گزرا آنکھوں سے مری وہ گلِ لالہ اکثر
میں نے شعروں میں دیا جس کا حوالا اکثر
میں نے جس خاک پہ پیر اپنے جمانے چاہے
اس نے گیندوں کی طرح مجھ کو اچھالا اکثر
موسمِ گل میں دریچے سے در آتیں کرنیں
کھول دیتی ہیں مرے ذہن کا تالا اکثر
چند باتوں کو خفی جان کے رکھا ورنہ
جو بھی محسوس کیا شعر میں ڈھالا اکثر
انکساری سے ملا، میں تو ملا ہوں جس سے
کرتا رہتا ہوں گناہوں کا ازالہ اکثر
پھول وہ چھین لیا مجھ سے صبا نے عاصم
جس کو صر صر کے شدائد سے سنبھالا اکثر
٭٭٭