احساس و ادراک : ڈاکٹر مقبول احمد مقبول۔۔۔ ڈاکٹر عزیز سہیل

مصنف: ڈاکٹر مقبول احمد مقبول
مبصر: ڈاکٹر عزیز سہیل

رباعی لفظ در اصل عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی چار کے لیے جاتے ہیں، شاعری میں چار مصرعوں کی نظم کو رباعی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک قدیم صنف ہے اردو میں اس صنف شاعری کا آغاز بھی علاقہ دکن سے ہوا ہے قلی قطب شاہ کے کلام میں بھی صنف رباعی میں شعری انداز پایا جاتا ہے۔ ولی دکنی نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ انیسویں صدی میں جنوبی ہند میں رباعی کو فروغ دینے میں امجد حیدرآبادیؔ کا نام کافی مقبول ہوا ہے۔ عصرحاضر میں بہت کم شعراء کے یہاں رباعی کا رحجان پایا جاتا ہے۔ درس وتدریس، شعرو شاعری اور نثری ادب میں یکساں عبور رکھنے والی شخصیت ڈاکٹر مقبول احمد مقبول اسوسیٹ پروفیسر او گیر کالج مہاراشٹرا کی رباعیات پر مشتمل دیوان رباعیات ‘احساس و ادراک‘ پچھلے دنوں منظر عام پر آیا ہے۔
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول کی پیدائش چٹگوپہ ضلع بیدر کرناٹک میں ہوئی۔ انہوں نے پی ایچ ڈی اور نیٹ کا امتحان پاس کیا ہے۔ ان کے ادبی سفرکا آغاز 1981ء سے ہوتا ہے۔ وہ پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کی مطبوعات میں مضطر مجاز شخصیت اور فن (تنقید و تجزیہ)، آدمی لہو لہو(مجموعہ غزلیات)، نقد و نظر(تنقید) شامل ہیں۔
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے اس کتاب کا انتساب شہنشاہِ اردو رباعی امجدؔحیدرآبادی اور امجد ثانی علامہ عطاؔ کلیانوی کے نام معنون کیا ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ پروفیسر سید وحید اشرف نے رقم کیا ہے۔ انہوں نے پیش لفظ میں مقبول احمد مقبول کی شاعری بالخصوص رباعی سے متعلق ان کے فن کو سراہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ شعراء رباعی عام طور سے کافی کہنہ مشقی کے بعد لکھتے ہیں لیکن مقبول نے بہت جلد رباعی کے اوزان پر دسترس حاصل کر لی اور ایک دیوان تیار کر لیا۔ انہوں نے رباعیاں متعدد اوزان میں کہی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرف انہوں نے کافی توجہ مبذول کی ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ابھی یہ پہلا دیوان رباعیات ہونے کے باوجود اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر پوری طرح رباعی کے مزاج سے آشنا ہے۔ ‘‘
پروفیسر سید وحید اشرف کے پیش لفظ کے بعد اس دیوان میں ’’مقبول رباعی گو‘‘ کے عنوان پر جناب وحید واجد (رائچور ) نے اس کتاب کی تقریظ لکھی ہے۔ انہوں نے احساس و ادراک پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے ’’مقبول نے احساس و ادراک میں رباعی کے مقررہ چوبیس اوزان استعمال کئے ہیں۔ ان کے ہمہ رنگ رباعیوں کو مضمون و فن کے اعتبار سے بیشتر عین رباعیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رباعیات کا نفس مضمون صوفیانہ، ناصحانہ، عاشقانہ اور عالمانہ ہے جبکہ وحدانیت، عرفانیت کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ مقبول احمد مقبول نے زندگی کے مختلف اور متفکر مسائل پر موثر رباعیات کہی ہیں۔ مبالغہ آمیزیاں کہیں نہیں۔ فصاحت و بلاغت کا نمونہ بھی ہے اور متن و مضامین کی قوس و قزح بھی۔ جناب وحید واجد کی تقریظ کے بعد ایک اور تقریظ ’’احساس و ادراک: ایک اہم شعری اثاثہ‘‘ کے عنوان پر ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی شامل کی گئی ہے۔ انہوں نے بھی مقبول احمد مقبول کی رباعیات کو سہل زبان قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ مقبول احمد مقبول نے اپنے رباعیات میں سہل زبان، تراکیب سے اجتناب اور سریع الفہم خیال آرائی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ پیچیدہ اور دور از فہم خیالات کو انہوں نے اپنی رباعیوں میں جگہ نہیں دی۔ ان کی رباعیوں کے موضوعات میں سامنے کے واقعات اور شنیدہ دیدہ حقائق شامل ہیں۔ ‘‘
زیر نظر کتاب میں اپنی بات کو ’’حرف چند‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے رباعی سے اپنی مرغوبیت کو اپنی بات میں بیان کیا ہے اور رباعی گوشعراء کی تفصیلات بھی اس میں فراہم کی ہے۔ انہوں نے اپنی رباعی کے فن سے متعلق لکھا ہے کہ ’’ میں نے مختلف متنوع موضوعات و مسائل پر رباعیات کہنے کی کوشش کی ہے۔ عام طور پر رباعی کو مشکل ترین فن سمجھا گیا ہے۔ اب اس میں مجھے کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کا فیصلہ اہل نظر پر موقوف ہے۔ اس دیوان رباعیات میں مقبول احمد مقبول نے ابتداء سے ہی حرف تہجی کے اعتبار سے اپنی رباعیات کو ترتیب دیا ہے۔ اس دیوان میں شامل ان کی چند حمدیہ رباعیات میں خدا رب ذو الجلال کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے ؎۔
کس طرح ثنا کروں میں تیری مولا!
