کل میری لڑائی ہو گئی، لڑائی بھی کس سے دودھ والے سے۔ یہ سن کر آپ لوگ یہ مت سوچئے گا کہ میں ایک لڑاکا قسم کی گھریلو عورت ہوں۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ یہ شخص جو اپنے گاؤں ( جو یہاں سے دس بارہ کیلو میٹر دور ہے )سے آ کر ہمارے شہر اور ہماری کالونی کے لوگوں کو دودھ دیتا ہے۔ کافی سالوں سے، تب سے جب دودھ کی قیمت بارہ روپے لیٹر ہوا کرتی تھی۔ اتنے سالوں سے اسے روزانہ دیکھ دیکھ کر اب ایسا لگتا ہے جیسے وہ بھی ہماری زندگی کا ایک لازمی جزو ہو۔ جیسے ہم اپنے سروں پر آسمان دیکھتے ہیں، صبح اور شام کو دیکھتے ہیں، آس پاس کے پیڑ اور پودوں کو دیکھتے ہیں، اپنی ہر مصروفیت میں احساس کی آنکھیں موند کر بہت سی چیزوں کو بس ہم اوپر سے دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اور زندگی نامی مشین کو چلانے کے لیے ہم سمیتیہ سارے کل پرزے ہمہ وقت مصروف کار رہتے ہیں۔ اپنی اپنی جگہ پر فٹ، ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ پر مشین کے پرزے ایک دوسرے کے لیے کتنے بھی ضروری ہوں ان میں احساس کا رشتہ نہیں ہوتا۔ اور اس سچائی کا احساس مجھے آج اچانک اس لڑائی کے بعد ہوا ہے۔ کیونکہ آج تک میں ایک غلط فہمی کا شکار تھی وہ یہ کہ۔۔۔ وہ ایک بہت اچھا اور سادہ لوح انسان ہے، جو اس بے ایمانی کے زمانے میں بھی ہمیں خالص دودھ لا کر دیتا ہے۔ اور ہما رے بچوں کی صحت کا محافظ ہے۔ اس لیے میں ہمیشہ اس کی ممنون رہتی تھی حالانکہ اپنی ممنونیت کا اظہار کرنے کی میں نے کبھی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہاں کچھ کچھ عرصے کے بعد جب وہ دودھ کی قیمت میں اضافہ کرتا تو میں کالونی کے دوسرے لوگوں کی طرح کبھی اس سے جرح نہیں کرتی اور اس کی مانگ مجھے جائز لگتی۔ پھر دھیرے دھیرے مجھے بھی اس کی مانگ ناجائز لگنے لگی کیونکہ قیمت بڑھوانے کا وقفہ کم ہو گیا تھا۔ وہ اب ہر کچھ دن بعد مہنگائی کا رونا شروع کر دیتا جو قیمت میں اضافے کی تمہید ہوتا، مگر” نہ جایے رفتن نہ پائے ماندن” والی مثل تھی اور ہم یہ سوچ کر خاموش رہ جاتے کہ چلو دودھ تو خالص ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ وقت بھی آ گیا کہ قیمت میں اضافے کے باوجود دودھ کی اپنی صحت خراب سے خراب تر ہوتی گئی، اسے میں ہی نہیں کا لونی کے دوسرے لوگ بھی وارننگ دینے لگے مگر نہ جانے کہاں سے وہ اپنی قلب ماہئیت کرا چکا تھا کہ اس پر کسی کی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا وہ نہ جانے کہاں سے اپنے لیے بہت سارے حق کے سوال سیکھ کر آ گیا تھا، حق کا سوال کرنا کوئی غلط تو نہیں مگر جب آپ خود یہی سوال اٹھانا چاہیں تو کیسی بے بسی کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ آپ کا یہ سوال سننے والا کوئی نہیں ہوتا، — مثلاً سرکار کہتی ہے کہ آدھار کارڈ بنوانا آپ کا حق ہے اور اس حق سے سبسیڈیز حاصل کرنا بھی آپ کا حق ہے، خیر سرکاری مراعات ہوں یا سماجی حقوق جب آپ یہ لینے کی سوچیں تو کیا ہوتا ہے۔۔۔ بھیڑ بکریوں کی طرح لائین میں لگ کر آپ آدھار کارڈ بنوا نے نکلیں تو یہ بھول جائیں کہ آپ انسان ہیں اور یہ نہ بھولنا چاہیں تو حق لینا بھول جائیں۔ اسی طرح اگر کبھی آپ کے یہاں چوری ہو جائے تو ایف آئی آر لکھواتے وقت پولس آپ سے سوال کرے گی آپ اپنا بٹوہ لے کر نکلیں کیوں؟، آپ نے سونا پہنا ہی کیوں؟آپ نے اپنے گھر میں اتنا سامان جوڑا ہی کیوں، پھر اتنے سوال کے بیچ آپ یقیناً اپنا کیوں بھول جاتے ہیں، آپ وہاں بھی بے بس محسوس کرتے ہیں جب کسی کرپٹ سیاستدان کو بڑی بڑی باتیں کرتے ہوئے اور ہر سیاہ کو سفید کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور کیا آپ اس وقت حق کا سوال اٹھانا نہیں چاہتے جب ہر طرف رشوت خوری اور کالا بازاری کے لیے ملک میں بڑی بڑی تحریکیں چاہے چل رہی ہوں مگر آپ کا کوئی کام بغیر رشوت کے انجام نہ پا تا ہو، مثالیں تو بہت ہیں مگر یہ سارے حقوق یا اس سے جڑے سوالات ایک انپڑھ دودھ والے کی سمجھ سے بالاتر تھے اس لئے اس وقت اصل موضوع کی طرف آ جانا چاہیے – تواس دودھ والے کے لئے کم سے کم میں یہ سوچنے لگی تھی کے مشین کے اس پرزے کو اب بدل دیا جائے مگر مشکل یہ تھی کے اس پرزے کو بدلا تو تب جاتا جب اس کا نعم البدل کوئی بہتر پرزہ دستیاب ہوتا۔ بہرحال قصہ کوتاہ یہ کہ قیمت بڑھتے بڑھتے پچاس روپے لیٹر تک پہنچ گئی اور دودھ کا ذائقہ پانی سے مشابہت رکھنے لگا۔ میرا ضبط کئی بار جواب دے جاتا اور میں اس سے بحث پر آمادہ نظر آتی تو میرے بچّے یا شوہر بیچ میں آ جاتے اور میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتی۔ میں یہ بھی محسوس کر رہی تھی کہ وہ اپنی بے ایمانی کی پردہ پوشی کے لیے خاصہ چرب زبان بھی ہو گیا ہے۔ اور آخر کار اس کی چرب زبانی اور میرا غصہ ایک دن ٹکرا ہی گیے اور ہماری لڑائی ہو گئی، مگر ہماری لڑائی کسی فیصلے پر ابھی نہیں پہنچی ہے اس لڑائی کو کچھ منصف چاہیے۔ اس لیے میں اپنا کیس آپ جیسے دانشوروں کے پاس لائی ہوں، تمہید تو آپ نے سن لی اب مقدمہ بھی سن لیں۔ اس چرب زبان دودھ والے کا کہنا ہے۔۔۔ چھوڑیے یہ آپ کو اندازہ ہے کو وہ اپنی صفائی میں کیا تاویلیں پیش کرتا ہو گا، مگر میرا کہنا یہ ہے کہ ٹھیک ہے کہ مہنگائی ہے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ بہت محنت کرتا ہے، اور دو پیسے کمانے کے لئے کرتا ہے۔ میں یہ بھی مان گئی کہ دودھ اس کی ملکیت ہے وہ جو چاہے کرے۔ مگر میں نے اس سے صرف ایک سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ تم دودھ کے ساتھ جو کرو وہ تمہارا حق ہے پر وہ دودھ جو میں چائے بنانے کے لئے لیتی ہوں اسچائے میں پانی ملانا تو میرا حق ہے تو تم نے یہ حق مجھ سے بلکہ ہم سب سے کیسے چھین لیا ہے۔ اگر اسے اپنے حق کا اتنا خیال ہے تو کیا ہمارے اس ایک حق کا اسے بھی خیال نہیں رکھنا چاہیے کہ چائے میں پانی ہم اپنی مرضی سے کم یا زیادہ ملا سکیں۔ یہ کوئی ایسا بھاری بھرکم سوال تو نہیں جو ایک انپڑھ شخص نہ سمجھ سکے مگر میرے اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں، اسی لئے وہ ہونقوں کی طرح مجھے دیکھ کر ایک خجالت بھری مسکراہٹ کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔
٭٭٭