اردو اور انگری زبان کے ممتاز شاعر اور ادبی نقاد ساقیؔ فاروقی (قاضی محمد شمشاد فاروقی) نے ترکِ رفاقت کی۔ اپنی وفا شعار کیتھولک آسٹرئین اہلیہ جسے وہ پیار سے ’ گنڈی ‘ کہتا تھا کے انتقال کے بعد وہ گزشتہ دو برس سے گوشہ نشین ہو گیا تھا اور ادبی محفلوں میں کم کم دکھائی دیتا تھا۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل وہ اس قدر ذہنی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہو گیا کہ اس کی یاد داشت بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ دائمی مفارقت دینے والے تو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیتے ہیں مگر اُن کے پس ماندگان جن جانگسل تنہائیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اس کے نتیجے میں روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے۔ ساقی فاروقی پر بھی یہ بہت سخت مقام تھا جب اس کے دِل میں غم نے مستقل ڈیرے ڈال دئیے اور پھر رفتگاں کا یہ غم اس کی جان لے کر ہی نکلا۔ پاکستانی تہذیب و ثقافت، اردو زبان و ادب اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے مصروف عمل رہنے والے ایک جری تخلیق کار کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل دہل گیا۔ اپنی طلسمی شخصیت سے ہر ملاقاتی کو اپنی مسحور کن گفتگو سے ہر ملاقاتی کو اسیرِ قیاس کرنے والا جری تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا اور اجل کی اس بے دردی کو ادبی دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
اردوزبان و ادب کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والا یہ زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہا۔ ایک ایسا خوش کلام رخصت ہو گیا جس کی تخلیقی فعالیت کا ایک عالم معترف تھا اور جس کا تخلیقی جمال گرفتِ نظر سے باہر تھا۔ معاشرتی زندگی کے تضادات، بے اعتدالیوں اورشقاوت آمیز نا انصافیوں کے خلاف وہ ایک شعلۂ جوالا ثابت ہوا۔ تحسین نا شناس کو ساقی فاروقی نے ہمیشہ ہدفِ تنقید بنایا۔ حریت فکر کے اس مجاہد نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا۔ اپنی مزاحمتی شاعری کے ذریعے ساقی فاروقی نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے مقدور بھر کوشش کی۔ فرشتۂ اجل نے اس بے خوف تخلیق کار سے قلم چھین لیا جس نے گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اُردو ادب پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ اپنے من کے غواصی کر کے زندگی کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کرنے والے اس شوخ، زیرک، فعال اور حساس تخلیق کار نے اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اردو ادب کی ثروت میں جو قابل قدر اضافہ کیاوہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مزاج کے اعتبار سے ساقی فاروقی بہت حساس اورقدرے زُود رنج سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجو دا خلاق اور اخلاص ہی اس کی مستحکم شخصیت کے امتیازی اوصاف رہے۔ ایسے پُر عزم تخلیق کار لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر جاتے ہیں۔ ریگِ صحرا پر نوشتہ وقت کی تحریریں تو سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر مٹ سکتی ہیں مگر ساقی فاروقی جیسے ذہین تخلیق کار ہر عہد میں اپنے اسلوب کی بنا پر مرکزِ نگاہ رہیں گے۔
ساقی فاروقی نے 21۔ دسمبر 1936کو گورکھ پور (اترپردیش، بھارت) میں آنکھ کھولی۔ جب بر صغیر سے بر طانوی استعمار کا خاتمہ ہوا تو ساقی فاروقی کے خاندان نے مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش )ہجرت کی اس وقت ساقی فاروقی عمر گیارہ سال تھی۔ سال 1950کے اوائل میں ساقی فاروقی کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔ کراچی پہنچنے کے بعد ساقی فاروقی نے حصول علم پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اوراُردو کالج سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد جامعہ کراچی سے بیِ اے کی ڈگری حاصل کی۔ سال 1962میں ساقی فاروقی نے کراچی سے شائع ہونے والے ایک ادبی مجلے ( ماہ نامہ نوائے کراچی )کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ کراچی میں ساقی فاروقی نے اپنے عہد کے اردو زبان کے جن ممتاز شاعروں اور ادیبوں سے معتبر ربط رکھا ان میں سلیم احمد(1927-1983)، شمیم احمد (1929-1982)، اطہر نفیس(1933-1980) اورزہرہ نگاہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ساقی فاروقی کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے۔ جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اس کی بے سروسامانی اورتہی دامنی اسے بے حرمتی کے صحراؤں کی جانب دھکیل رہی ہے تو اس نے ارضِ وطن کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔ کراچی میں پانچ سال قیام کے بعد سال 1958میں ساقی فاروقی نے بر طانیہ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا اور لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ لندن پہنچ کر ساقی فاروقی نے کمپیوٹر پر وگرامنگ میں اختصاصی مہارت حاصل کی اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آ ہنگ اسی شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ لندن میں اپنے قیام کے دوران میں ساقی فاروقی نے اقتضائے وقت کے مطابق عصری آ گہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ آئین نو سے ساقی فاروقی کو گہری دلچسپی تھی اسی جذبے کے تحت کمپیوٹر پروگرامنگ کے وسیلے سے فروغ علم و ادب پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ گزشتہ صدی کے آ ٹھویں اور نویں عشرے میں ساقی فاروقی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچی تھی۔ ساقی فاروقی لندن میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہمہ تن مصروف رہا اور زندگی بھر کے لیے اسی شہر میں ڈیرے ڈال دئیے۔ اِسی شہر میں ساقی فاروقی نے 19۔ جنوری 2018 کو داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ اس کے پس ماندگان میں ایک بیٹی ہے۔
ساقی فاروقی نے ن۔ م۔ راشد اور مجید امجد کے اسلوب کوقدر کی نگاہ سے دیکھا اوران کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کیا۔ ارد ونظم میں اس کے اچھوتے تخلیقی تجربات اور نئی اختراعات کو دیکھ کرقاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اُردو غزل میں بھی اُس نے اپنی جدت اور تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ اس کی شاعری میں برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوجز (Ted Hughes) اور جارج آر ول (George Orwell)کے خیالات کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ جنگلی جانوروں اور مختلف حیوانات کے موضوع پر ٹیڈ ہیوجز (1930-1998) اور جارج آرول (1903-1950)کی شا عری پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اردو نظم میں ساقی فاروقی نے جانوروں کی جبلت کے موضوع پر جو متنوع تخلیقی تجربات کیے وہ اس کے منفرد اسلوب کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ طنز و ظرافت سے لبریزاس کی نظمیں ’ ایک کتا ‘، ’شیر امداد علی کا میڈک ( سال تخلیق 1975) ‘، ’ ایک سّور سے ‘، ’خرگوش کی سر گزشت ‘، ’خالی بورے میں زخمی بِلّا ‘ اور ’ حاجی جان محمد خان سفر آسان نہیں ہے ‘گہری معنویت کی حامل ہیں۔ بچوں کی نفسیات، تجریدی مصوری، حیوانات، حشرات، نباتات، غیر مانوس موضوعات، منفرد پیرایۂ اظہار اور طلسمی حقیقت نگاری میں اسے بہت دلچسپی تھی۔ ساقی فاروقی کی نظموں میں حشرات، نباتات، حیوانات، پیشوں اور بیشوں کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب عوامل تخلیق فن کے لمحوں میں اُس کی ذات کاحصہ بن جاتے ہیں۔ اس نے معاشرتی زندگی کے تضادات، اجنبی موضوعات اور نا مانوس مخلوقات کے حوالے سے حیات و کائنات کے سر بستہ رازوں کی تفہیم پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ساقی فاروقی کی نظموں میں جہاں تک حیوانات کے ذکر کا تعلق ہے انھیں محض جانوروں، درندوں یا حشرات کے بارے میں تاثرات پر محمول کرنا صحیح نہیں بلکہ انھیں وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ حیوانات کے موضوع پر ساقی فاروقی کی شاعری ٹیڈ ہیوجز اور جارج آرول سے کہیں بڑھ کر موثر اور معنویت سے لبریز ہے۔ ساقی فاروقی نے حیوانات کے موضوع پر اپنی شاعری میں اس عہدِ نا پُرساں کی لرزہ خیز بے حسی، جان لیوا ہوس اور اعصاب شکن خود غرضی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اپنے عہد کے مسائل میں اُلجھے ہوئے اِنسان کو در پیش مصائب و آلام اور کشکمشِ روزگار کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے ساقی فاروقی نے جس حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا ہے وہ اس کے منفرد اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ ساقی فاروقی کی شاعری میں چاہت، اضطراب اور اشتعال کے امتزاج سے عجب سماں پیدا ہو گیا ہے۔
دامن میں آنسوؤں کاذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے گِریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھُوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردا نہ کر ابھی
یہ خامشی کا زہرنسوں میں اُتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے عِلم کی پر چھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی
آگ ہو دِل میں تو آنکھوں میں دھنک پیدا ہو
روح میں روشنی لہجے میں چمک پیدا ہو
ابھی نظر میں ٹھہردھیان سے اُتر کے نہ جا
اِس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا
ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بِچھڑ کے زندہ رہے مر نہیں گئے
خواب کودِن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ
نیند پر تکیہ نہ کر شب کو مسیحا نہ سمجھ
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار مِلے
اِس خرابے میں کہاں خواب کے آثار مِلے
یہ کیا کہ زہرِ سبز کا نشہ نہ جانیے
اب کے بہار میں ہمیں افسانہ جانیے
چشمِ خالی میں قحطِ گوہر تھا
رِزقِ دامن مگر میّسر تھا
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹُو ٹتا جاتا ہے آواز سے رِشتہ اپنا
فکر و خیال کی وادی میں مستانہ وار گھُومنے والے اس جری تخلیق کار نے اپنے جذبات، احساسات، کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے اور ذہن و ذکاوت کی بصیرتوں کو صیقل کرنے کے سلسلے میں جو متنوع تجربات کیے وہ اس کی انفرادیت کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ اردو شاعری میں اسلوب اور ہئیت کے تجربات کرنے کا جو سلسلہ ن۔ م۔ راشد، میراجی اورمجید امجد نے شروع کیا ساقی فاروقی نے اُسے زادِ راہ بناتے ہوئے جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں کیں۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اس کی جدت پسند طبیعت نے وہ گُل کھلائے کہ قاری کے دِل پر جہانِ تازہ کے موسم اُترنے لگے۔ اردو ادب میں تانیثیت کے حوالے سے ساقی فاروقی نے اپنے عہد کی جن خواتین تخلیق کاروں کی ادبی خدمات کا برملا اعتراف کیا ان میں ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید شامل ہیں۔ اسلوب اور ہئیت کے تجربات کے علاوہ ساقی فاروقی نے جذبات، احساسات اور فکر و خیال کے گیسو سنوارنے اور انھیں نئی تاب و تواں عطا کرنے کی غرض سے متعدد تجربات کیے۔ اس کے افکار کی بو قلمونی سے جو دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا وہ اس کی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے اسلوب میں تراکیب، استعارے، علامات، تشبیہات، محاورات، اشارات، تلمیحات اور انداز بیان کے جملہ نقوش میں جدت ہی اس کی انفرادیت کی پہچان ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ساقی فاروقی نے اپنی ذات سے وابستہ آہنگ اور اپنے دبنگ لہجے سے عصری آ گہی کو پروان چڑھانے کی جو مساعی کیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور تاریخ ہر دور میں اس کی ادبی کامرانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔
ساقی فاروقی کے ممتاز معاصرین میں آل رضا، ارشد لطیف، ادیب سہارن پوری، ارم لکھنوی، بہزاد لکھنوی، تابش دہلوی، ڈاکٹر جاوید شیخ، شمس زبیری، صبا اکبر آبادی، ذوالفقار علی بخاری، فضل احمد کریم فضلی، محشربدایونی، شاہد عشقی، قمر ہاشمی، حبیب جالب، میراجی، ن۔ م۔ راشد، فیض احمد فیضؔ، رسا چغتائی، زہرہ نگاہ اور یشعب تمنا شامل ہیں۔ ساقی فاروقی کا خیال تھا کہ ن۔ م۔ راشد نے جدید اُردو نظم کو جو نیا آ ہنگ عطا کیا اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ وقت، اظہارِ ذات اور لسانی حوالے سے ساقی فاروقی نے تقلید کی روش سے بچتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے لیے طبع زاد موضوعات، چونکا دینے والی نُدرت اور مسحور کن اثر آفرینی کی اساس پر استوار ایک ایسا منفرد اسلوب وضع کیا جواس کی ذات کی پہچان بن گیا مثلاً اس کی نظمیں ’ کالے بورے میں زخمی بِلّا ‘ اور ’مستانہ ہیجڑا ‘ پڑھ کر قاری ایک نئے اسلوب سے متعارف ہوتا ہے۔ اسی قسم کے موضوعات پر اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا کر ساقی فاروقی نے اردو ادب کو عہد قدیم کے مسلط کردہ جمود اور بیزار کُن یکسانیت، پامال راہوں کی دھُول اور کلیشے کی مسموم فضا سے نجات دلائی اور اپنے منفرد اسلوب کے وسیلے سے اُردو ادب کو جدیدیت کے حصار سے نکال کر ما بعد جدیدیت سے آ نکھیں چار کرنے کا ولولہ عطا کیا۔
اے ہوائے خوش خبر اب نویدِ سنگ دے
میری جیب و آ ستیں میرے ہی خوں میں رنگ دے
ساقی فاروقی کی انگریزی اوراردو زبان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
۱۔ انگریزی زبان میں شعری مجموعہ Nailing Dark Storm
۲۔ پیاس کا صحرا،
۳۔ رادار،
۴۔ بہرام کی واپسی،
۵۔ حاجی بھائی پانی والا اور دوسری نظمیں،
۶۔ غزل ہے شرط،
۷۔ سرخ گلاب اور بدر منیر (کلیات، سال اشاعت 2005)،
۸۔ زندہ پانی سچا پانی ( تمام تخلیقات و مخطوطات )،
۹۔ باز گشت و باز یافت (تنقید )،
۱۰۔ ہدایت نامہ شاعر (تنقید)،
۱۱۔ آپ بیتی پاپ بیتی (خود نوشت )
۱۲۔ رات کے مسافر
ساقی فاروقی کی نظموں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ’’ A Listening Game ‘‘ کے عنوان سے فرانسس ڈبلیو بریخت(Frances W. Pritchett) نے کیا۔ تراجم کی یہ کتاب چھیاسی صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں قابل مطالعہ موضوعات کی کثرت ہے۔ یہ وقیع کتاب سال 1987میں لندن سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی ترتیب اور انتخاب میں شمس الر حمٰن فاروقی نے گہری دلچسپی لی۔ اس کی خود نوشت ’ آپ بیتی پاپ بیتی ‘ پہلے قسط وار کراچی کے ادبی مجلے ’مکالمہ ‘ اور ممبئی کے مجلے ’ نیا ورق ‘ میں قسط وار شائع ہوئی۔ اس کے بعد جنوری 2008میں اکادمی باز یافت، کراچی کے زیر اہتمام یہ خود نوشت کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ ساقی فاروقی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک متنازع نقاد ہے اور اس کی تنقیدی آرا میں دِل آزاری کا پہلو قاری کو شدت سے کھٹکتا ہے۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کراُردو زبان کے اکثر معاصر شعرا کے بارے میں ساقی فاروقی کا روّیہ حیران کن حد تک معاندانہ رہا۔ وہ ان شعرا کو ’ جھٹ بھئے ‘، ’چپڑ قناتی ‘ یا ’ شاہ دولہ کا چوہا ‘ کہہ کر مخاطب کرتا تو معاصرانہ چشمک کا مظہر یہ اندازِ تخاطب قارئین کے ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا۔ تنقید میں ساقی فاروقی کے اہانت آمیز جارحانہ انداز کی بنا پر خالد احمد نے اُسے اُردو کا خود کُش بمبار قرار دیا تھا۔
وقت کے ستم بھی عجیب رنگ دکھاتے ہیں، وہ تخلیق کار جس کے خمیر میں دہلی، کراچی اور لاہور کی مہک شامل تھی وہ لندن کے مخصوص ماحول کی ذہنی اور جنسی آزادی میں اس طرح کھو گیا کہ مٹی کی محبت بھول گیا۔ لندن میں اپنے قیام کے دوران میں ساقی فاروقی مغرب کے آزاد خیال معاشرے اور ہنگامہ خیز زندگی کا خاموش تماشائی بننے کے بجائے اس کاجزو بن گیا۔ حیف صد حیف کہ دنیا کے آ ئینہ خانے کے ہوش ربا حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ وہ خود تماشا بن گیا۔ اس سے قبل لندن میں ن۔ م راشد اور ڈاکٹر داؤد رہبر زینۂ ہستی سے اُترنے کے بعد جس طرح رنگ چمن کو شعلہ شعلہ کر گئے تھے اسی انداز میں مرہم بہ دست رہنے والے ساقی فاروقی نے بھی عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیا اور اس کے سفر آخرت کا سانحہ بہت دِل دُکھا گیا۔
موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا
میرے اندر آج کسی نے جینا چھوڑ دیا
بس تتلی کا کچا کچا رنگ آنکھوں میں ہے
زندہ رہنے کی خواہش نے پیچھا چھوڑ دیا
٭٭٭