ رہا ہے اُس کے بارے میں غور کریں۔ اور اس سے بچنے کے اوپائے تلاش کریں۔‘‘
سبھی جانور غور و فکر میں ڈوب گئے اور شری مان جی مینا نے بکری کی طرف دیکھا۔
’’ہم کیا کہیں؟ ہم تو کچھ کہیں یا نہ کہیں، ہمیں فوراً ذلیل کیا جاتا ہے کہ ہم پڑوسی جنگل میں چلے جائیں؟‘‘ بکری نے مایوں نظروں سے سب کی جانب دیکھا، ’’ارے اگر ہمیں اس جنگل سے محبت نہ ہوتی تو ہم بہت پہلے ہی چلے جاتے؟‘‘
’’بہن اب یہ طنز صرف تمہارے لیے ہی نہیں ہر اُس جانور کا مقدر ہو گیا ہے جو ان سنپولوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے۔‘‘ گورئیا کی ان باتوں کو سن کر مور نے سوال کیا، ’’تو کیا اب جنگل بھگتی کا مطلب صرف اُن کی ہاں میں ہاں ملانے ہی میں رہ گیا؟ ‘’
’’اور کیا۔۔۔؟‘‘
’’میں اس کے خلاف، اور اس بڑ ھتی ہوئی لاقانونیت کے خلاف احتجاج کروں گا۔ ‘’ مور نے سخت الفاظ میں کہا۔
’’تمہارے احتجاج کو کون ہوا دے گا؟‘‘ طوطے نے مور کی طرف دیکھا، ’’مہاراج یہ بھی سن لو، آج سارے خبر رساں کبوتر ہمارے لیے کام کرتے ہیں اور وہ وہی خبریں لاتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔‘‘
’’مطلب۔۔۔‘‘ گورئیا نے حیرت سے طوطے کی طرف دیکھا۔
’’مطلب یہ کہ یہ ہم ہی ہیں جو جنگل کے ڈال ڈال تک کسی کی شہرت یا بد نامی کو پہنچاتے ہیں۔‘‘ طوطے کی آواز میں رعونت بھری تھی، ’’ہم جس کو نظر انداز کر دیں اُسے تو اُس کے خاندان کے افراد بھی نہ پہچان سکیں۔‘‘
’’تمہاری سمجھ میں یہ نہیں آئیں گے گورئیا بہن، اب شکاری ہی نہیں، اپنے بھی جال ڈالنے کا ہنر سیکھ گئے ہیں۔‘‘ گیانی ریچھ نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
’’تو پھر یہ بھی سن لو۔۔۔ ۱‘‘ مور نے سب کی جانب باری باری سے دیکھا، ’’میں اپنے اُن تمام سمّان کو واپس کرتا ہوں جو مجھے اپنے نرتیہ کی کلا پر ملے تھے۔‘‘
طوطے اورکبوتر کے چپروں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’اور یہ بھی جان لو، تم ہمیں بھلے ہی نظر انداز کر دو، لیکن ایک اور بھی طر یقہ ہے اس جنگل میں جس کے لیے کسی طوطے اور کبوتر کی ضرورت نہیں ہوتی وہ میرے اس احتجاج کو صرف اس جنگل ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے جنگلوں تک پہنچا دیں گے۔‘‘
سارے جانوروں نے مور کے اس اقدام پر خوش ہو کر تالیاں بجائیں
’’میں بھی اپنی گائیکی پر ملنے والے سمّان کو واپس کرتی ہوں۔‘‘ کوئل کا یہ اعلان بھی تالیوں کی گونج میں سراہا گیا۔
’’ایکس کیوز می۔۔۔‘‘ گرگٹ کی رنگت تبدیل ہونے لگی، ’’تم لوگ اپنے سمّان واپس کر کے شری مانڈول جی اور جنگل کی چھبی کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ تم جنگل دروھی ہو۔ میں تمہارے against اندولن چلاؤں گا۔ ‘’ اور پھر وہ تیزی سے وہاں سے نکل گیا، اندولن چلانے۔
ایک منٹ کے لیے سناٹا چھا گیا۔
’’الوّ جی امیں نے بہت وچار کیا کنتو ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ مینا نے سوال کیا، ’’حشرات الارض میں بڑے بڑے ناگ ہیں پھر بھی اُنھوں نے اس جنگل کا راج شریمان مانڈول جی کے ہاتھوں میں کیوں سونپا؟‘‘
دانشور اُلو نے ایک قہقہہ لگایا، مینا جی ہم سے بھی ادھیک آپ اپنے اس جنگل کوجانتے ہیں۔ جہاں کرشن کی بنسری سے پریم کے راگ اُبھرتے ہوں، جہاں رام جی کا چرتر مانوتا کا سندیش دیتا ہو، جہاں گرو بانی کے میٹھے بول گونجتے ہوں، جہاں صوفی سنتوں کی پرمپرا ہو، اور یہ جنگل صدیوں سے گنگا جمنی سنسکرتی کا استھان ہو، اُس کی سبھیاتا کو بھنگ کرنے کا کلنک کون اپنے ماتھے پر لگائے گا؟ اور جو بھی لگائے گا اُسے اِتہاس کبھی چھما نہیں کرے گا۔ شری مانڈول جی سے وہ پہلے بھی اس طرح کا ایک کاریہ کروا چکے ہیں۔ اس لیے اُن کے ہاتھوں۔۔۔۔۔ اب آیا آپ کی سمجھ میں؟‘‘
’’اوہ۔۔۔۔؟؟؟‘‘ مینا جی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، ’’یہ تو ایک بڑا شڑ ینتر ہے۔ ‘‘
’’ہماری اس سبھیاتاکے بچانے کا کچھ تو اوپائے ہو گا، ‘’ پریشان کمزور سی گورئیا کی زبان سے نکلا۔
سب ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے تھے۔ سب کی زبانیں گنگ تھیں، پھر سب کے سر جھک گئے اور اُن کی آنکھوں اُن کا اپنا بھی قصور بھی نظر آنے لگا تھا۔ بہت دیر تک سناٹا چھایا رہا۔
’’مجھے لگتا ہے ہم سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا احساس ہو رہا ہے۔‘‘ ریچھ کی گمبھیر آواز جنگل میں گونجنے لگی، ’’خود کردہ را علاج نیست، فی الحال اس کا کوئی اُپائے نہیں ہے۔ جب بھی ایسی حالت ہو جاتی ہے تو ہم آسمان کی اور دیکھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب بھی سوریہ اور چندر کو گہن لگتا ہے تو ہم میں سے آدھے اوپاس رکھتے ہیں، بھگوان سے پرار تھنا کرتے ہیں کہ اس سنکٹ سے سوریہ اور چندرما کو چھٹکارہ ملے اور آدھے اپنے اللہ کے حضور نماز کسوف و خسوف ادا کرتے ہیں۔ سمجھو آج ہمارے جنگل کو بھی گہن لگ گیا ہے اور اُس کی سبھیتا کو بچانے کے لیے دعاؤں اور پرارتھناؤں کی ضرورت ہے۔‘‘
سب نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی جانب دیکھا، اُن کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور وہ سب اپنی اپنی عبادت گاہوں کی طرف خاموش سر جھکائے جانے لگے۔
چاند نے بھی آسمان کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھا اور ستاروں نے اُس کی تقلید کی۔
٭٭٭