نام کتاب : فکر نو(تعارفی تبصرے و تنقیدی جائزے )
مصنف : ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل
اردو زبان و ادب کے لئے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے اردو کے نئے ادیب اور قلم کار اپنی تحریروں سے ادب کی دنیا میں شناخت بنا رہے ہیں۔ اردو کے زوال کا نوحہ پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اردو زبان سے اپنی اٹوٹ وابستگی اور اس زبان میں لکھنے پڑھنے والوں میں نئی نسل کی شمولیت اردو کے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔ جنوبی ہند میں حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہر اردو اب ساری دنیا میں اردو زبان کی بقاء اور ترویج کا اہم مرکز مانا جا رہا ہے۔ حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اپنے عہد کے شعر و ادب سے اپنی گہری وابستگی رکھنے اور اس کی سرگرمیوں کو اپنی تحریروں رپورتاژ، ادبی تبصروں اور تحقیقی و تنقیدی مضامین سے اجاگر کرنے والوں میں اب ایک جانا پہچانا نام ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کا ہے۔ جامعہ عثمانیہ سے اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے حیدرآ باد اور ریاست تلنگانہ و آندھرا کے ادبی منظر نامے میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ جامعات میں ہونے والے اردو سمیناروں میں شرکت اور ان کے رپورتاژ کو کامیابی سے پیش کرنے کے علاوہ انہوں نے اردو شعراء اور ادیبوں کی کتابوں پر سلسلہ وار ادبی تبصرے لکھنا شروع کئے۔ ان کے تبصرے روزنامہ اعتماد، روزنامہ منصف کے علاوہ ہندوستان کے اہم ادبی رسائل اور اردو کی اہم ویب سائٹوں پر شائع ہوتے رہے۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کی اب تک سات تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی پہلی تصنیف2014ء میں شائع ہوئی تھی اور اب وہ ’’فکر نو‘‘ کے عنوان سے اپنی آٹھویں تصنیف کے ساتھ حاضر ہو رہے ہیں تین سال میں آٹھ تصانیف کی رفتار دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اردو کے نوعمر زود نویس ادیب ہیں۔ امید ہے کہ ان کے قلم کی سمت و رفتار یوں ہی جاری و ساری رہے گی۔ ان کے ادبی کتابوں پر تبصروں کی پہلی کتاب ’’ میزان نو‘‘ کے عنوان سے 2015ء میں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہے۔ زیر نظر کتاب میں بھی نثری و شعری تصانیف اور ادبی رسائل پر کل ۲۹ تبصرے شامل ہیں۔ جن شخصیات کی کتابوں پر ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے تبصرے کیے ہیں ان میں سید رفیع الدین قادری زور۔ ڈاکٹر رؤف خیر۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی۔ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی۔ ڈاکٹر عابد معز۔ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز۔ ڈاکٹر عزیز احمد عرسی۔ ڈاکٹر ضامن علی حسرت۔ ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی۔ ڈاکٹر دانش غنی۔ شمیم سلطانہ۔ ڈاکٹر مختار احمد فردین۔ رحیم انور۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی۔ ڈاکٹر آمنہ آفرین۔ عاصمہ خلیل۔ سلیم اقبال۔ محمد مظہر الدین۔ جمیل نظام آبادی۔ حلیم بابر۔ راشد احمد۔ سوز نجیب آبادی۔ محبت علی منان۔ چچا پالموری۔ ڈاکٹر خواجہ فرید الدین صادق اور اقبال شانہ کے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کی جانب سے تبصرہ کی گئی کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تبصرہ نگاری کے لئے ہمہ جہت ادبی و شعری اصناف کا انتخاب کیا ہے۔ ان کتابوں میں تحقیق و تنقید، فکشن، بچوں کا ادب، صحافت، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت، خاکہ نگاری و انشائیہ نگاری، رسائل، شاعری میں سنجیدہ و مزاحیہ شاعری وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے جن شعرا اور ادیبوں کی کتابوں پر تبصرے کئے ہیں وہ حیدرآباد اور علاقہ دکن کے نامور شعرا اور ادیب ہیں۔ نئے اور پرانے محقق اور نقاد ہیں۔
’’فکر نو‘‘ کتاب میں پیش گفتار کے نام سے ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری صاحب نے ڈاکٹر عزیز سہیل کی تبصرہ نگاری کے بارے میں لکھا کہ ’’ کسی مبصر کے لیے واقعی یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس کے تبصرے استنادی حیثیت کے حامل ہوں اور قبول عام اور پسندیدگی حاصل کریں‘‘۔ فیس بک پر ’’ درون خانہ کا سلسلہ‘‘ کے تحت اپنے تجربات کو دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہوئے شہرت پانے والے نامور شاعر رؤف خلش کے فرزند معظم راز ’’ تقریظ برائے فکر نو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ برادرم عزیز سہیل پیشہ تدریس سے وابستگی کے باوجود عصری تیکنالوجی کے طفیل تیزی سے فروغ پانے والے سوشل میڈیا میں بھی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے ہمہ تن مصروف و فعال رہے ہیں۔ اس کتاب میں شامل بیشتر تبصرے سوشل میڈیا اور کئی ویب سائٹس پر شائع ہونے کے سبب دنیا بھر کے اردو قارئین تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے تبصرہ نگاری کے فن پر اپنا تحقیقی مضمون پیش کیا ہے جو ان کی کتاب کا مقدمہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ تبصرہ نگاری تنقید کی ہی ایک قسم ہے جس میں کسی کتاب کے تعارف اور اس کے محاسن و معائب کو تبصرہ نگار اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ ایک مضمون میں ساری کتاب کا جامع تعارف پیش ہو جاتا ہے۔ اکثر تبصرہ نگاروں نے تعارفی تبصرے لکھے جس سے قاری کو کتاب پر رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مرزا غالب نے اپنے دور میں کچھ شعرا اور ادیبوں کی کتابوں پر تقاریظ لکھی تھیں۔ اگر تبصرہ کتاب میں شامل ہو جائے تو وہ پیش لفظ کے طور پر کتاب کا تعارف پیش کر دیتا ہے اور اگر کتاب کی اشاعت کے بعد الگ سے شائع ہو تو قاری کو کتاب تک پہونچنے اور اس کے مطالعے کے لئے راغب کرتا ہے۔ اردو کی کچھ اہم کتابیں تبصروں کی وجہہ سے ہی مقبول ہوئی ہیں کیوں کہ قاری کتاب کی نوعیت تو نہیں جانتا لیکن تبصرہ پڑھنے کے بعد وہ کتاب کے مشمولات سے واقف ہو کر انہیں پڑھنے پڑھنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کی اس کتاب ’’ فکر نو‘‘ میں شامل ہمہ رنگی کتابوں کے تبصروں پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح ایک تبصرہ ایک کتاب کا تعارف کراتا ہے اسی طرح تبصروں پر مشتمل یہ کتاب اردو کی تقریباً تیس کتابوں کا بہ یک وقت تعارف پیش کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل کے تبصرے تعارفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اردو کے ادیب قاری کی عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہیں تبصرہ نگار کے فریضہ کے طور پر فاضل تبصرہ نگار نے سبھی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ صاحب کتاب اور کتاب کے مشمولات کا تعارف پیش کیا۔ کتاب کی خوبیوں پر زیادہ نظر ڈالی اور کتاب کی خامیوں کو سرسری طور پر اجاگر کرتے ہوئے ادب کی دنیا میں کتاب کے مقام کا تعین کیا۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ فن اور شخصیت موضوع پر لکھی گئی ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کی لکھی تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے فکر نو کے مصنف لکھتے ہیں ’’ اس کام کی دستاویزی اہمیت بھی ہے۔ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کا اسلوب رواں سادہ اور دلچسپ ہے۔ تحقیق کے موضوع پر کتاب ہونے کے باوجود قاری کو کہیں روکھا پن محسوس نہیں ہوتا۔ ‘‘اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل کے یہ ادبی تبصرے قاری اور ادیب کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔ ان تبصروں کو وہ نہ صرف یکسوئی سے لکھتے ہیں بلکہ ان کی اخبارات و رسائل اور عالمی سطح پر دستیاب انٹرنیٹ کی اہم ویب سائٹوں پر اشاعت کے لئے روانہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل میں سیکھنے کی جستجو ہے ان کا عوامی رابطہ قابل ستائش ہے وہ ہر ادیب اور شاعر سے نہ صرف شاگردانہ رابطہ رکھتے ہیں بلکہ اردو کے ادبی اجلاسوں، سمیناروں اور دیگر تہذیبی پروگراموں کے انعقاد اور انصرام میں اپنا بھر پور دست تعاون پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے جن شعرا اور ادیبوں کے تبصرے لکھے وہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھتے ہیں اور فاضل مصنف سے ان کے روابط بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل سوشیل میڈیا پر سرگرم ہیں اور اپنی جانب سے اردو کی تہذیبی خبروں کو عوام تک پیش کرتے ہیں وہ اردو کے طالب علم تو ہیں ہی ویسے پیشے کے اعتبار سے نظم و نسق عامہ کے لیکچرر ہیں اور کالج میں بھی ہمہ جہت پروگراموں کے انعقاد سے نئی نسل کی علمی آبیاری کر رہے ہیں۔ اردو کے نئے دور کے طالب علموں کے لئے وہ ایک مثال ہیں۔ کہ کس طرح اردو کے ابھرتے قلم کاروں کو اپنے لئے اور اردو کے لئے نئے نئے مواقع اور امکانات کا اہل بنایا جائے۔ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل کی اس تصنیف کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے لئے نیک تمنائیں پیش ہیں او اس کے ساتھ فن تبصرہ نگاری میں مزید نکھار کے لئے ان کے لئے ایک مشورہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع کی کتاب پر تبصرہ کر رہے ہیں اس کی تنقید بھی مد نظر رکھیں اور کتاب کے تعارف کے ساتھ اس کے ان گوشوں کی جانب ادیب و شاعر کی توجہ دہانی کرائیں جس کی کتاب میں ایک نقاد کمی محسوس کرتا ہے۔ تنقیدی رجحان زندگی کے تجربوں کے ساتھ ساتھ پختہ کار ہوتا جاتا ہے امید ہے کہ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل اپنی تحریروں کے ذریعے ایک اچھے مبصر، محقق اور نقاد کے طور پر جانے جائیں گے بلکہ وہ ایک اچھے نثر نگار کے طور پر بھی ادب کی دنیا میں اپنا نام روشن کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے ہم وطن ہونے کے ناطے انہوں نے اہلیان نظام آباد اور اس کی اعلی ادبی روایات کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ امید ہے کہ اردو کی اچھی کتابوں کے قدر دارں اس کتاب کی پذیرائی کریں گے اور مصنف کو مزید حوصلہ بخشیں گے۔ دیدہ زیب ٹائٹل‘ 192صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ اور مصنف سے فون نمبر 9299655396پر رابطہ کرتے ہوئے حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭
محترم آپ کی نہم کلاس کی فکر نو پی ڈی ایف میں مل سکتی ہے ؟
اور اگر دہم کی بھی ہے تو وہ بھی ۔
شکریہ