حسین اور دل کش الفاظ کے ذریعے اسالیب کے تاج محل تعمیر کر کے ان میں زندگی بسر کرنا اور یہاں فکر و خیال، رنگ، خوشبو، حسن و خوبی اور متنوع اصنافِ ادب کی محفل سجا کرسمے کے سم کے ثمر کا تریاق تلاش کرنا ہر دور میں پرورشِ لوح و قلم کرنے والوں کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مکتوب نگاری کی سحر نگاری کا ایک عالم معترف ہے۔مکتوب نگار جب قلم تھام کر اپنی قلبی کیفیات کو مکتوب کی صورت میں پیرایۂ اظہار عطا کرتا ہے تو اسلوب کی تاثیر کا کرشمہ دامن دِل کھینچتا ہے۔قلبی، روحانی اور وجدانی کیفیات سے لبریز مکتوبات جامد و ساکت پتھروں، بے حس مجسموں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتے ہیں۔یاس و ہراس کے اعصاب شکن ماحول میں ستم کشِ سفر رہنے والے الم نصیبوں کا سینہ و دِل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو مکتوبات حوصلے اور امید کی شمع فروزاں کر کے اورعزم و استقلال کا علم تھام کر ہجومِ غم میں دِل کو سنبھالتے ہوئے سُوئے منزل رواں دواں رہنے پر مائل کرتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں یہ حقیقت کھُل کر سامنے آتی ہے کہ جس وقت مادی یاجسمانی رفاقتیں ہوس اور ذاتی مفادات کے بگولوں میں اوجھل ہو جائیں اس وقت مکتوبات جان لیوا تنہائیوں کا مداوا کرتے ہیں اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مکتوب نگاری شخصیت کی کلید ہے جو مکتوب نگار کی داخلی کیفیات کو اس انداز سے پیش کرتی ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ابد آشنا تاثیر سے متمتع اس صنفِ ادب کو ہر عہد میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔مشاہیر کے مکتوبات کے مطالعہ سے قاری مکتوب نگار کے ساتھ زمان و مکان کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی قلبی اور روحانی ہم آ ہنگی محسوس کرتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔قاری چشمِ تصور سے ان تمام موسموں کی بہار یا خزاں کے مناظر کو دیکھ سکتا ہے جو خط لکھتے وقت مکتوب نگار کے دِل پر اُترے۔
اردو ادب کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ طور صنف ادب متعارف کرانے میں اولیت کا اعزاز مرزا رجب علی بیگ سرورؔ(1785-1869) کو ملتا ہے۔تاریخ ادب اردو میں اگرچہ یہ خطوط اپنی قدامت اور اوّلیت کی بنا پر قابل ذکر ہیں لیکن تخلیقی تنوع، موضوعاتی ندرت اور بر جستگی کے اعتبار سے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور موضوعاتی شگفتگی اورہمہ گیری کا کوئی قابل قدر پہلو سامنے نہ لا سکے۔تاریخِ ادب اردو سے دلچسپی رکھنے والے قارئینِ ادب اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ اُردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ حیثیت ایک موثر اور ہر دل عزیز صنفِ ادب متعارف کرانے کا سہرا مرزا اسداللہ خان غالبؔ(1797-1869) کے سر ہے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے مکاتیب گلشنِ اردو میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے، جن کی عطر بیزی سے صحنِ چمن مہک اٹھا اور اس صنفِ ادب کی مہک سے آج بھی قریۂ جاں معطر ہے۔ غالبؔ نے اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز 1846 یا1848کے دوران کیا۔اس طرح اردو زبان کو اس مکتوب نگاری کے اعجاز سے نئے آفاق تک رسائی کی نوید ملی۔غالبؔ کی مکتوب نگاری اردو نثر کے فروغ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اپنے دل کش اسلوب سے غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔مشاہیر کے مکاتیب تاریخ، تہذیب، ثقافت اور درخشاں اقدار و روایات کے امین ہوتے ہیں۔غالبؔ نے اپنے مکاتیب میں اپنی دلی کیفیات، سچے جذبات اور حقیقی احساسات کے اظہار کے لیے جس طرزِ خاص کا انتخاب کیا وہ بعد میں آنے والے تخلیق کاروں کے لیے لائق تقلید بن گئی۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہر صنفِ ادب میں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعارے، مسحور کُن اثر آفرینیاں، لاتعداد رنگینیاں، رعنائیاں، دلچسپیاں اور دلکشیاں موجود ہوتی ہیں۔ہر زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے افکار کی جولانیوں سے وہ دِل آویز فضا پیدا کرتا ہے جس کا کرشمہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ مطالعہ ادب سے کار زارِ ہستی کے بارے میں متعدد نئے امکانات، رجحانات، ارتعاشات اور ممکنات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ادب کے وسیلے سے راحتیں، چاہتیں، وفا اور جفا، ہجر و فراق، منزلیں اور راستے، نشیب و فراز اور طرز فغاں کے متعلق علامات سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مددملتی ہے۔ہر صنف ادب کی دل کشی اپنی جگہ لیکن جو تاثیر، بے تکلفی اور مسحورکن اثر آفرینی مکاتیب میں پنہاں ہے اس میں کوئی اور صنف ادب مکاتیب کی شریک و سہیم نہیں۔ خطوط کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے صالحہ عابد حسین نے لکھا ہے :
’’ادب میں سیکڑوں دل کشیاں ہیں۔اس کی بے شمار راہیں اور ان گنت نگاہیں ہیں لیکن خطوں میں جو جادو ہے (بشرطیکہ لکھنا آتا ہو )وہ اس کی کسی ادا میں نہیں۔‘‘(1)
اُردو زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا تخلیق کارہر دور میں غالبؔ کے مکاتیب کی نثر کو اپنے اسلوب کی اساس بنائے گا۔اگر اردو زبان و ادب کے شیدائی یہ چاہتے ہیں کہ اردو کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن کی شگفتگی ہجوم یاس میں دل کو سنبھالنے اور مسکراتے ہوئے کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے پر مائل کرے تو انھیں بلا تامل غالبؔ کے مکاتیب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔مکاتیب کی ہمہ گیر اثر آفرینی اور دل کشی کے سحر سے بچنا محال ہے ایک با صلاحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی روّیے کو جس فنی مہارت سے آفاقی نہج عطا کرتا ہے وہ اسے ابد آشنا بنا نے کا وسیلہ ہے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے بعد جن مشاہیر ادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان میں سر سید احمد خان، مولانا محمد حسین آزادؔ، خواجہ الطاف حسین حالیؔ، علامہ شبلی نعمانی، محسن الملک، وقار الملک، ڈپٹی نذیر احمد، سید اکبر حسین اکبرا ؔلہ آبادی، نواب مرزا خان داغ ؔدہلوی، امیر مینائی، ریاض خیر آبادی اور سید علی ناصر کے نام قابل ذکر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو میں مکتوب نگاری کو ایک مضبوط، مستحکم اور درخشاں روایت کا درجہ حاصل ہو گیا۔اس کے ابتدائی نقوش تو غالبؔ کے ہاں ملتے ہیں لیکن اردو زبان کے ارتقا کے کے ساتھ ساتھ اس میں متعد نئے لکھنے والے تخلیق کار بھی شامل ہوتے چلے گئے۔اردو زبان میں مکتوب نگاری کی روایت کو استحکام دینے اور مکاتیب کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں بعد میں جن نامور ادیبوں نے حصہ لیا ان میں ابو الکلام آزادؔ، علامہ محمد اقبال، مہدی افادی، مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی، نیاز فتح پوری، مولانا محمد علی جوہرؔ، خواجہ حسن نظامی، عبدالماجد دریا بادی اور محمد علی ردولوی کی خدمات تار یخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں ان تمام مشاہیر ادب نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
بر صغیر میں 1936میں شروع ہونے والی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر فکر و نظر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔برصغیر میں افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لینے کا رجحان تقویت پکڑنے لگا۔اردو زبان کے ادیبوں نے جدید علوم اور نئے تصورات پر توجہ دی۔اس زمانے میں نفسیات کے زیر اثر حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا عمیق مطالعہ تخلیقی عمل کی اساس بن گیا۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں اردو مکتوب نگاری پر اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔تخلیقِ ادب کے نئے رجحانات سامنے آئے ان کے زیر اثر اردو کے جن نابغہ روزگار ادیبوں نے مکتوب نگاری کے ذریعے تزکیۂ نفس کے امکانات سامنے لانے کی سعی کی ان میں جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، سید سجاد ظہیر، صفیہ اختر، اور ڈاکٹر ایم۔ڈی تاثیر کے نام ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ اصناف ادب کے ارتقا کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ہمیشہ کلیدی اہمیت کی حامل صنف ادب سمجھا جاتا رہا ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کے اعلا معیار کے ادبی مجلات نے مختلف اوقات میں جو مکاتیب نمبر شائع کیے انھیں قارئین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ادبی مجلات کے مکاتیب نمبر میں سے کچھ حسب ذیل ہیں :