میں کیا ہوں؟ بساط کیا ہے میری مولا!
عاجز ہے زباں، اور ہے کمزور قلم
ہے شان بڑی عظیم تیری مولا!
اپنی رباعیات میں مقبول احمد مقبول نے اللہ رب العزت کی بڑائی کو بہت خوب بیان کیا ہے۔ کتاب کے ابتداء میں حمدیہ رباعیات شامل ان کی یہ رباعی دیکھیں ؎
دنیا میں کوئی شئے نہیں ایسی مولا!
پڑھتی نہ ہوتسبیح جو تیری مولا!
اشجار، ہوا۔ ارض وسماء، شمس و قمر
کرتے ہیں بیاں تیری بڑائی مولا!
اس دیوان میں قریباً دو سو چالیس رباعیات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس دیوان کے آخر میں قرطاس و قلم سے متعلق شامل ڈاکٹر مقبول احمد مقبول کی ایک رباعی ملاحظہ ہو۔
کمزوری و طاقت مری قرطاس و قلم
وحشت مری، راحت مری، قرطاس و قلم
میں پھر کسی دولت کا طلب گار نہیں
پونجی مری، دولت مری، قرطاس و قلم
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے اپنے اس دیوان میں حمد و نعت کے علاوہ اخلاقیات، اسلامیات، تصوف، دنیا کی بے ثباتی، امن و محبت، ایثار و قربانی، رواداری اور بھائی چارہ، مذہب و سیات غرض یہ کہ مختلف النوع موضوعات پر رباعیاں کہی ہیں۔ ڈاکٹر مقبول احمد مقبول ایک سنجیدہ شاعر ہیں۔ انہوں نے رباعی کے فن پر واقعی بہت محنت کی ہے اور اس سمت میں اپنے آپ کو ایک اتھارٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ رباعی کہنا ایک مشکل کام ہے۔ اس مشکل کام کو مقبول احمد مقبول نے نہ صرف آسانی سے انجام دیا ہے بلکہ ایک دیوان بھی ترتیب دیا ہے جس کی وجہ ان کو شعر و ادب کی دنیا میں ایک انفرادیت حاصل ہو گئی ہے۔ رباعیات کے دیوان کی اشاعت پر مقبول احمد مقبول کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش خدمت ہے۔ ان سے امید بھی ہے کہ وہ اردو کے ایک سنجیدہ شاعر کی حیثیت سے رباعی کے فن کو مقبول بنانے میں اپنی محنتیں صرف کریں گے اور رباعیات کے دیگر مجموعے کو ایک کے بعد ایک اردو شعر و ادب میں پیش کرنے کا شرف حاصل کریں گے۔ اس کتاب کے ناشر ایجوکیشنل پبلشینگ ہاؤز دہلی ہے۔ ایک سو اٹھاون صفحات، خوبصورت ٹائٹل پر مشتمل کتاب کی قیمت دو سو روپئے رکھی گئی ہے جو ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤز کے علاوہ ھدیٰ بک ڈپو حیدرآباد اور شعبہ اردو مہاراشٹرا اودئے گری کالج لاتور سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے