آہ محمد علوی: خدا کے نہ ہونے کا غم۔۔۔ عامر حسینی

ہمارے ہاں شکوہ، جواب شکوہ کا بڑا تذکرہ ہوتا ہے اور اس پہ کوئی شاعر کو ‘کافر’ کہتا ہے تو کوئی اس کو جرات رندانہ رکھنے والا مرد قلندر کہتا ہے۔ ایسا ہی ایک شاعر ادھر احمد آباد (گجرات-انڈیا) میں بھی بستا تھا۔ اس نے ‘میں اور تو’ کے نام سے ایک نظم کہی تھی۔ اس میں اس نے بہت دھیمے اور عاجزی سے بھرے لہجے میں وہ کچھ کہہ ڈالا تھا جسے کہہ ڈالنے کے لئے سو حلاجوں کی روح اپنے اندر پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ایسا ہی تھا وہ:

میں اور تو

خداوند۔۔۔ مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ میں تجھ سے نظریں ملاؤں
تری شان میں کچھ کہوں
تجھے اپنی نظروں سے نیچے گراؤں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ تو
روز اول سے پہلے بھی موجود تھا
آج بھی ہے
ہمیشہ رہے گا
اور میں
میری ہستی ہی کیا ہے
آج ہوں
کل نہیں ہوں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
مگر آج اک بات کہنی ہے تجھ سے
کہ میں آج ہوں
کل نہیں ہوں
یہ سچ ہے مگر
کوئی ایسا نہیں ہے
کہ جو میرے ہونے سے انکار کر دے
کسی میں یہ جرات نہیں ہے
مگر تو
بہت لوگ کہتے ہیں تجھ کو
کہ تو وہم ہے
اور کچھ بھی نہیں ہے
اسی موضوع کو وہ ایک اور جگہ پھر لے کر آیا تھا اور اس نے اس مرتبہ جو نظم کہی اسے ‘نوحہ ‘ کا نام دیا تھا:
نوحہ
نہ مرنے کا ڈر ہے
نہ جینے میں کوئی مزا ہے
خلا ہی خلا ہے
ہر اک چیز جیسے
اندھیرے میں گم ہو گئی ہے
اجالے کی اک اک کرن کھوگئی ہے
ہر اک آرزو سوگئی ہے
گنہ میں بھی اب کوئی لذت نہیں ہے
وہ دوزخ نہیں
اب وہ جنت نہیں ہے
کوئی بھی نہیں ہے
بس اب میں ہوں
اور میرا سنسان دل ہے
خدا کے نہ ہونے کا غم
کس قدر جاں گسل ہے
ولی کی قبر کو جہاں روند ڈالا گیا تھا اسی احمد آباد گجرات کے محمد علوی خود تو گزر گئے مگر ہمارے پاس اپنے ہزاروں شعر چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک بار موت کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اس میں موت سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ اسے گود میں لے لے۔ موت نے محمد علوی کو اپنی گود میں لے لیا ہے۔ اور ان کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے:
موت
تو ہم سب کی ماں ہوتی ہے
ہم سب تیری گود میں آ کر
گہری نیند میں کھو جاتے ہیں
دیکھ میں تیرے پیچھے کب سے
ہاتھ پسارے بھاگ رہا ہوں
ماں مجھ کو بھی گود میں لے لے
میں برسوں سے جاگ رہا ہوں
برسوں کے جاگے محمد علوی اپنی ماں کی گود شاید گہری نیند سوگئے ہیں۔ محمد علوی کے کان میں ‘تو مر رہا ہے۔ ’جو کہتا تھا اس کا کہا علوی کی مرگ پہ سچ ثابت ہو گیا ہے۔
محمد علوی کی شاعری میں موت کے بعد کچھ چیزوں کا تماشہ دیکھنے کی بہت چاہ تھی۔ مثال کے طور پہ ان کا جنم دن آتا اور اس جنم دن پہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ایسا جنم دن بھی آئے جب ان کا جنم دن ان کو ڈھونڈتا رہ جائے۔ اگلے سال علوی کا جب جنم دن آنا ہے تو واقعی وہ محمد علوی کو ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا۔
