دکان
______
نیم کے سائے میں
ایک کھردرے فٹ پاتھ پر
لہکتے سورج سے پرے
شکستہ چوبی گاڑی کی زمیں پہ
ٹیڑھے میڑھے ہاتھ پاؤں میں
الجھتی حیات
غمزدہ آنکھوں کے درد
لب پہ اک خاموش کرب
منہ سے کچھ بہتے لعاب
اپنی جانب
کھینچتے ہیں
بولتے سکوں کے ڈھیر
٭٭٭
فنا کا علاقہ
_________
بہت نرم و نازک
حسیں پنکھ والی
پریشان تتلی
کبھی پتے چھو کر
کبھی چوم کر پھول
راہ بقا ڈھونڈنے میں لگی تھی
کرن آفتابی تھی دیتی دلاسا
ہوا بھی تھپکتی تھی
شفقت سے اس کو
کہ اتنے میں انسان زادہ کوئی
چپکے سے اپنی چٹکی میں لے کر
بڑے پیار سے
اس حسیں پنکھ والی
پریشان تتلی کو
دکھلا گیا ہے
فنا کا علاقہ
٭٭٭
چھوٹی سی کھڑکی
________________________
مختصر کمرے کی
ایک چھوٹی سی مغموم کھڑکی
کبھی دیکھتی ہے جو باہر کی دنیا
اداسی بہت بڑھ جاتی ہے اس کی
مگر سامنے کے ہرے لان کے پھول
چمپا چمیلی گلاب اور بیلا کی پوشاک
پہنے ہوئے مسکراتے ہوئے
رنگ و خوشبو کے لہجے میں اس کو
سناتے ہیں معصوم لمحوں کا قصہ
ہتھیلی پہ پھر انہی معصوم لمحوں کی
تحریر کرتی ہے دل کش ہنسی
ایک چہکار کوئل کی
اور جب محبت کی انگلی نزاکت سے تھامے
خراماں خراماں
انوکھا سا اک پھول اس لان پر
میرؔ کے شعر کی پنکھڑی چننے لگتا ہے
تب وقت کے قہقہوں کا
بہت خوشنما سلسلہ
ٹھہر جاتا ہے
اس مختصر کمرے کی
چھوٹی سی کھڑکی میں
٭٭٭
غزلیں
_______
چاندنی شب بھر ٹہلتی چھت پہ تنہا رہ گئی
پیار کی ہر یاد رنگیں بے سہارا ہو گئی
جوش دریا کا بنا تھا قہر کشتی کے لیے
بے بسی میں ناتواں پتوار رسوا ہو گئی
داستان زندگی کی جب کرن خاموش تھی
تب ہوا بھی سن کے چپ سارا فسانہ رہ گئی
پھول پتے جب چمن سے در بدر ہونے لگے
پر سکوں سر سبز دنیا بن کے صحرا رہ گئی
ہر گلی میں لطف کا دریا رواں تھا ساہنیؔ
میری خواہش ایسی رت میں پھر بھی تنہا رہ گئی
٭٭٭
آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس
درد کی دہلیز پر گرد سفر کے آس پاس
خار کی ہر نوک کو مجروح کر دینے کے بعد
لوٹ جانا ہے مجھے برگ و ثمر کے آس پاس
دیدنی ہیں چاہتوں کی نرم و نازک لغزشیں
گردش ایام میں شام و سحر کے آس پاس
دور اک خاموش بستی کی گلی میں دیکھنا
ہے تمنا مطمئن مخدوش گھر کے آس پاس
چھا گئی طوفان کے ہونٹوں پہ شیطانی ہنسی
دیکھ کر کشتی شکستہ سی بھنور کے آس پاس
جب کوئی روشن نشاں ملتا نہیں ہے دھند میں
ڈھونڈھتا ہوں نقش پا راہ گزر کے آس پاس
پھول پتوں کی فضا سے سج گئی دنیا مری
ہے کہاں ارماں مرا لعل و گہر کے آس پاس
بے نیازی وقت سے مجھ میں نہ قائم ہو سکی
میں سدا حاضر رہا تازہ خبر کے آس پاس
کوچۂ دل دار کا رنگیں زمانہ ساہنیؔ
آج بھی آباد ہے زخم جگر کے آس پاس
٭٭٭
بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے
مشکل میں پڑ گیا وہ ستاروں کی چال سے
خاموشیوں کی راہ پہ ہو کر کے گامزن
رکھنا کبھی نہ سوچ کا رشتہ ملال سے
امید ایسی ان سے متانت کی تھی نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے
دم خم تو کچھ نہیں تھا حقیقت کے نام پر
گھبرا گیا جہان ہماری مجال سے
کچھ مصلحت کے نام پہ چپ چاپ ہم رہے
واقف تھے ورنہ وقت کے پوشیدہ حال سے
چادر پہ آسمان کی بکھری تھی چاندنی
آراستہ زمین تھی اس کے جمال سے
تم شہر جا رہے ہو تو جاؤ مگر وہاں
ارماں ملیں گے دیکھنا بے حد نڈھال سے
افسردہ فکر تھی جو قدامت کے خول میں
شاداب ہو گئی ہے وہ روشن خیال سے
اک پتے کی بساط تمہاری ہے ساہنیؔ
مٹی میں جا ملو گے جدا ہو کے ڈال سے
٭٭٭