1۔ادبی مجلہ ایشیا، مکاتیب نمبر، بمبئی، 19412
2۔ادبی مجلہ آج کل، خطوط نمبر، دہلی، 1954
3۔ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلد اول ,1957
4۔ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلد دوم، 1968
ماضی میں اردو زبان کے کئی ادیبوں نے اپنے پاس محفوظ مشاہیر کے مکاتیب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے نام مشاہیر ادب نے جو مکاتیب ارسال کیے وہ انھوں نے اپنی زندگی میں ’’مکتوبات معاصرین ‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیے۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے اپنے پاس محفوظ مشاہیر کے تمام مکاتیب کو سکین (Scan)کر نے کے بعد انھیں انٹر نیٹ کی ویب سائٹ کی زینت بنا دیا ہے۔یہ سیکڑوں مکاتیب جو مکتوب نگاروں کے اپنے انداز تحریرمیں ہیں دنیا بھر میں موجود اردو زبان و ادب کے قارئین کے لیے ایک منفرد تجربے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ مکتوب نگار کو اپنے جذبات، احساسات اور داخلی کیفیات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے جو مواقع میسر ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات قلم و قرطاس کے معتبر حوالے سے نہایت راز داری سے بلا خوف و خطر کر سکتا ہے۔مراسلہ ایک طرح کا مکالمہ بن جاتا ہے اور اس تخلیقی عمل کے معجز نما اثر سے مکتوب نگار اپنی افتاد طبع کے مطابق مکتوب الیہ سے بہ زبان قلم باتیں کر کے جانگسل تنہائیوں کے کرب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔اگر مکتوب نگاری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر شامل ہو تو مکتوب نگار ہجر و فراق کی عقوبت سے بچ کر خط کے ذریعے وصال کے نشاط آمیز لمحات سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے تحلیل نفسی کے سلسلے میں کسی بھی شخصیت کی داخلی کیفیات، جذباتی ہیجانات اور طور طریقوں کے جملہ اسرار و رموز کی تفہیم میں مکتوبات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔مکاتیب ہی در اصل مکتوب نگار کی شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید ہیں۔شخصیت کی تمام گتھیاں سلجھانے میں خطوط کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔یہ مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز، جذباتی میلانات، مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز اور اس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے جو کچھ پیغام ارسال کرتا ہے وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے۔مکتوب نگاری ایک ایسافن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے۔ حیات و کائنات کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔مکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہے۔صنف مکتوب نگاری کے بارے میں ڈاکٹر خورشیدالاسلام نے لکھا ہے :
’’ زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے۔خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے۔۔۔زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے۔‘‘(2)
انسانی زندگی میں مدوجزر کی کیفیت ہمیشہ بر قرار رہتی ہے۔ایک تخلیق کار کا روّیہ بھی عجیب ہوتا ہے کبھی سوز و ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی والا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو کہ تخلیق کار کی زندگی میں اس کا اوڑھنا بچھونا بن کر اسے ہمہ وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔اس کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے تمام حقیقتیں سراب اورخواب بن جاتی ہیں اور جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ کئی حقائق اورصداقتوں پر فریب نظرکا گمان گزرتا ہے لیکن در اصل یہ سب سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح وہ بالآخر ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی صداقتیں ایک لمحے کے لیے بھی مکمل طور پر غائب نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ اپنے وجود کا اثبات کرتی رہتی ہیں۔مشاہیر کے مکاتیب بھی اس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں۔ان کی اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ ان کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ان میں اپنی نجی زندگی کے تمام موسم اُترتے محسوس ہوتے ہیں۔دل سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی بہ ہر حال مسلمہ ہے۔مکتوب نگار کی تابِ سخن کے اعجاز سے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قلب و روح کیا تھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے پُر خلوص جذبات کا یہ سیلِ رواں آلام روزگار کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے۔ بے لوث محبت، دردمندی، انسانی ہمدردی اور پُر خلوص جذبات سے مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی ترجمانی پر قادر ہے۔مکتوب نگار اپنے شعوری غور و فکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا ہے۔بادی النظر میں مکتوب نگاری کی حدیں جذبۂ انسانیت نوازی سے ملتی ہیں۔ان دونوں میں مقاصد کی ہم آہنگی فکر و خیال کو مہمیز کر کے سعی ٔ پیہم پر مائل کر کے جہد و عمل کے نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے۔مکتوب نگارجہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے وہاں زندگی کے متعدد تُند و تلخ حقا ئق اورتاریخی واقعات کو بھی منصہ شہود پر لاتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار تخلیقِ ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی عکاسی کرنے والے جملہ پہلو سامنے لاتا ہے اور اس طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔وہ جانتا ہے کہ خزاں، بہار اور باراں کے آنے جانے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور قلب و روح پر اترنے والے تمام موسم دل کے کھلنے اور مر جھانے کی کیفیات ہی سے عبارت ہیں۔مکتوب نگاری ذوقِ سلیم کی مظہر ہے۔ایک زیرک، حساس اور با شعور مکتوب نگار اپنے اسلوب کے ذریعے قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے اپنے ذوق مکتوب نگاری کے متعلق ایک شعر میں صراحت کی ہے۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب
ستم زدہ ہوں مگر ذوقِ خامہ فرسا کا
جدید دور میں اردو ادب میں مکتوب نگاری نے ایک درخشاں، مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔مرزا اسدللہ خان غالبؔ سے لے کر عہد حاضر تک اردو ادیبوں نے اپنے خطوط کے وسیلے سے مسائل زیست کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔سادگی و سلاست، خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔مکتوب نگاری میں تکلف، تصنع، مافوق الفطرت عناصر، ما بعد الطبیعات، خوابوں کی خیاباں سازی، ملمع کاری، ریاکاری اور موقع پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔مراسلے کو مکالمہ بناتے وقت دل کی بات قلم کے وسیلے سے پوری دیانت اور صداقت سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے۔ حریت فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے حرف صداقت لکھنا اس تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر ہے۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہِ راست زندگی سے ہوتا ہے۔جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں اسی طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے شپرانہ چشم پوشی احسان فراموشی کے مترادف ہے۔مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اس مسحور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔خطوط کے ذریعے احساس، ادراک، وجدان اور عرفان کی جو متاعِ بے بہا نصیب ہوتی ہے اس میں کوئی اور صنف ادب اس کی برابری نہیں کر سکتی۔تخلیق کار، اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کی اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے توزیرک محقق اور جری نقاد کو تخلیق کار کے مکاتیب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔جب بھی کسی تخلیق کار کی حیات و خدمات پر تحقیقی کام کا آغاز ہوتا ہے تو محقق اس کے مکاتیب کو اولین ماخذ کے طور پر اپنے تحقیقی کام کی اساس بناتا ہے۔ شگفتگی، شائستگی، صداقت، خلوص، دردمندی اور انسانی ہمدردی مکاتیب کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے عناصر ہیں۔وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اقدار و روایات کے معائر بدلتے رہتے ہیں لیکن مکاتیب کی دل کشی اور دل پذیری کا معیار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے۔محبتوں، چاہتوں، قربتوں اور عہد و پیمان کے امین خطوط کی اہمیت ہر دور میں موجود رہے گی۔دورِ جدید میں برقی ذرائع ابلاغ نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ای میل، ایس۔ایم۔ایس، ٹیلی فون اور فیکس نے فاصلوں کی طنابیں کھینچ دی ہیں اور ماضی کی سست رو مواصلات کو قصۂ پارینہ بنا دیا ہے۔ اب تو بہ زبان قلم باتیں کرنے کے بجائے انٹر نیٹ پر پہروں بالمشافہ بات چیت کی جاتی ہے۔ مواصلات میں اِن محیر العقول ایجادات کے باوجود خطوط کی ترسیل کا سلسلہ پیہم جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہیں
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
مجھے یہ جان کر دِلی مسرت ہوئی کہ گزشتہ چار عشروں میں ممتاز ادیب پروفیسر غازی علم الدین کے نام لکھے جانے والے 191 مشاہیر کے مکاتیب ستمبر 2016 کتابی صورت میں شائع ہو گئے ہیں۔یہ کتاب فیصل آباد سے ’’مثال پبلشرز‘‘ کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔اردو زبان میں مکتوب نگاری کے فروغ اور مشاہیر ادب کے اسلوب نگارش کی تفہیم میں مکاتیب کی پانچ سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کی اشاعت سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ عمدہ سفید کاغذ پر کمپیوٹر کمپوزنگ پر خوب صورت جلد بندی کے ساتھ شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔اس وقیع ادبی تالیف میں ہماری بزمِ وفا سے رخصت ہونے والے جن مشاہیر کے منتخب مکاتیب کی عکسی نقول شامل کی گئی ہیں ان میں انتظار حسین، بانو قدسیہ، میرزا ادیب، ڈاکٹر وزیر آغا، نعیم صدیقی اورڈاکٹر انور سدید شامل ہیں۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے اور دِل کے گلشن کو ان کی عطر بیز یادوں سے سدا آباد رکھنے کا یہ مستحسن انداز دیکھ کر سپاس گزاری کے جذبات سے آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ بنی نوع انسان، وطن اور اہلِ وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت رکھنے والے ایسے یگانۂ روزگار فاضل اب کم کم دکھائی دیتے ہیں۔یہ آفتاب و ماہتاب تو افقِ ادب سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گئے مگر ان کے لاکھوں مداحوں کی وادیِ خیال میں ان کی یادوں کی ضیا پاشیاں تا ابد اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی رہیں گی۔ان یادگارِ زمانہ مشاہیر کے انداز تحریر کے عکس دیکھ کر اردو زبان کے ممتاز شاعرناصر کاظمی (1925-1972)کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
پروفیسر غازی علم الدین کے نام لکھے گئے مشاہیر ادب کے یہ مکاتیب ایک گنج گراں مایہ ہے جس میں تاریخی اور سوانحی مآخذ کی فراوانی ہے۔ان لطیف اور با وقار مکاتیب میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو محفوظ کرنے کی جوسعی کی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔ موضوعات کی اہمیت و افادیت اور مکتوب نگاروں کے پر جوش اسلوب نے ان مکاتیب کوانفرادی کے بجائے اجتماعی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔اب جس کا جی چاہے وہ اس سر چشمۂ فیض سے اکتساب کر سکتا ہے۔آزاد کشمیر میں مقیم پروفیسر غازی علم الدین اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم و ادب کا دبستان ہیں۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے وہ تدریس کے ساتھ ساتھ پرورش لوح و قلم میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ان کی علم دوستی اور ادب پروری کی دلیل ہے۔جدید لسانیات میں ان کی گہری دلچسپی کے اعجاز سے زبان و بیان کے نئے امکانات اور اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے آفاق تک رسائی کے امکانات سامنے آئے ہیں۔ ان مکاتیب میں مشاہیر ادب نے پروفیسر غازی علم الدین کی تصانیف، لسانی نظریات اور اسلوب کے حوالے سے کھُل کر اظہارِخیال کیا ہے۔حریت ضمیر اور حریتِ فکر کے یہ نمونے قاری کو ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں جہاں افکار تازہ کے گل ہائے رنگ رنگ قریۂ جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔مکتوب نگاروں نے اپنی تحریروں میں اردو زبان و ادب کے بارے میں سائنسی انداز فکر اپنانے پر زور دیا ہے اور پامال راہوں سے بچتے ہوئے نئے آفاق تک رسائی کی تمنا کی ہے۔لسانیات سے متعلق مباحث ان مکاتیب کا نمایاں پہلو ہے۔مکتوب نگاروں نے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ، گرامر، روزمرہ، محاورہ، استعارہ، تراکیب، تلمیحات اور صوتیات جیسے اہم موضوعات پر اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کیا ہے۔ یہ بات بلا خوف تر دید کہی جا سکتی ہے کہ آہنگ و صوت، ترنم اور موسیقی کی دِل رُباکیفیات گردشِ حالات کی زد میں آ کر خیال و خواب بن جاتی ہیں مگر تخلیقی چاشنی سے متمتع مکاتیب کے الفاظ لوحِ دِل پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔مکاتیب کا یہ مجموعہ اسی ارفع معیار کا امین ہے اس لیے ان مکاتیب کا مطالعہ اردو زبان و ادب کے طلبا کے لیے بہت مفید ہے۔ مکاتیب کی اس کہکشاں میں جو تابندہ ستارے اپنی ضیاپاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے لسانیات اور تخلیق ادب کے آ ئینِ نو اور معاصر ادبی رجحانات میں انقلاب کی بشارت دے رہے ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں :
آصف ثاقب، آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ، آسناتھ کنول، ابرار خٹک پروفیسر، احسان اکبر ڈاکٹر، احمد مسعود، افتخار احمد مجاز، احمد سعید پروفیسر، امجد سلیم علوی، انوار احمد ڈاکٹر، انجم جاوید، اقبال مجددی پروفیسر، انیس شاہ جیلانی سید، اسلم انصاری ڈاکٹر، اشتیاق اظہر سید، انتظار حسین، افتخار الحسن میاں ڈاکٹر، اختر شاہ جہان پوری، امین جالندھری، انعام الحق کو ثر ڈاکٹر، انوار احمد زئی پروفیسر، اظفر رضوی سید، الف دین چودھری، افتخار عارف، انور سدیدڈاکٹر، انور مسعود، اسد عباس خان، اسد علی خان راجہ، ارشاد شاکر اعوان ڈاکٹر، ارشد خانم پروفیسر ڈاکٹر، امین راحت چغتائی، ایاز الغنی، ایوب صابر ڈاکٹر، بانو قدسیہ، بشریٰ رحمن، بشیر احمد شاد ڈاکٹر، بشیر حسین ناظم، تا بش الوری سیّد، تبسم کاشمیری ڈاکٹر، توصیف تبسم ڈاکٹر، ثریا کے ایچ خورشید، جاوید اقبال ڈاکٹر، جمیل الدین عالی، جمیل احمد رضوی سیّد، جمیلہ شبنم، حامد سعید اختر بریگیڈئیر، حسرت کاس گنجوی ڈاکٹر، حفیظ الرحمٰن احسن، حنیف باوا، خا لدقیوم تنولی، خلیل طوق اُر ڈاکٹر، خورشید احمد گیلانی، خورشید حسن گیلانی سید، خورشید رضوی ڈاکٹر سیّد، خیال آفاقی پروفیسر، راشد اشرف انجینئر، رشید افروز، رفیع الزماں زبیری، ریاض الرحمن ساغر، رؤف خیر ڈاکٹر، رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر،ر یاض مجید ڈاکٹر، راشد حمید ڈاکٹر، رشید امجد ڈاکٹر، ریاض حسین زیدی سیّد، رضی مجتبیٰ، سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر، سلیم رفیقی، سلیم اختر ڈاکٹر، سرفراز شاہد، سکندر حیات میکن ڈاکٹر، سلطان سکون، سلیم الرحمٰن پروفیسر سعید پرویز،، ستیہ پال آنند ڈاکٹر، سحر انصاری پروفیسر ڈاکٹر، سیف اللہ خالد پروفیسر، سلمیٰ شاہین ڈاکٹر، شاہدہ صدف، شاہد شیدائی، شکیل عثمانی، شکیل احمد خان ڈاکٹر، شمیم حنفی ڈاکٹر، شمس الرحمٰن فاروقی ڈاکٹر، شہباز ملک ڈاکٹر، شیر محمد زمان ڈاکٹر، صابر لودھی ڈاکٹر، صدیقہ ارمان ڈاکٹر، صفدر علی شاہ پروفیسر، صابر آفاقی ڈاکٹر، ضمیر کاظمی، طارق عزیز ڈاکٹر، طارق اسد پروفیسر، طاہر سعید ہارون ڈاکٹر، طیب منیر ڈاکٹر، ظفر اقبال قاضی پروفیسر، ظہور احمد اظہر ڈاکٹر، ظفر حسین ظفر ڈاکٹر، ظفر حجازی پروفیسر، ظہیر الحسن جاوید، عارف محمود مہجور رضوی، عبدالکریم خان ڈاکٹر، عبدالعلیم صدیقی پروفیسر، عارف نوشاہی ڈاکٹر سید، عاصی کاشمیری، عاصی کرنالی ڈاکٹر، عباس خان، عقیلہ جاوید ڈاکٹر، عظیم اختر، علی سفیان آفاقی، غالب عرفان، غلام ربانی مجال خواجہ، غلام قادر آزاد، فاطمہ حسن ڈاکٹر، فتح محمد ملک پروفیسر، فیروز شاہ گیلانی، فرمان فتح پوری ڈاکٹر، قاسم جلال ڈاکٹر سید، قیوم رانا پروفیسر، کرشن کمار طور، کہکشاں ملک، لطیف الزماں خان، ماجد دیو بندی ڈاکٹر، محمد حامد کرنل ڈاکٹر، محمد انیس الرحمٰن ڈاکٹر، محمد سہیل شفیق ڈاکٹر، محمد جنید اکرم پروفیسر، محمد فیروز شاہ، محمد کامران پروفیسر ڈاکٹر، مرزا ادیب، محمد اکرم اکرام ڈاکٹر سیّد، محمد اسلم پروفیسر، محمد احمد سرو سہارن پوری، محمد موسی ٰ امرتسری کلیم، محمد علی چراغ، محمد مسعو احمد ڈاکٹر، محمد محمود حسین اعوان ڈاکٹر، محمد زاہد ڈاکٹر، محمد منشا یاد، محمد اکرم طاہر پروفیسر، محمد اکرام میاں ایڈووکیٹ، محمد یعقوب ہاشمی، محیط اسماعیل، محمد افضل میاں، محمد سرور چودھری ڈاکٹر، مستنصر حسین تارڑ، منیرہ شمیم، مسعود علی بیگ پروفیسر، مناظر عاشق ہر گانوی ڈاکٹر، مسعود خان پروفیسر، محمد سلیم الرحمٰن، محمد شریف انجم قصوری، محمد طارق علی، مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر، مقصود الٰہی شیخ، محبوب عالم تھابل، محمد اسحاق بھٹی، محمدعزیز خان جنرل، محمد انیس الدین، محمد عارف خواجہ، محمد یعقوب شاہین، مخلص وجدانی، محمد سعید خواجہ ڈاکٹر، معراج جامی سید، معین الدین عقیل ڈاکٹر، معین نظامی پروفیسر ڈاکٹر، ممتاز احمد خان ڈاکٹر، محمد صغیر خان ڈاکٹر، ناصر رانا ڈاکٹر، نثار ترابی ڈاکٹر، نگار سجاد ظہیر ڈاکٹر، ناظر نعمان صدیقی، نوید سروش پروفیسر، ندیم صدیقی، نذیر تبسم ڈاکٹر، نذیر فتح پوری، نادر جاجوی ڈاکٹر، نصر اللہ خان ناصر ڈاکٹر، نزہت عباسی ڈاکٹر، نذیر احمد تشنہ پروفیسر، نیاز عرفان پروفیسر ڈاکٹر، ناصر زیدی سیّد، وزیر آغا ڈاکٹر، ہارون الرشید پروفیسر، ہاروان الرشید تبسم پروفیسر ڈاکٹر، یعقوب نظامی، یاسمین گل، یونس جاوید(ڈاکٹر)، یحییٰ احمد ڈاکٹر، یحییٰ نشیط ڈاکٹر سیّد۔
مکتوب نگاری ایک ایسی تخلیقی فعالیت ہے جو زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہے۔ ایک زیرک، فعال، مستعد اور حساس مکتوب نگار اپنی جگہ پر قائم رہتے ہوئے بھی دُور دراز مقامات پر موجود مکتوب الیہ تک اپنے قلبی جذبات و احساسات کی تر سیل کو یقینی بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مو ٔ ثر اور دل نشیں اسلوب کے لحاظ سے مکتوب نگاری کو قلب اور روح کے ملاپ اور تنہائیوں کے زہر کا تر یاق قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ دور میں اکثر لوگوں کو خطوط کی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا صحیح اندازہ نہیں حال آں کہ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں مکاتیب معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے تھے۔ کسی عزیز کا خط ملتے ہی مکتوب الیہ کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی تھی اور اُسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ مکتوب نگار سے بالمشافہ ملاقات ہو گئی ہے۔ اس کتاب میں شامل مکاتیب کی جاذبیت کا یہ حال ہے کہ یہ قاری کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور طبیعت ان کے مطالعہ سے سیر نہیں ہو تی بل کہ فرطِ اشتیاق سے مزید تحریر کا تقا ضا کر تی ہے۔ ماہرین علم بشریات اور ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ مکتوب نگاری ایک عنایت خداوندی ہے۔ اسلوبیاتی ہمہ گیری کی بنا پرمکتوب نگاری کی صلاحیت کو قدرت کاملہ کی طرف سے ایک نادر و نایاب عطیہ خیال کیا جاتا ہے۔ مکتوب نگاراپنی خداداد صلاحیتوں کو روبہ عمل لاتے ہوئے مکتوب الیہ کو اپنی قلبی کیفیات سے اس طرح آگاہ کرتا ہے کہ اس کی نجی زندگی کے نشیب و فراز اجتماعی نوعیت کے ایسے منفرد تجربے میں ڈھل جاتے ہیں جو مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کرنے پر قادر ہے۔اس کتاب میں مختلف مکتوب نگاروں کے مکاتیب کو شامل کیا گیا ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب مکاتیب نہ صرف مربوط ہیں بل کہ ایک خاص نوعیت کا تسلسل بھی ان میں موجود ہے۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مکتوب نگاروں نے با لعموم جس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے وہ لسانیات، نئے ادبی رجحانات، بدلتے ہوئے تخلیقی میلانات اور مختلف زبانوں کے الفاظ کے انجذاب اور درست استعمال کا معاملہ ہے۔ اِن مکاتیب میں پروفیسر غازی علم الدین کی شخصیت کو محوری حیثیت حاصل ہے۔مکتوب نگار الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے حریت فکر کا علم بلند رکھتے ہوئے مؤلف کے لسانی نظریات پر بلا تامل اپنی رائے دیتے ہیں۔
ان مکاتیب میں پروفیسر غازی علم الدین کی وقیع تصانیف، لسانی نظریات، تحقیقی و تنقیدی تصورات، علم بشریات، سماجی اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور نفسیات کے موضوعات پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔مشاہیرِ ادب کے خیالات کی ہمہ گیری قاری کے فکر و خیال کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔مشاہیر کے یہ مکاتیب وسیع تر مفہوم میں ایک اہم بنیادی ماخذ ہیں جس میں معاصر ادبی تھیوری، لسانی تشکیلات اور نئے ادبی رجحانات کے بارے میں سیر حاصل مکالمہ شامل ہے۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر عہد میں مطالعۂ احوال کے سلسلے میں یہ مکاتیب مستقبل کے محقق کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوں گے۔یہ مکاتیب دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ان مکاتیب میں جامعیت، طوالت، اختصار، خلوص، دردمندی اور احساس و ادراک کی مِلی جُلی کیفیات دیکھ کرقاری کیف و مستی سے سرشار ہو جاتا ہے۔چند مکاتیب ایسے بھی ہیں جن کی طوالت اس حقیقت کی غماز ہے کہ شاید مکتوب نگار موضوعات کے سِحر میں اِس طرح کھو گیا کہ اپنے اشہب، قلم کی جو لانیوں کے دوران میں اُسے اپنے منتشر خیالات کو سمیٹنے کی فرصت نہ مِل سکی۔تاہم قاری کے لیے یہ طوالت بھی روحانی لطافت اور قلبی کیف و مستی کا وسیلہ بن جاتی ہے۔یہ تحریریں اس قدر نشاط انگیز، روح پرور اورخیال افروز ہیں کہ قاری کو ہر لحظہ نیا طُور اور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سے آ شنا کرتی ہیں اورقاری کی یہ دِلی تمنا ہوتی ہے کہ معتبر ربط کا یہ معجز نما سلسلہد راز ہوتا چلا جائے اور مر حلۂ شوق کبھی طے نہ ہو۔ مشاہیرِ ادب کے یہ مکتوبات ایسے بیش بہا علمی و ادبی تبرکات اور فیض کے اسباب ہیں جو تا ابد اذہان کی تطہیر و تنویر کا انتہائی موثر وسیلہ ثابت ہوں گے۔پروفیسر غازی علم الدین نے ان مکاتیب کی اشاعت کا اہتمام کر کے روشنی کا سفر جاریر کھنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ مشاہیر ادب کے وہ مکاتیب جو انھوں نے ذاتی طور پر انھیں ارسال کیے ان کا بیش بہا اثاثہ تھے۔انھوں نے جس فیاضی سے یہ اثاثہ قارئین کی نذر کیا ہے وہ ان کی علم دوستی، ادب پروری، وسعتِ نظر اور مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔ علم و ادب کے فروغ میں دلچسپی لینے والے تہذیب و ثقافت کے مورخین کی گردن ان کے بار احسان سے ہمیشہ خم رہے گی اور تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔پروفیسر غازی علم الدین کی اس تالیف کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اختر الایمان کے یہ شعر یاد آ گئے۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چھُو سکتا ہے
راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
مآخذ
(1)صالحہ عابد حسین :یاد گار حالی، آئینۂ ادب، لاہور، 1966، صفحہ 310۔
(2)بہ حوالہ فرمان فتح پوری ڈاکٹر :اردو نثر کا فنی ارتقا، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، 1997، صفحہ 396۔حسین اور دل کش الفاظ کے ذریعے اسالیب کے تاج محل تعمیر کر کے ان میں زندگی بسر کرنا اور یہاں فکر و خیال، رنگ، خوشبو، حسن و خوبی اور متنوع اصنافِ ادب کی محفل سجا کرسمے کے سم کے ثمر کا تریاق تلاش کرنا ہر دور میں پرورشِ لوح و قلم کرنے والوں کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مکتوب نگاری کی سحر نگاری کا ایک عالم معترف ہے۔مکتوب نگار جب قلم تھام کر اپنی قلبی کیفیات کو مکتوب کی صورت میں پیرایۂ اظہار عطا کرتا ہے تو اسلوب کی تاثیر کا کرشمہ دامن دِل کھینچتا ہے۔قلبی، روحانی اور وجدانی کیفیات سے لبریز مکتوبات جامد و ساکت پتھروں، بے حس مجسموں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتے ہیں۔یاس و ہراس کے اعصاب شکن ماحول میں ستم کشِ سفر رہنے والے الم نصیبوں کا سینہ و دِل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو مکتوبات حوصلے اور امید کی شمع فروزاں کر کے اورعزم و استقلال کا علم تھام کر ہجومِ غم میں دِل کو سنبھالتے ہوئے سُوئے منزل رواں دواں رہنے پر مائل کرتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں یہ حقیقت کھُل کر سامنے آتی ہے کہ جس وقت مادی یاجسمانی رفاقتیں ہوس اور ذاتی مفادات کے بگولوں میں اوجھل ہو جائیں اس وقت مکتوبات جان لیوا تنہائیوں کا مداوا کرتے ہیں اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مکتوب نگاری شخصیت کی کلید ہے جو مکتوب نگار کی داخلی کیفیات کو اس انداز سے پیش کرتی ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ابد آشنا تاثیر سے متمتع اس صنفِ ادب کو ہر عہد میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔مشاہیر کے مکتوبات کے مطالعہ سے قاری مکتوب نگار کے ساتھ زمان و مکان کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی قلبی اور روحانی ہم آ ہنگی محسوس کرتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔قاری چشمِ تصور سے ان تمام موسموں کی بہار یا خزاں کے مناظر کو دیکھ سکتا ہے جو خط لکھتے وقت مکتوب نگار کے دِل پر اُترے۔
اردو ادب کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ طور صنف ادب متعارف کرانے میں اولیت کا اعزاز مرزا رجب علی بیگ سرورؔ(1785-1869) کو ملتا ہے۔تاریخ ادب اردو میں اگرچہ یہ خطوط اپنی قدامت اور اوّلیت کی بنا پر قابل ذکر ہیں لیکن تخلیقی تنوع، موضوعاتی ندرت اور بر جستگی کے اعتبار سے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور موضوعاتی شگفتگی اورہمہ گیری کا کوئی قابل قدر پہلو سامنے نہ لا سکے۔تاریخِ ادب اردو سے دلچسپی رکھنے والے قارئینِ ادب اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ اُردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ حیثیت ایک موثر اور ہر دل عزیز صنفِ ادب متعارف کرانے کا سہرا مرزا اسداللہ خان غالبؔ(1797-1869) کے سر ہے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے مکاتیب گلشنِ اردو میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے، جن کی عطر بیزی سے صحنِ چمن مہک اٹھا اور اس صنفِ ادب کی مہک سے آج بھی قریۂ جاں معطر ہے۔ غالبؔ نے اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز 1846 یا1848کے دوران کیا۔اس طرح اردو زبان کو اس مکتوب نگاری کے اعجاز سے نئے آفاق تک رسائی کی نوید ملی۔غالبؔ کی مکتوب نگاری اردو نثر کے فروغ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اپنے دل کش اسلوب سے غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔مشاہیر کے مکاتیب تاریخ، تہذیب، ثقافت اور درخشاں اقدار و روایات کے امین ہوتے ہیں۔غالبؔ نے اپنے مکاتیب میں اپنی دلی کیفیات، سچے جذبات اور حقیقی احساسات کے اظہار کے لیے جس طرزِ خاص کا انتخاب کیا وہ بعد میں آنے والے تخلیق کاروں کے لیے لائق تقلید بن گئی۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہر صنفِ ادب میں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعارے، مسحور کُن اثر آفرینیاں، لاتعداد رنگینیاں، رعنائیاں، دلچسپیاں اور دلکشیاں موجود ہوتی ہیں۔ہر زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے افکار کی جولانیوں سے وہ دِل آویز فضا پیدا کرتا ہے جس کا کرشمہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ مطالعہ ادب سے کار زارِ ہستی کے بارے میں متعدد نئے امکانات، رجحانات، ارتعاشات اور ممکنات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ادب کے وسیلے سے راحتیں، چاہتیں، وفا اور جفا، ہجر و فراق، منزلیں اور راستے، نشیب و فراز اور طرز فغاں کے متعلق علامات سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مددملتی ہے۔ہر صنف ادب کی دل کشی اپنی جگہ لیکن جو تاثیر، بے تکلفی اور مسحورکن اثر آفرینی مکاتیب میں پنہاں ہے اس میں کوئی اور صنف ادب مکاتیب کی شریک و سہیم نہیں۔ خطوط کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے صالحہ عابد حسین نے لکھا ہے :
’’ادب میں سیکڑوں دل کشیاں ہیں۔اس کی بے شمار راہیں اور ان گنت نگاہیں ہیں لیکن خطوں میں جو جادو ہے (بشرطیکہ لکھنا آتا ہو )وہ اس کی کسی ادا میں نہیں۔‘‘(1)
اُردو زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا تخلیق کارہر دور میں غالبؔ کے مکاتیب کی نثر کو اپنے اسلوب کی اساس بنائے گا۔اگر اردو زبان و ادب کے شیدائی یہ چاہتے ہیں کہ اردو کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن کی شگفتگی ہجوم یاس میں دل کو سنبھالنے اور مسکراتے ہوئے کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے پر مائل کرے تو انھیں بلا تامل غالبؔ کے مکاتیب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔مکاتیب کی ہمہ گیر اثر آفرینی اور دل کشی کے سحر سے بچنا محال ہے ایک با صلاحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی روّیے کو جس فنی مہارت سے آفاقی نہج عطا کرتا ہے وہ اسے ابد آشنا بنا نے کا وسیلہ ہے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے بعد جن مشاہیر ادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان میں سر سید احمد خان، مولانا محمد حسین آزادؔ، خواجہ الطاف حسین حالیؔ، علامہ شبلی نعمانی، محسن الملک، وقار الملک، ڈپٹی نذیر احمد، سید اکبر حسین اکبرا ؔلہ آبادی، نواب مرزا خان داغ ؔدہلوی، امیر مینائی، ریاض خیر آبادی اور سید علی ناصر کے نام قابل ذکر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو میں مکتوب نگاری کو ایک مضبوط، مستحکم اور درخشاں روایت کا درجہ حاصل ہو گیا۔اس کے ابتدائی نقوش تو غالبؔ کے ہاں ملتے ہیں لیکن اردو زبان کے ارتقا کے کے ساتھ ساتھ اس میں متعد نئے لکھنے والے تخلیق کار بھی شامل ہوتے چلے گئے۔اردو زبان میں مکتوب نگاری کی روایت کو استحکام دینے اور مکاتیب کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں بعد میں جن نامور ادیبوں نے حصہ لیا ان میں ابو الکلام آزادؔ، علامہ محمد اقبال، مہدی افادی، مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی، نیاز فتح پوری، مولانا محمد علی جوہرؔ، خواجہ حسن نظامی، عبدالماجد دریا بادی اور محمد علی ردولوی کی خدمات تار یخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں ان تمام مشاہیر ادب نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
بر صغیر میں 1936میں شروع ہونے والی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر فکر و نظر میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔برصغیر میں افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لینے کا رجحان تقویت پکڑنے لگا۔اردو زبان کے ادیبوں نے جدید علوم اور نئے تصورات پر توجہ دی۔اس زمانے میں نفسیات کے زیر اثر حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا عمیق مطالعہ تخلیقی عمل کی اساس بن گیا۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں اردو مکتوب نگاری پر اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔تخلیقِ ادب کے نئے رجحانات سامنے آئے ان کے زیر اثر اردو کے جن نابغہ روزگار ادیبوں نے مکتوب نگاری کے ذریعے تزکیۂ نفس کے امکانات سامنے لانے کی سعی کی ان میں جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، سید سجاد ظہیر، صفیہ اختر، اور ڈاکٹر ایم۔ڈی تاثیر کے نام ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ اصناف ادب کے ارتقا کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ہمیشہ کلیدی اہمیت کی حامل صنف ادب سمجھا جاتا رہا ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کے اعلا معیار کے ادبی مجلات نے مختلف اوقات میں جو مکاتیب نمبر شائع کیے انھیں قارئین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ادبی مجلات کے مکاتیب نمبر میں سے کچھ حسب ذیل ہیں :
1۔ادبی مجلہ ایشیا، مکاتیب نمبر، بمبئی، 19412
2۔ادبی مجلہ آج کل، خطوط نمبر، دہلی، 1954
3۔ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلد اول ,1957
4۔ادبی مجلہ نقوش، مکاتیب نمبر، لاہور، جلد دوم، 1968
ماضی میں اردو زبان کے کئی ادیبوں نے اپنے پاس محفوظ مشاہیر کے مکاتیب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے نام مشاہیر ادب نے جو مکاتیب ارسال کیے وہ انھوں نے اپنی زندگی میں ’’مکتوبات معاصرین ‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیے۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے اپنے پاس محفوظ مشاہیر کے تمام مکاتیب کو سکین (Scan)کر نے کے بعد انھیں انٹر نیٹ کی ویب سائٹ کی زینت بنا دیا ہے۔یہ سیکڑوں مکاتیب جو مکتوب نگاروں کے اپنے انداز تحریرمیں ہیں دنیا بھر میں موجود اردو زبان و ادب کے قارئین کے لیے ایک منفرد تجربے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ مکتوب نگار کو اپنے جذبات، احساسات اور داخلی کیفیات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے جو مواقع میسر ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات قلم و قرطاس کے معتبر حوالے سے نہایت راز داری سے بلا خوف و خطر کر سکتا ہے۔مراسلہ ایک طرح کا مکالمہ بن جاتا ہے اور اس تخلیقی عمل کے معجز نما اثر سے مکتوب نگار اپنی افتاد طبع کے مطابق مکتوب الیہ سے بہ زبان قلم باتیں کر کے جانگسل تنہائیوں کے کرب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔اگر مکتوب نگاری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر شامل ہو تو مکتوب نگار ہجر و فراق کی عقوبت سے بچ کر خط کے ذریعے وصال کے نشاط آمیز لمحات سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے تحلیل نفسی کے سلسلے میں کسی بھی شخصیت کی داخلی کیفیات، جذباتی ہیجانات اور طور طریقوں کے جملہ اسرار و رموز کی تفہیم میں مکتوبات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔مکاتیب ہی در اصل مکتوب نگار کی شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید ہیں۔شخصیت کی تمام گتھیاں سلجھانے میں خطوط کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔یہ مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز، جذباتی میلانات، مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز اور اس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے جو کچھ پیغام ارسال کرتا ہے وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے۔مکتوب نگاری ایک ایسافن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے۔ حیات و کائنات کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔مکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہے۔صنف مکتوب نگاری کے بارے میں ڈاکٹر خورشیدالاسلام نے لکھا ہے :
’’ زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے۔خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے۔۔۔زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے۔‘‘(2)
انسانی زندگی میں مدوجزر کی کیفیت ہمیشہ بر قرار رہتی ہے۔ایک تخلیق کار کا روّیہ بھی عجیب ہوتا ہے کبھی سوز و ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی والا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو کہ تخلیق کار کی زندگی میں اس کا اوڑھنا بچھونا بن کر اسے ہمہ وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔اس کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے تمام حقیقتیں سراب اورخواب بن جاتی ہیں اور جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ کئی حقائق اورصداقتوں پر فریب نظرکا گمان گزرتا ہے لیکن در اصل یہ سب سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح وہ بالآخر ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اجتماعی لا شعور کا حصہ بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی صداقتیں ایک لمحے کے لیے بھی مکمل طور پر غائب نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ اپنے وجود کا اثبات کرتی رہتی ہیں۔مشاہیر کے مکاتیب بھی اس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں۔ان کی اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ ان کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ان میں اپنی نجی زندگی کے تمام موسم اُترتے محسوس ہوتے ہیں۔دل سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی بہ ہر حال مسلمہ ہے۔مکتوب نگار کی تابِ سخن کے اعجاز سے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قلب و روح کیا تھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے پُر خلوص جذبات کا یہ سیلِ رواں آلام روزگار کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے۔ بے لوث محبت، دردمندی، انسانی ہمدردی اور پُر خلوص جذبات سے مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی ترجمانی پر قادر ہے۔مکتوب نگار اپنے شعوری غور و فکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا ہے۔بادی النظر میں مکتوب نگاری کی حدیں جذبۂ انسانیت نوازی سے ملتی ہیں۔ان دونوں میں مقاصد کی ہم آہنگی فکر و خیال کو مہمیز کر کے سعی ٔ پیہم پر مائل کر کے جہد و عمل کے نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے۔مکتوب نگارجہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے وہاں زندگی کے متعدد تُند و تلخ حقا ئق اورتاریخی واقعات کو بھی منصہ شہود پر لاتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار تخلیقِ ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی عکاسی کرنے والے جملہ پہلو سامنے لاتا ہے اور اس طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔وہ جانتا ہے کہ خزاں، بہار اور باراں کے آنے جانے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور قلب و روح پر اترنے والے تمام موسم دل کے کھلنے اور مر جھانے کی کیفیات ہی سے عبارت ہیں۔مکتوب نگاری ذوقِ سلیم کی مظہر ہے۔ایک زیرک، حساس اور با شعور مکتوب نگار اپنے اسلوب کے ذریعے قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے اپنے ذوق مکتوب نگاری کے متعلق ایک شعر میں صراحت کی ہے۔
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب
ستم زدہ ہوں مگر ذوقِ خامہ فرسا کا
جدید دور میں اردو ادب میں مکتوب نگاری نے ایک درخشاں، مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔مرزا اسدللہ خان غالبؔ سے لے کر عہد حاضر تک اردو ادیبوں نے اپنے خطوط کے وسیلے سے مسائل زیست کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔سادگی و سلاست، خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔مکتوب نگاری میں تکلف، تصنع، مافوق الفطرت عناصر، ما بعد الطبیعات، خوابوں کی خیاباں سازی، ملمع کاری، ریاکاری اور موقع پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔مراسلے کو مکالمہ بناتے وقت دل کی بات قلم کے وسیلے سے پوری دیانت اور صداقت سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے۔ حریت فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے حرف صداقت لکھنا اس تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر ہے۔یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہِ راست زندگی سے ہوتا ہے۔جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں اسی طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے شپرانہ چشم پوشی احسان فراموشی کے مترادف ہے۔مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اس مسحور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔خطوط کے ذریعے احساس، ادراک، وجدان اور عرفان کی جو متاعِ بے بہا نصیب ہوتی ہے اس میں کوئی اور صنف ادب اس کی برابری نہیں کر سکتی۔تخلیق کار، اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کی اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے توزیرک محقق اور جری نقاد کو تخلیق کار کے مکاتیب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔جب بھی کسی تخلیق کار کی حیات و خدمات پر تحقیقی کام کا آغاز ہوتا ہے تو محقق اس کے مکاتیب کو اولین ماخذ کے طور پر اپنے تحقیقی کام کی اساس بناتا ہے۔ شگفتگی، شائستگی، صداقت، خلوص، دردمندی اور انسانی ہمدردی مکاتیب کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے عناصر ہیں۔وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اقدار و روایات کے معائر بدلتے رہتے ہیں لیکن مکاتیب کی دل کشی اور دل پذیری کا معیار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے۔محبتوں، چاہتوں، قربتوں اور عہد و پیمان کے امین خطوط کی اہمیت ہر دور میں موجود رہے گی۔دورِ جدید میں برقی ذرائع ابلاغ نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ای میل، ایس۔ایم۔ایس، ٹیلی فون اور فیکس نے فاصلوں کی طنابیں کھینچ دی ہیں اور ماضی کی سست رو مواصلات کو قصۂ پارینہ بنا دیا ہے۔ اب تو بہ زبان قلم باتیں کرنے کے بجائے انٹر نیٹ پر پہروں بالمشافہ بات چیت کی جاتی ہے۔ مواصلات میں اِن محیر العقول ایجادات کے باوجود خطوط کی ترسیل کا سلسلہ پیہم جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہیں
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
مجھے یہ جان کر دِلی مسرت ہوئی کہ گزشتہ چار عشروں میں ممتاز ادیب پروفیسر غازی علم الدین کے نام لکھے جانے والے 191 مشاہیر کے مکاتیب ستمبر 2016 کتابی صورت میں شائع ہو گئے ہیں۔یہ کتاب فیصل آباد سے ’’مثال پبلشرز‘‘ کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔اردو زبان میں مکتوب نگاری کے فروغ اور مشاہیر ادب کے اسلوب نگارش کی تفہیم میں مکاتیب کی پانچ سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کی اشاعت سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ عمدہ سفید کاغذ پر کمپیوٹر کمپوزنگ پر خوب صورت جلد بندی کے ساتھ شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔اس وقیع ادبی تالیف میں ہماری بزمِ وفا سے رخصت ہونے والے جن مشاہیر کے منتخب مکاتیب کی عکسی نقول شامل کی گئی ہیں ان میں انتظار حسین، بانو قدسیہ، میرزا ادیب، ڈاکٹر وزیر آغا، نعیم صدیقی اورڈاکٹر انور سدید شامل ہیں۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے اور دِل کے گلشن کو ان کی عطر بیز یادوں سے سدا آباد رکھنے کا یہ مستحسن انداز دیکھ کر سپاس گزاری کے جذبات سے آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ بنی نوع انسان، وطن اور اہلِ وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت رکھنے والے ایسے یگانۂ روزگار فاضل اب کم کم دکھائی دیتے ہیں۔یہ آفتاب و ماہتاب تو افقِ ادب سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گئے مگر ان کے لاکھوں مداحوں کی وادیِ خیال میں ان کی یادوں کی ضیا پاشیاں تا ابد اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی رہیں گی۔ان یادگارِ زمانہ مشاہیر کے انداز تحریر کے عکس دیکھ کر اردو زبان کے ممتاز شاعرناصر کاظمی (1925-1972)کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
پروفیسر غازی علم الدین کے نام لکھے گئے مشاہیر ادب کے یہ مکاتیب ایک گنج گراں مایہ ہے جس میں تاریخی اور سوانحی مآخذ کی فراوانی ہے۔ان لطیف اور با وقار مکاتیب میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو محفوظ کرنے کی جوسعی کی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔ موضوعات کی اہمیت و افادیت اور مکتوب نگاروں کے پر جوش اسلوب نے ان مکاتیب کوانفرادی کے بجائے اجتماعی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔اب جس کا جی چاہے وہ اس سر چشمۂ فیض سے اکتساب کر سکتا ہے۔آزاد کشمیر میں مقیم پروفیسر غازی علم الدین اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم و ادب کا دبستان ہیں۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے وہ تدریس کے ساتھ ساتھ پرورش لوح و قلم میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ان کی علم دوستی اور ادب پروری کی دلیل ہے۔جدید لسانیات میں ان کی گہری دلچسپی کے اعجاز سے زبان و بیان کے نئے امکانات اور اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے آفاق تک رسائی کے امکانات سامنے آئے ہیں۔ ان مکاتیب میں مشاہیر ادب نے پروفیسر غازی علم الدین کی تصانیف، لسانی نظریات اور اسلوب کے حوالے سے کھُل کر اظہارِخیال کیا ہے۔حریت ضمیر اور حریتِ فکر کے یہ نمونے قاری کو ایک جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں جہاں افکار تازہ کے گل ہائے رنگ رنگ قریۂ جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔مکتوب نگاروں نے اپنی تحریروں میں اردو زبان و ادب کے بارے میں سائنسی انداز فکر اپنانے پر زور دیا ہے اور پامال راہوں سے بچتے ہوئے نئے آفاق تک رسائی کی تمنا کی ہے۔لسانیات سے متعلق مباحث ان مکاتیب کا نمایاں پہلو ہے۔مکتوب نگاروں نے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ، گرامر، روزمرہ، محاورہ، استعارہ، تراکیب، تلمیحات اور صوتیات جیسے اہم موضوعات پر اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کیا ہے۔ یہ بات بلا خوف تر دید کہی جا سکتی ہے کہ آہنگ و صوت، ترنم اور موسیقی کی دِل رُباکیفیات گردشِ حالات کی زد میں آ کر خیال و خواب بن جاتی ہیں مگر تخلیقی چاشنی سے متمتع مکاتیب کے الفاظ لوحِ دِل پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔مکاتیب کا یہ مجموعہ اسی ارفع معیار کا امین ہے اس لیے ان مکاتیب کا مطالعہ اردو زبان و ادب کے طلبا کے لیے بہت مفید ہے۔ مکاتیب کی اس کہکشاں میں جو تابندہ ستارے اپنی ضیاپاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے لسانیات اور تخلیق ادب کے آ ئینِ نو اور معاصر ادبی رجحانات میں انقلاب کی بشارت دے رہے ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں :
آصف ثاقب، آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ، آسناتھ کنول، ابرار خٹک پروفیسر، احسان اکبر ڈاکٹر، احمد مسعود، افتخار احمد مجاز، احمد سعید پروفیسر، امجد سلیم علوی، انوار احمد ڈاکٹر، انجم جاوید، اقبال مجددی پروفیسر، انیس شاہ جیلانی سید، اسلم انصاری ڈاکٹر، اشتیاق اظہر سید، انتظار حسین، افتخار الحسن میاں ڈاکٹر، اختر شاہ جہان پوری، امین جالندھری، انعام الحق کو ثر ڈاکٹر، انوار احمد زئی پروفیسر، اظفر رضوی سید، الف دین چودھری، افتخار عارف، انور سدیدڈاکٹر، انور مسعود، اسد عباس خان، اسد علی خان راجہ، ارشاد شاکر اعوان ڈاکٹر، ارشد خانم پروفیسر ڈاکٹر، امین راحت چغتائی، ایاز الغنی، ایوب صابر ڈاکٹر، بانو قدسیہ، بشریٰ رحمن، بشیر احمد شاد ڈاکٹر، بشیر حسین ناظم، تا بش الوری سیّد، تبسم کاشمیری ڈاکٹر، توصیف تبسم ڈاکٹر، ثریا کے ایچ خورشید، جاوید اقبال ڈاکٹر، جمیل الدین عالی، جمیل احمد رضوی سیّد، جمیلہ شبنم، حامد سعید اختر بریگیڈئیر، حسرت کاس گنجوی ڈاکٹر، حفیظ الرحمٰن احسن، حنیف باوا، خا لدقیوم تنولی، خلیل طوق اُر ڈاکٹر، خورشید احمد گیلانی، خورشید حسن گیلانی سید، خورشید رضوی ڈاکٹر سیّد، خیال آفاقی پروفیسر، راشد اشرف انجینئر، رشید افروز، رفیع الزماں زبیری، ریاض الرحمن ساغر، رؤف خیر ڈاکٹر، رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر،ر یاض مجید ڈاکٹر، راشد حمید ڈاکٹر، رشید امجد ڈاکٹر، ریاض حسین زیدی سیّد، رضی مجتبیٰ، سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر، سلیم رفیقی، سلیم اختر ڈاکٹر، سرفراز شاہد، سکندر حیات میکن ڈاکٹر، سلطان سکون، سلیم الرحمٰن پروفیسر سعید پرویز،، ستیہ پال آنند ڈاکٹر، سحر انصاری پروفیسر ڈاکٹر، سیف اللہ خالد پروفیسر، سلمیٰ شاہین ڈاکٹر، شاہدہ صدف، شاہد شیدائی، شکیل عثمانی، شکیل احمد خان ڈاکٹر، شمیم حنفی ڈاکٹر، شمس الرحمٰن فاروقی ڈاکٹر، شہباز ملک ڈاکٹر، شیر محمد زمان ڈاکٹر، صابر لودھی ڈاکٹر، صدیقہ ارمان ڈاکٹر، صفدر علی شاہ پروفیسر، صابر آفاقی ڈاکٹر، ضمیر کاظمی، طارق عزیز ڈاکٹر، طارق اسد پروفیسر، طاہر سعید ہارون ڈاکٹر، طیب منیر ڈاکٹر، ظفر اقبال قاضی پروفیسر، ظہور احمد اظہر ڈاکٹر، ظفر حسین ظفر ڈاکٹر، ظفر حجازی پروفیسر، ظہیر الحسن جاوید، عارف محمود مہجور رضوی، عبدالکریم خان ڈاکٹر، عبدالعلیم صدیقی پروفیسر، عارف نوشاہی ڈاکٹر سید، عاصی کاشمیری، عاصی کرنالی ڈاکٹر، عباس خان، عقیلہ جاوید ڈاکٹر، عظیم اختر، علی سفیان آفاقی، غالب عرفان، غلام ربانی مجال خواجہ، غلام قادر آزاد، فاطمہ حسن ڈاکٹر، فتح محمد ملک پروفیسر، فیروز شاہ گیلانی، فرمان فتح پوری ڈاکٹر، قاسم جلال ڈاکٹر سید، قیوم رانا پروفیسر، کرشن کمار طور، کہکشاں ملک، لطیف الزماں خان، ماجد دیو بندی ڈاکٹر، محمد حامد کرنل ڈاکٹر، محمد انیس الرحمٰن ڈاکٹر، محمد سہیل شفیق ڈاکٹر، محمد جنید اکرم پروفیسر، محمد فیروز شاہ، محمد کامران پروفیسر ڈاکٹر، مرزا ادیب، محمد اکرم اکرام ڈاکٹر سیّد، محمد اسلم پروفیسر، محمد احمد سرو سہارن پوری، محمد موسی ٰ امرتسری کلیم، محمد علی چراغ، محمد مسعو احمد ڈاکٹر، محمد محمود حسین اعوان ڈاکٹر، محمد زاہد ڈاکٹر، محمد منشا یاد، محمد اکرم طاہر پروفیسر، محمد اکرام میاں ایڈووکیٹ، محمد یعقوب ہاشمی، محیط اسماعیل، محمد افضل میاں، محمد سرور چودھری ڈاکٹر، مستنصر حسین تارڑ، منیرہ شمیم، مسعود علی بیگ پروفیسر، مناظر عاشق ہر گانوی ڈاکٹر، مسعود خان پروفیسر، محمد سلیم الرحمٰن، محمد شریف انجم قصوری، محمد طارق علی، مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر، مقصود الٰہی شیخ، محبوب عالم تھابل، محمد اسحاق بھٹی، محمدعزیز خان جنرل، محمد انیس الدین، محمد عارف خواجہ، محمد یعقوب شاہین، مخلص وجدانی، محمد سعید خواجہ ڈاکٹر، معراج جامی سید، معین الدین عقیل ڈاکٹر، معین نظامی پروفیسر ڈاکٹر، ممتاز احمد خان ڈاکٹر، محمد صغیر خان ڈاکٹر، ناصر رانا ڈاکٹر، نثار ترابی ڈاکٹر، نگار سجاد ظہیر ڈاکٹر، ناظر نعمان صدیقی، نوید سروش پروفیسر، ندیم صدیقی، نذیر تبسم ڈاکٹر، نذیر فتح پوری، نادر جاجوی ڈاکٹر، نصر اللہ خان ناصر ڈاکٹر، نزہت عباسی ڈاکٹر، نذیر احمد تشنہ پروفیسر، نیاز عرفان پروفیسر ڈاکٹر، ناصر زیدی سیّد، وزیر آغا ڈاکٹر، ہارون الرشید پروفیسر، ہاروان الرشید تبسم پروفیسر ڈاکٹر، یعقوب نظامی، یاسمین گل، یونس جاوید(ڈاکٹر)، یحییٰ احمد ڈاکٹر، یحییٰ نشیط ڈاکٹر سیّد۔
مکتوب نگاری ایک ایسی تخلیقی فعالیت ہے جو زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہے۔ ایک زیرک، فعال، مستعد اور حساس مکتوب نگار اپنی جگہ پر قائم رہتے ہوئے بھی دُور دراز مقامات پر موجود مکتوب الیہ تک اپنے قلبی جذبات و احساسات کی تر سیل کو یقینی بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مو ٔ ثر اور دل نشیں اسلوب کے لحاظ سے مکتوب نگاری کو قلب اور روح کے ملاپ اور تنہائیوں کے زہر کا تر یاق قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ دور میں اکثر لوگوں کو خطوط کی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا صحیح اندازہ نہیں حال آں کہ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں مکاتیب معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے تھے۔ کسی عزیز کا خط ملتے ہی مکتوب الیہ کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی تھی اور اُسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ مکتوب نگار سے بالمشافہ ملاقات ہو گئی ہے۔ اس کتاب میں شامل مکاتیب کی جاذبیت کا یہ حال ہے کہ یہ قاری کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور طبیعت ان کے مطالعہ سے سیر نہیں ہو تی بل کہ فرطِ اشتیاق سے مزید تحریر کا تقا ضا کر تی ہے۔ ماہرین علم بشریات اور ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ مکتوب نگاری ایک عنایت خداوندی ہے۔ اسلوبیاتی ہمہ گیری کی بنا پرمکتوب نگاری کی صلاحیت کو قدرت کاملہ کی طرف سے ایک نادر و نایاب عطیہ خیال کیا جاتا ہے۔ مکتوب نگاراپنی خداداد صلاحیتوں کو روبہ عمل لاتے ہوئے مکتوب الیہ کو اپنی قلبی کیفیات سے اس طرح آگاہ کرتا ہے کہ اس کی نجی زندگی کے نشیب و فراز اجتماعی نوعیت کے ایسے منفرد تجربے میں ڈھل جاتے ہیں جو مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کرنے پر قادر ہے۔اس کتاب میں مختلف مکتوب نگاروں کے مکاتیب کو شامل کیا گیا ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب مکاتیب نہ صرف مربوط ہیں بل کہ ایک خاص نوعیت کا تسلسل بھی ان میں موجود ہے۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مکتوب نگاروں نے با لعموم جس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے وہ لسانیات، نئے ادبی رجحانات، بدلتے ہوئے تخلیقی میلانات اور مختلف زبانوں کے الفاظ کے انجذاب اور درست استعمال کا معاملہ ہے۔ اِن مکاتیب میں پروفیسر غازی علم الدین کی شخصیت کو محوری حیثیت حاصل ہے۔مکتوب نگار الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے حریت فکر کا علم بلند رکھتے ہوئے مؤلف کے لسانی نظریات پر بلا تامل اپنی رائے دیتے ہیں۔
ان مکاتیب میں پروفیسر غازی علم الدین کی وقیع تصانیف، لسانی نظریات، تحقیقی و تنقیدی تصورات، علم بشریات، سماجی اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور نفسیات کے موضوعات پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔مشاہیرِ ادب کے خیالات کی ہمہ گیری قاری کے فکر و خیال کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔مشاہیر کے یہ مکاتیب وسیع تر مفہوم میں ایک اہم بنیادی ماخذ ہیں جس میں معاصر ادبی تھیوری، لسانی تشکیلات اور نئے ادبی رجحانات کے بارے میں سیر حاصل مکالمہ شامل ہے۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر عہد میں مطالعۂ احوال کے سلسلے میں یہ مکاتیب مستقبل کے محقق کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوں گے۔یہ مکاتیب دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ان مکاتیب میں جامعیت، طوالت، اختصار، خلوص، دردمندی اور احساس و ادراک کی مِلی جُلی کیفیات دیکھ کرقاری کیف و مستی سے سرشار ہو جاتا ہے۔چند مکاتیب ایسے بھی ہیں جن کی طوالت اس حقیقت کی غماز ہے کہ شاید مکتوب نگار موضوعات کے سِحر میں اِس طرح کھو گیا کہ اپنے اشہب، قلم کی جو لانیوں کے دوران میں اُسے اپنے منتشر خیالات کو سمیٹنے کی فرصت نہ مِل سکی۔تاہم قاری کے لیے یہ طوالت بھی روحانی لطافت اور قلبی کیف و مستی کا وسیلہ بن جاتی ہے۔یہ تحریریں اس قدر نشاط انگیز، روح پرور اورخیال افروز ہیں کہ قاری کو ہر لحظہ نیا طُور اور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سے آ شنا کرتی ہیں اورقاری کی یہ دِلی تمنا ہوتی ہے کہ معتبر ربط کا یہ معجز نما سلسلہد راز ہوتا چلا جائے اور مر حلۂ شوق کبھی طے نہ ہو۔ مشاہیرِ ادب کے یہ مکتوبات ایسے بیش بہا علمی و ادبی تبرکات اور فیض کے اسباب ہیں جو تا ابد اذہان کی تطہیر و تنویر کا انتہائی موثر وسیلہ ثابت ہوں گے۔پروفیسر غازی علم الدین نے ان مکاتیب کی اشاعت کا اہتمام کر کے روشنی کا سفر جاریر کھنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ مشاہیر ادب کے وہ مکاتیب جو انھوں نے ذاتی طور پر انھیں ارسال کیے ان کا بیش بہا اثاثہ تھے۔انھوں نے جس فیاضی سے یہ اثاثہ قارئین کی نذر کیا ہے وہ ان کی علم دوستی، ادب پروری، وسعتِ نظر اور مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔ علم و ادب کے فروغ میں دلچسپی لینے والے تہذیب و ثقافت کے مورخین کی گردن ان کے بار احسان سے ہمیشہ خم رہے گی اور تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔پروفیسر غازی علم الدین کی اس تالیف کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اختر الایمان کے یہ شعر یاد آ گئے۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چھُو سکتا ہے
راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
مآخذ
(1)صالحہ عابد حسین :یاد گار حالی، آئینۂ ادب، لاہور، 1966، صفحہ 310۔
(2)بہ حوالہ فرمان فتح پوری ڈاکٹر :اردو نثر کا فنی ارتقا، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، 1997، صفحہ 396