جنم دن
سال میں اک بار آتا ہے
آتے ہی مجھ سے کہتا ہے
کیسے ہو
اچھے تو ہو
لاؤ اس بات پہ کیک کھلاؤ
رات کے کھانے میں کیا ہے
اور کہو کیا چلتا ہے
پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا ہے
پھر گھڑی دیکھ کے کہتا ہے
اچھا تو میں جاتا ہوں
پیارے اب میں
ایک سال کے بعد آؤں گا
کیک بنا کے رکھنا
ساتھ میں مچھلی بھی کھاؤں گا
اور چلا جاتا ہے
اس سے مل کر
تھوڑی دیر مزا آتا ہے
لیکن پھر میں سوچتا ہوں
خاص مزا تو تب آئے گا
جب وہ آ کر
مجھ کو ڈھونڈتا رہ جائے گا
مرنے کے ایک تماشا محمد علوی اپنی تدفین کے بعد اپنی قبر کے اندر بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی نظم پڑھئیے:
قبر میں
میرے جسم پر رینگتی
چونٹیوں کے علاوہ
یہاں کوئی ہے
کوئی بھی تو نہیں ہے
مگر ایک آواز آتی ہے
مجھ سے کوئی پوچھتا ہے
بتا تیرا رب کون ہے
کون ہے ؟
کون ہے
اور میں سوچتا ہوں
اگر میرا رب کوئی ہے تو
اسے میرے مرنے کا غم
کیوں نہیں ہے
محمد علوی کے بارے میں کچھ ذاتی سا کہنے کو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کی شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مجھے بس اتنا پتا ہے کہ محمد علوی کی ادبی زندگی کا آغاز بقول وارث علوی ‘افسانہ نگاری’ سے ہوا تھا اور پھر وہ شعر کہنے لگے اور شاعر ہو کر رہ گئے۔ وارث علوی نے مظہر الحق علوی کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ افسانوں سے شروع ہوئے اور پھر ترجموں کے ہو کر رہ گئے جبکہ اگر وہ افسانہ نگاری کے میدان میں جمے رہتے تو اچھا ہوتا۔ لیکن وارث علوی نے یہ بات محمد علوی کے بارے میں نہیں کہی، اس کا مطلب ہے کہ ان کے خیال میں محمد علوی افسانے سے شاعری کی طرف جو آئے تھے تو یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا تھا۔ مجھے ان کے آدرشوں پہ بات کرتے ہوئے انہی کے دو شعر یاد آ گئے:
جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
کچھ نہیں تو ایک دو چنگاریاں رکھ جاؤں گا
دوں گا اب میں علویؔ آخری دن کی تلاش چھوڑ
اور ادب کے شہر میں خالی مکاں رکھ جاؤں گا
وہ جاتے جاتے واقعی پتھر میں جان بھر گئے اور ادب کے شہر میں ان کا خالی مکان بھی کئی دوسرے شاعروں کے ادب کے شہر میں موجود مکانوں سے زیادہ بھرا بھرا ہے۔ ذرا ‘گرمی’ کے بارے میں ان کی نظم دیکھیں:
گرمی
رات اب سیانی ہو گئی ہے
گڑیا کھوجائے
تو روتی نہیں
بخار میں مبتلا
بوڑھے آسمان میں
اتنی بھی سکت نہیں
کہ اٹھ کر وضو کرے
سورج خوں خوار بلے کی طرح
ایک ایک چیز پر
اپنے ناخن تیز کرتا ہے
ہوا کا جھونکا
چوہے کی مانند
بل سے باہر آتے ڈرتا ہے
وقت آج کل
دوزخ کے آس پاس سے گزرتا ہے
محمد علوی کی شاعری میں ندرت خیال عام فہم انداز میں لفظوں کا روپ دھارن کرتی ہے۔ اور ان کے اندر ہمیں ایک ایسا فرد چھپا نظر آتا ہے جو اپنی معصومیت کا متلاشی ہے۔ اور شہر سے جب وہ بہت اوب جاتا ہے تو اس کے اندر جنگل میں جا کر بس جانے کی شدید خواہش ابھر کر سامنے آتی ہے۔
ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں
تمہارا نام ہراک پیڑ پر لکھوں گا میں
تمہیں یقین نہ آئے تو کیا ہوا علویؔ
مجھے یقین ہے ایسے بھی جی سکوں گا میں
علوی اندھیروں کے سر پہ چڑھ آنے سے مایوس نہیں ہوتے اور امید کو زندہ رکھتے تھے اور اپنی اس رجائیت کے سبب روشنی کے منتظر رہتے تھے:
روشنی کھڑکیاں بناتی ہے
چونک پڑتے ہیں گھر اندھیرے میں
چاند نکلا نہ رات بھر علویؔ
کھو گئی رہگزر اندھیرے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر اک دل میں اسی کی آرزو ہے
‘بدی’ بوڑھی ہے پھر بھی خوب رو ہے
پڑی رہتی ہے گھر میں سر چھپائے
یہ ‘نیکی’ تو بچاری فالتو ہے
ہمیں کیا گھاس ڈالے گی بھلا وہ
‘خوشی’ اونچے گھرانے کی بہو ہے
کسی بھی ہونٹ پر جا بیٹھتی ہے
‘ہنسی’ سچ پوچھئے تو فالتو ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے
پہلے بچے بھی کتنے بوڑھے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نہیں تو کل علویؔ
موت کبھی تو آنی ہے
شہر
کہیں بھی جاؤ، کہیں بھی رہو تم
سارے شہر ایک جیسے ہیں
سڑکیں سب سانپوں جیسی ہیں
سب کے زہر ایک جیسے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون؟
کبھی دل کے اندھے کنویں میں
پڑا چیختا ہے
کبھی دوڑتے خون میں
تیرتا ڈوبتا ہے
کبھی ہڈیوں کی سرنگوں میں بتی جلا کر
یوں ہی گھومتا ہے
کبھی کان میں آکے
چپکے سے کہتا ہے تو اب تلک جی رہا ہے ؟
بڑا بے حیا ہے !
مرے جسم میں کون ہے یہ
جو مجھ سے خفا ہے
٭٭٭
ہمارے ہاں شکوہ، جواب شکوہ کا بڑا تذکرہ ہوتا ہے اور اس پہ کوئی شاعر کو ‘کافر’ کہتا ہے تو کوئی اس کو جرات رندانہ رکھنے والا مرد قلندر کہتا ہے۔ ایسا ہی ایک شاعر ادھر احمد آباد (گجرات-انڈیا) میں بھی بستا تھا۔ اس نے ‘میں اور تو’ کے نام سے ایک نظم کہی تھی۔ اس میں اس نے بہت دھیمے اور عاجزی سے بھرے لہجے میں وہ کچھ کہہ ڈالا تھا جسے کہہ ڈالنے کے لئے سو حلاجوں کی روح اپنے اندر پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ایسا ہی تھا وہ:

میں اور تو

خداوند۔۔۔ مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ میں تجھ سے نظریں ملاؤں
تری شان میں کچھ کہوں
تجھے اپنی نظروں سے نیچے گراؤں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
کہ تو
روز اول سے پہلے بھی موجود تھا
آج بھی ہے
ہمیشہ رہے گا
اور میں
میری ہستی ہی کیا ہے
آج ہوں
کل نہیں ہوں
خداوند مجھ میں کہاں حوصلہ ہے
مگر آج اک بات کہنی ہے تجھ سے
کہ میں آج ہوں
کل نہیں ہوں
یہ سچ ہے مگر
کوئی ایسا نہیں ہے
کہ جو میرے ہونے سے انکار کر دے
کسی میں یہ جرات نہیں ہے
مگر تو
بہت لوگ کہتے ہیں تجھ کو
کہ تو وہم ہے
اور کچھ بھی نہیں ہے
اسی موضوع کو وہ ایک اور جگہ پھر لے کر آیا تھا اور اس نے اس مرتبہ جو نظم کہی اسے ‘نوحہ ‘ کا نام دیا تھا:
نوحہ
نہ مرنے کا ڈر ہے
نہ جینے میں کوئی مزا ہے
خلا ہی خلا ہے
ہر اک چیز جیسے
اندھیرے میں گم ہو گئی ہے
اجالے کی اک اک کرن کھوگئی ہے
ہر اک آرزو سوگئی ہے
گنہ میں بھی اب کوئی لذت نہیں ہے
وہ دوزخ نہیں
اب وہ جنت نہیں ہے
کوئی بھی نہیں ہے
بس اب میں ہوں
اور میرا سنسان دل ہے
خدا کے نہ ہونے کا غم
کس قدر جاں گسل ہے
ولی کی قبر کو جہاں روند ڈالا گیا تھا اسی احمد آباد گجرات کے محمد علوی خود تو گزر گئے مگر ہمارے پاس اپنے ہزاروں شعر چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک بار موت کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اس میں موت سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ اسے گود میں لے لے۔ موت نے محمد علوی کو اپنی گود میں لے لیا ہے۔ اور ان کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے:
موت
تو ہم سب کی ماں ہوتی ہے
ہم سب تیری گود میں آ کر
گہری نیند میں کھو جاتے ہیں
دیکھ میں تیرے پیچھے کب سے
ہاتھ پسارے بھاگ رہا ہوں
ماں مجھ کو بھی گود میں لے لے
میں برسوں سے جاگ رہا ہوں
برسوں کے جاگے محمد علوی اپنی ماں کی گود شاید گہری نیند سوگئے ہیں۔ محمد علوی کے کان میں ‘تو مر رہا ہے۔ ’جو کہتا تھا اس کا کہا علوی کی مرگ پہ سچ ثابت ہو گیا ہے۔
محمد علوی کی شاعری میں موت کے بعد کچھ چیزوں کا تماشہ دیکھنے کی بہت چاہ تھی۔ مثال کے طور پہ ان کا جنم دن آتا اور اس جنم دن پہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ایسا جنم دن بھی آئے جب ان کا جنم دن ان کو ڈھونڈتا رہ جائے۔ اگلے سال علوی کا جب جنم دن آنا ہے تو واقعی وہ محمد علوی کو ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا۔
جنم دن
سال میں اک بار آتا ہے
آتے ہی مجھ سے کہتا ہے
کیسے ہو
اچھے تو ہو
لاؤ اس بات پہ کیک کھلاؤ
رات کے کھانے میں کیا ہے
اور کہو کیا چلتا ہے
پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا ہے
پھر گھڑی دیکھ کے کہتا ہے
اچھا تو میں جاتا ہوں
پیارے اب میں
ایک سال کے بعد آؤں گا
کیک بنا کے رکھنا
ساتھ میں مچھلی بھی کھاؤں گا
اور چلا جاتا ہے
اس سے مل کر
تھوڑی دیر مزا آتا ہے
لیکن پھر میں سوچتا ہوں
خاص مزا تو تب آئے گا
جب وہ آ کر
مجھ کو ڈھونڈتا رہ جائے گا
مرنے کے ایک تماشا محمد علوی اپنی تدفین کے بعد اپنی قبر کے اندر بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی نظم پڑھئیے:
قبر میں
میرے جسم پر رینگتی
چونٹیوں کے علاوہ
یہاں کوئی ہے
کوئی بھی تو نہیں ہے
مگر ایک آواز آتی ہے
مجھ سے کوئی پوچھتا ہے
بتا تیرا رب کون ہے
کون ہے ؟
کون ہے
اور میں سوچتا ہوں
اگر میرا رب کوئی ہے تو
اسے میرے مرنے کا غم
کیوں نہیں ہے
محمد علوی کے بارے میں کچھ ذاتی سا کہنے کو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کی شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مجھے بس اتنا پتا ہے کہ محمد علوی کی ادبی زندگی کا آغاز بقول وارث علوی ‘افسانہ نگاری’ سے ہوا تھا اور پھر وہ شعر کہنے لگے اور شاعر ہو کر رہ گئے۔ وارث علوی نے مظہر الحق علوی کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ افسانوں سے شروع ہوئے اور پھر ترجموں کے ہو کر رہ گئے جبکہ اگر وہ افسانہ نگاری کے میدان میں جمے رہتے تو اچھا ہوتا۔ لیکن وارث علوی نے یہ بات محمد علوی کے بارے میں نہیں کہی، اس کا مطلب ہے کہ ان کے خیال میں محمد علوی افسانے سے شاعری کی طرف جو آئے تھے تو یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا تھا۔ مجھے ان کے آدرشوں پہ بات کرتے ہوئے انہی کے دو شعر یاد آ گئے:
جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
کچھ نہیں تو ایک دو چنگاریاں رکھ جاؤں گا
دوں گا اب میں علویؔ آخری دن کی تلاش چھوڑ
اور ادب کے شہر میں خالی مکاں رکھ جاؤں گا
وہ جاتے جاتے واقعی پتھر میں جان بھر گئے اور ادب کے شہر میں ان کا خالی مکان بھی کئی دوسرے شاعروں کے ادب کے شہر میں موجود مکانوں سے زیادہ بھرا بھرا ہے۔ ذرا ‘گرمی’ کے بارے میں ان کی نظم دیکھیں:
گرمی
رات اب سیانی ہو گئی ہے
گڑیا کھوجائے
تو روتی نہیں
بخار میں مبتلا
بوڑھے آسمان میں
اتنی بھی سکت نہیں
کہ اٹھ کر وضو کرے
سورج خوں خوار بلے کی طرح
ایک ایک چیز پر
اپنے ناخن تیز کرتا ہے
ہوا کا جھونکا
چوہے کی مانند
بل سے باہر آتے ڈرتا ہے
وقت آج کل
دوزخ کے آس پاس سے گزرتا ہے
محمد علوی کی شاعری میں ندرت خیال عام فہم انداز میں لفظوں کا روپ دھارن کرتی ہے۔ اور ان کے اندر ہمیں ایک ایسا فرد چھپا نظر آتا ہے جو اپنی معصومیت کا متلاشی ہے۔ اور شہر سے جب وہ بہت اوب جاتا ہے تو اس کے اندر جنگل میں جا کر بس جانے کی شدید خواہش ابھر کر سامنے آتی ہے۔
ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں
تمہارا نام ہراک پیڑ پر لکھوں گا میں
تمہیں یقین نہ آئے تو کیا ہوا علویؔ
مجھے یقین ہے ایسے بھی جی سکوں گا میں
علوی اندھیروں کے سر پہ چڑھ آنے سے مایوس نہیں ہوتے اور امید کو زندہ رکھتے تھے اور اپنی اس رجائیت کے سبب روشنی کے منتظر رہتے تھے:
روشنی کھڑکیاں بناتی ہے
چونک پڑتے ہیں گھر اندھیرے میں
چاند نکلا نہ رات بھر علویؔ
کھو گئی رہگزر اندھیرے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر اک دل میں اسی کی آرزو ہے
‘بدی’ بوڑھی ہے پھر بھی خوب رو ہے
پڑی رہتی ہے گھر میں سر چھپائے
یہ ‘نیکی’ تو بچاری فالتو ہے
ہمیں کیا گھاس ڈالے گی بھلا وہ
‘خوشی’ اونچے گھرانے کی بہو ہے
کسی بھی ہونٹ پر جا بیٹھتی ہے
‘ہنسی’ سچ پوچھئے تو فالتو ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے
پہلے بچے بھی کتنے بوڑھے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نہیں تو کل علویؔ
موت کبھی تو آنی ہے
شہر
کہیں بھی جاؤ، کہیں بھی رہو تم
سارے شہر ایک جیسے ہیں
سڑکیں سب سانپوں جیسی ہیں
سب کے زہر ایک جیسے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون؟
کبھی دل کے اندھے کنویں میں
پڑا چیختا ہے
کبھی دوڑتے خون میں
تیرتا ڈوبتا ہے
کبھی ہڈیوں کی سرنگوں میں بتی جلا کر
یوں ہی گھومتا ہے
کبھی کان میں آکے
چپکے سے کہتا ہے تو اب تلک جی رہا ہے ؟
بڑا بے حیا ہے !
مرے جسم میں کون ہے یہ
جو مجھ سے خفا ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے