The Arrow Of Time
(’’وقت کا سفر‘‘ A BRIEF HISTORY OF TIME ، Stephen Hawking، نواں باب، ترجمہ:ناظر محمود، نظرِ ثانی:شہزاد احمد،، اردو یونیکوڈ برقی کتاب: محمد علی مکی )
پچھلے ابواب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وقت کی ماہیت کے بارے میں ہمارے خیالات چند سالوں میں کس طرح تبدیل ہو چکے ہیں، اس صدی کے آغاز تک لوگ مطلق وقت پر یقین رکھتے تھے، یعنی ہر وا قعہ وقت نامی ایک عدد سے منفرد انداز میں منسوب کیا جا سکتا تھا اور تمام اچھی گھڑیاں دو واقعات کے درمیان پر متفق ہوتی تھیں، تاہم اس دریافت نے کہ ہر مشاہدہ کرنے والے کو اس کی اپنی رفتار سے قطع نظر روشنی کی رفتار یکساں معلوم ہو گی، اضافیت کے نظریے کو جنم دیا اور اس میں ایک منفرد مطلق خیال کو ترک کرنا پڑا، اس کی بجائے ہر مشاہدہ کرنے والا خود اپنی گھڑی کے مطابق وقت کا پیمانہ رکھتا تھا، ضرور نہیں تھا کہ مختلف مشاہدہ کرنے والوں کی گھڑیاں مختلف ہوں، اس طرح وقت اپنے مشاہدہ کرنے والے کے لیے ایک ذاتی تصور بن کر رہ گیا۔
جب تجاذب کو کوانٹم میکینکس کے ساتھ یکجا (unify) کرنے کی کوشش کی گئی تو فرضی وقت (imaginary time) کا تصور متعارف کروانے کی ضرورت پڑی، فرضی وقت سپیس میں سمتوں سے ممیز نہیں کیا جا سکتا، اگر کوئی شمال کی طرف جا سکتا ہے تو وہ واپس گھوم کر جنوب کی طرف بھی جا سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی فرضی وقت میں آگے بڑھ سکتا ہے تو اسے اس قابل بھی ہونا چاہیے کہ وہ پلٹ کر واپس جا سکے، یعنی فرضی وقت کے آگے اور پیچھے کی سمتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہو سکتا، دوسری طرف جب ہم حقیقی وقت کو دیکھتے ہیں تو آگے اور پیچھے کی سمتوں میں بڑا فرق ہے، ماضی اور مستقبل کے درمیان یہ فرق کہاں سے آتا ہے ؟ ہم کیوں ماضی کو یاد کر سکتے ہیں مستقبل کو نہیں؟
سائنس کے قوانین ماضی اور مستقبل کے ما بین امتیاز نہیں کرتے، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چک ہے، سائنس کے قوانین ان کار فرما تشاکلات کے امتزاج (Combination of Operation Symmetries) کے تحت تبدیل نہیں ہوتے جنہیں سی (c)، پی (p)، اور ٹی (t) کہا جاتا ہے (c کا مطلب ہے پارٹیکل کو اینٹی پارٹیکل کے ساتھ بدلنا، p کا مطلب ہے آئینے میں عکس لینا تاکہ دائیں اور بائیں رخ تبدیل ہو جائیں، t کا مطلب ہے تمام پارٹیکلز کی حرکت کی سمت الٹ دینا یعنی واپسی کی سمت حرکت دینا) سائنس کے قوانین جو تمام حالات میں مادے کے طرزِ عمل کا تعین کرتے ہیں c اور p کے مجموعے کے تحت خود سے تبدیل نہیں ہوتے، دوسرے الفاظ میں کسی اور سیارے کے رہنے والے بالکل ایسے ہی ہوں گے، وہ ہمارے آئینے کے عکس کی طرح ہوں گے اور مادے کی بجائے اینٹی یا رد مادہ (Anti Matter) سے بنے ہوئے ہوں گے۔
اگر سائنس کے قوانین c اور p کے مشترکہ محل سے تبدیل نہ ہوں اور c، p اور t کے اشتراک سے بھی ایسا نہ ہو تو وہ صرف t کے عمل کے تحت تبدیل نہیں ہوں گے، پھر بھی عام زندگی میں حقیقی وقت کی اگلی اور پچھلی سمتوں میں بڑا فرق ہے، ذرا تصور کریں کہ ایک پانی کا گلاس میز سے فرش پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، اگر آپ اس کی فلم اتاریں تو با آسانی بتا سکتے ہیں کہ یہ آگے کی طرف چلائی جا رہی ہے یا پیچھے کی طرف، اگر آپ اسے پیچھے کی طرف چلائیں تو دیکھیں گے کہ ٹکڑے اچانک جڑتے ہوئے فرش سے واپس میز پر جا کر پورا گلاس بنا لیں گے، آپ بتا سکتے ہیں کہ فلم الٹی چلائی جا رہی ہے کیونکہ اس کا طرزِ عمل عام زندگی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آتا، اگر ایسا ہو تو شیشے کے برتن بنانے والوں کے کاروبار ٹھپ ہو جائیں۔
