ارادہ ۔۔۔ شہناز نبی

ہتھیلیوں کی سبھی لکیریں جلا رہی ہوں
تمہارے سر کی قسم ہے مجھ کو
نہ اب لکھوں گی فلک پہ کوئی سوالنامہ
نوشتے کو میں قبول کر لوں گی سر جھکا کر
تمہارے آقاؤں کی حکمت پہ نہ ہنسوں گی
نہ پوچھوں گی کہ ہواؤں میں کیا سلگ رہا ہے
نہ خواب دیکھوں گی دن چڑھے تک
نہ رات جاگوں گی وسوسے میں
نہ پوچھوں گی اس ادھورے نقشے کا کیا بنا ہے
جسے بنانے میں تم نے راتیں گنوائیں کتنی
جسے سجانے میں اپنے دل کو گھلایا میں نے
وہ گھر جو اب بھی ادھورے کاغذ کی سلوٹوں میں
وہ چھاؤں اب بھی تمازتوں سے الجھ رہی ہے
مگر نہ پوچھوں گی تم سے کچھ بھی
مری ہتھیلی دھری ہے لو پر
قسم ہے مجھ کو تمہارے سر کی
تمہیں خجالت میں دیکھنے کا نہیں ارادہ
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے