یہ کون آیا شبستاں کے خواب پہنے ہوئے
ستارے اوڑھے ہوئے ماہتاب پہنے ہوئے
تمام جسم کی عریانیاں تھیں آنکھوں میں
وہ میری روح میں اترا حجاب پہنے ہوئے
مجھے کہیں کوئی چشمہ نظر نہیں آیا
ہزار دشت پڑے تھے سراب پہنے ہوئے
قدم قدم پہ تھکن ساز باز کرتی ہے
سسک رہا ہوں سفر کا عذاب پہنے ہوئے
مگر ثبات نہیں بے سبیل رستوں میں
کہ پاؤں سو گئے ساقی رکاب پہنے ہوئے
٭٭٭
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا
ایک چہرہ ہے کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا
میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا
ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آئی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا
میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا
میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا
جان پیاری تھی مگر جان سے بیزاری تھی
جان کا کام فقط جان فروشی نکلا
خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چُنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہرِ معانی نکلا
میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا، وہ بھی سوالی نکلا
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
صرف حشمت کی طلب، جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا، جذامی نکلا
اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا
٭٭٭
یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
شبِ سیاہ میں اک چشمِ مار میں بھی تھا
بہت سے لوگ تھے سقراط کار و عیسیٰ نفس
اسی ہجوم میں اک بے شمار میں بھی تھا
یہ چاند تارے مرے گرد رقص کرتے تھے
لکھا ہوا ہے زمیں کا مدار میں بھی تھا
سنا ہے زندہ ہوں، حرص و ہوس کا بندہ ہوں
ہزار پہلے محبت گزار میں بھی تھا
جو میرے اشک تھے برگ خزاں کی طرح گرے
برس کے کھُل گیا، ابرِ بہار میں بھی تھا
مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی زمانے نے
یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا
سپردگی میں نہ دیکھی تھی تمکنت ایسی
یہ رنج ہے کہ انا کا شکار میں بھی تھا
مجھے عزیز تھا ہر ڈوبتا ہوا منظر
غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا
مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دیندار میں بھی تھا
برائے درس اب اطفالِ شہر آتے ہیں
حرام کارِ غنا و قمار میں تھا
میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی
درِ کمینگی پر چوبدار میں بھی تھا
وہ آسمانی بلا لوٹ کر نہیں آئی
اسی زمین پہ امید وار میں بھی تھا
٭٭٭
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
اک رات کے راہی ہیں، گزر جائیں گے اک دن
یوں دل میں اٹھی لہر، یوں آنکھوں میں بھرے رنگ
جیسے مرے حالات سنور جائیں گے اک دن
دل آج بھی جلتا ہے اسی تیز ہوا میں
اے تیز ہوا دیکھ، بکھر جائیں گے اک دن
یوں ہے کہ تعاقب میں ہے آسائشِ دنیا
یوں ہے کہ محبت سے مُکر جائیں گے اک دن
یوں ہو گا کہ ان آنکھوں سے آنسو نہ بہیں گے
یہ چاند ستارے بھی ٹھہر جائیں گے اک دن
اب گھر بھی نہیں، گھر کی تمنّا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
٭٭٭
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں، انہیں جگا دوں گا
میں آنسوؤں کو ہمیشہ ترا پتہ دوں گا
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ خاک بھی اُڑا دوں گا
ہوا ہے تیز، مگر اپنا دل نہ میلا کر
میں اس ہوا میں تجھے دور تک صدا دوں گا
مری صدا پہ نہ برسیں اگر تری آنکھیں
تو حرف و صوت کے سارے دئے بجھا دوں گا
جو اہلِ ہجر میں ہوتی ہے ایک دید کی رسم
تری تلاش میں وہ رسم بھی اٹھا دوں گا
وہ ایک لمحہ جسے کھو دیا محبت نے
اسے تلاش کروں گا، تجھے بھُلا دوں گا
وہ لفظ ہاتھ نے لکھے ہیں جو نہ لکھنے تھے
میں اس خطا پہ اسے عمر بھر سزا دوں گا
٭٭٭
درد پرانا آنسو مانگے۔ آنسو کہاں سے لاؤں
روح میں ایسی کونپل پھوٹی میں کمھلاتا جاؤں
میرے اندر بیٹھا کوئی میری ہنسی اڑائے
ایک پلک کو اندر جاؤں، باہر بھاگا آؤں
سارے موتی جھوٹے نکلے، سارے جادو ٹونے
میری خالی آنکھو بولو، اب کیا خواب سجاؤں
میرا کیسے کام چلے جب نام سے کرن نہ پھوٹے
اب کیا جینے پر اتراؤں، اب کیا نام کماؤں
اب بھی راکھ کے ڈھیر کے نیچے سسک رہی چنگاری
اب بھی کوئی جتن کرے تو جوالا مکھی بن جاؤں
٭٭٭
اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
جسموں کی رسم و راہ میں روحوں کے سناٹے نہ ہوں
ہم بھی بہت مشکل نہ ہوں تو بھی بہت آساں نہ ہو
خوابوں کی زنجیریں نہ ہوں رازوں کے ویرانے نہ ہوں
اک کاش ایسا کر سکیں آنکھوں کو زندہ کر سکیں
یہ کیا کہ دل میں گرد ہو آنکھوں میں آئینے نہ ہوں
ہیں تیز دنیا کے قدم شاید سجل چل پائیں ہم
اس بیسوا رفتار میں یادوں سے کیوں رشتے نہ ہوں
شوق فراواں سے پرے لذت کے زنداں سے پرے
اس آگ میں سلگیں ذرا جس میں کبھی سلگے نہ ہوں
٭٭٭
باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
بند آنکھوں پر کیسے کیسے منظر کھلتے ہیں
اپنے اشکوں سے اپنا دل شق ہو جاتا ہے
بارش کی بوچھار سے کیا کیا پتھر کھلتے ہیں
لفظوں کی تقدیر بندھی ہے میرے قلم کے ساتھ
ہاتھ میں آتے ہی شمشیر کے جوہر کھلتے ہیں
شام کھلے تو نشے کی حد جاری ہوتی ہے
تشنہ کاموں کی حجت پر ساغر کھلتے ہیں
ساقی پاگل کر دیتے ہیں وصل کے خواب مجھے
اس کو دیکھتے ہی آنکھوں میں بستر کھلتے ہیں
٭٭٭
جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے
تری شکست تری لکنت زبان میں ہے
ترے وصال کی خوشبو سے بڑھتی جاتی ہے
نہ جانے کون سی دیوار درمیان میں ہے
ہمیں تباہ کیا آب و گل کی سازش نے
کہ ایک دوست ہمارا بھی آسمان میں ہے
مگر یہ لوگ بھلا کس لیے اداس ہوئے
یہ کیا طلسم بہاروں کی داستان میں ہے
ہم اہل درد کو تہمت ہوئی ہے آزادی
کہ ساری عمر گرفتار ایک آن میں ہے
٭٭٭
خالی بورے میں زخمی بلا
______________________________
جان محمد خان
سفر آسان نہیں
دھان کے اس خالی بورے میں
جان الجھتی ہے
پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دل میں گڑی ہیں
اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں
چاند کے سکے چھن چھن گرتے ہیں
اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے۔۔۔
آج تمہاری ننگی پیٹھ پر
آگ جلائے کون
انگارے دہکائے کون
جد و جہد کے خونیں پھول کھلائے کون
میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں
آج سفر آسان نہیں
تھوڑی دیر میں یہ پگڈنڈی
ٹوٹ کے اک گندے تالاب میں گر جائے گی
میں اپنے تابوت کی تنہائی سے لپٹ کر سو جاؤں گا
پانی پانی ہو جاؤں گا
اور تمہیں آگے جانا۔۔۔
۔۔۔ اک گہری نیند میں چلتے جانا ہے
اور تمہیں اس نظر نہ آنے والے بورے۔۔۔
۔۔۔ اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں
جان محمد خان
سفر آسان نہیں
٭٭٭
مستانہ ہیجڑا
_______________
مولا تری گلی میں
سردی برس رہی تھی
شاید اسی سبب سے
مستانہ ہیجڑا بھی
بُسکی پہن کے نکلا
ٹینس کے بال
کستی انگیا میں
گھُس گھُسا کے
پستان بن گئے تھے
شہوت کے سرخ ڈورے
سرمہ لگانے والی
آنکھوں میں تن گئے تھے
اک دم سے
چلتے چلتے
اس نے کمر کے جھٹکے سے
راہ چلنے والے
شُہدوں، حرام خوروں
سے التفات مانگا
اور دعوتِ نظر دی
اس کے ضخیم
کولھوں نے
آگ اور لذت
خالی دلوں میں بھر دی
اس نے ہتھیلیوں کے گدّے
رگڑ رگڑ کے
وہ تالیاں اڑائیں
مہندی کے رنگ
تتلی بن کے ہوا میں
اپنے پر تولنے لگے تھے
پھر جان دار ہونٹوں
سے پان دار بوسے
چھن چھن چھلک چھلک کے
ہر منچلی نظر میں
رس گھولنے لگے تھے
وہ آج لہر میں تھا
مسّی کی چھب دکھا کے
نتھنے پھلا پھلا کے
انگلی نچا نچا کے
اس نے مزے میں آ کے
ہنس کر کہا کہ "سالو
میں تو جنم جنم سے
اپنے ہی آنسوؤں میں
ڈوبا ہوا پڑا ہوں
شاید ضمیرِ عالم کے
تنگ مقبرے میں
زندہ گڑا ہوا ہوں ”
٭٭٭
اے دل پہلے بھی ہم تنہا تھے
_________________________________
اے دل پہلے بھی ہم تنہا تھے
اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
ان زخموں سے
ان داغوں سے
اب اپنی باتیں ہوتی ہیں
جو زخم کہ سُرخ گلاب ہوئے
جو داغ کہ بدرِ مُنیر ہوئے
اس طرح سے کب تک جینا ہے
میں ہار گیا اس جینے سے
کوئی ابر اٹھے کسی قلزم سے
رس برسے میرے ویرانے پر
کوئی جاگتا ہو، کوئی کُڑھتا ہو
میرے دیر سے واپس آنے پہ
کوئی سانس بھرے میرے پہلو میں
اور ہاتھ دھرے میرے شانے پر
اور دبے دبے لہجے میں کہے
تم نے اب تک بڑے درد سہے
تم تنہا تنہا چلتے رہے
تم تنہا تنہا جلتے رہے
سنو! تنہا چلنا کھیل نہیں
چلو آؤ میرے ہمراہ چلو
چلو نئے سفر پر چلتے ہیں
چلو مُجھ کو بنا کے گواہ چلو
٭٭٭