ہم ٹوٹی ہوئی چیزوں کو جڑتا ہوا کیوں نہیں دیکھ سکتے، اور گلاس پھر سے جڑ کر میز پر کیوں نہیں آتا؟ اس کی تشریح عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ حر حرکی (Thermodynamics) کے دوسرے قانون کے تحت ایسا ممکن نہیں ہے، اس کے مطابق کوئی بھی بند نظامی بے ترتیna (Closed System Disorder) یا انٹروپی (Entropy) وقت کے ساتھ بڑھتی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ مرفی کے قانون (Murphy’s Law) کی ایک صورت ہے کہ چیزیں ہمیشہ ابتری کی طرف مائل ہوتی ہیں، میز پر رکھا ہوا ثابت گلاس بڑی ترتیب کی حالت میں ہے مگر فرض پر پڑا ٹوٹا ہوا گلاس بے ترتیب حالت میں ہے، ماضی میں میز پر رکھے گئے گلاس سے مستقبل میں فرش پر ٹوٹے پڑے گلاس تک جایا جا سکتا ہے مگر اس کا الٹ نہیں ہو سکتا۔
وقت کے ساتھ بے ترتیبی یا ابتری (Entropy) میں اضافہ ایک ایسی مثال ہے جسے ہم وقت کا تیر (Arrow Of Time) کہتے ہیں اور جو ماضی سے مستقبل کو ممیز کر کے وقت کو ایک سمت دیتا ہے، وقت کے کم از کم تین مختلف تیر ہیں، پہلا تو حر حرکی تیر (Thermodynamic Arrow Of Time) جو وقت کی وہ سمت ہے جس سے بے ترتیبی یا ابتری (Entropy) بڑھتی ہے، پھر وقت کا نفسیاتی تیر (Psychological Arrow Of Time) یہ وہ سمت ہے جس میں وقت گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے، یہ وہ سمت ہے جس میں ہم ماضی تو یاد رکھ سکتے ہیں مگر مستقبل نہیں اور آخر میں وقت کا کونیاتی تر (Arrow Of Cosmological Time) ہے، یہ وقت کی وہ سمت ہے جس میں کائنات سکڑنے کی بجائے پھیل رہی ہے۔
میں اس باب میں بحث کروں گا کہ کائنات کی کوئی حد نہ ہونے کی شرط کمزور بشری اصول کے ساتھ مل کر اس بات کی تشریح کر سکتی ہے کہ تینوں تیر ایک ہی سمت کی طرف کیوں ہیں اور وقت کے ایک تعین شدہ تیر کا وجود کیوں ضروری ہے کہ نفسیاتی تیر کا تعین حر حرکی تیر سے ہوتا ہے اور یہ دونوں تیر لازمی طور پر ایک ہی سمت کی طرف ہوتے ہیں، اگر فرض کریں کائنات کے لیے کسی حد کی شرط نہیں تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کے تعین شدہ حر حرکی اور کونیاتی تیروں کا ہونا ضروری ہے، مگر وہ کائنات کی پوری تاریخ کے لیے ایک ہی سمت میں نہیں ہوں گے، بہر حال میں یہ بحث کروں گا کہ صرف ایک ہی سمت کی طرف ہونے کی صورت میں ہی ایسی ذہین مخلوق کی نشو و نما کے لیے حالات سازگار ہوں گے، جو یہ سوال پوچھ سکے کہ بے ترتیبی وقت کی اس سمت میں کیوں بڑھتی ہے جس میں کائنات پھیلتی ہے۔
پہلے میں حر حرکی حوالے سے وقت کے تیر پر بحث کروں گا، حر حرکیت کا دوسرا قانون اس حقیقت کا نتیجہ ہے کہ ہمیشہ بے ترتیب حالتیں با ترتیب حالتوں سے زیادہ ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ایک جگ سا معمے (jigsaw puzzle) پر غور کریں جس کے ٹکڑے جوڑنے کی فقط ایک ہی ترتیب ہے جس سے مکمل تصویر بن سکتی ہے، دوسری طرف ترتیبوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس میں ٹکڑے منتشر حالت میں ہوتے ہیں اور کوئی تصویر نہیں بناتے۔
فرض کریں با ترتیب حالتوں میں سے ایک میں یہ نظام آغاز ہوتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام سائنس کے قوانین کے مطابق ارتقاء پذیر ہو گا اور اس کی حالت بدل جائے گی، کچھ عرصے بعد یہ امکان زیادہ ہو گا کہ با ترتیب نظام کی بجائے وہ منتشر حالت میں ہو، کیونکہ منتشر حالتیں زیادہ ہیں، اس طرح اگر نظام جو ترتیب کی ابتدائی شرط پوری کرتا ہے تو بھی وقت کے ساتھ انتشار بڑھے گا۔
فرض کریں کہ آغاز میں معمہ با ترتیب حالت میں تصویر کی صورت میں ڈبے میں پرا ہے، اگر آپ ڈبے کو ہلائیں تو ٹکڑے ایک اور ترتیب حاصل کر لیں گے، ممکنہ طور پر یہ ایک بے ترتیب حالت ہو گی جس میں ٹکڑے تصویر نہیں بنائیں گے کیونکہ بے ترتیب حالتیں کہیں زیادہ ہیں، کچھ ٹکڑے اب بھی تصویر کے حصے بنا سکتے ہیں مگر آپ ڈبے کو جتنا ہلاتے جائیں گے، یہ امکان بڑھتا جائے گا کہ یہ ٹکڑے بھی ٹوٹ کر بالکل منتشر ہو جائیں اور کسی طرح کی تصویر نہ بنائیں، اس طرح اگر انتہائی ترتیب سے شروع ہونے والی ابتدائی شرط پوری کی جائے تو امکان ہے کہ وقت کے ساتھ ٹکڑوں کا انتشار بڑھے گا۔
بہر حال فرض کریں کہ خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کائنات کا اختتام انتہائی با ترتیب حال میں کرنا چاہتا ہے مگر اس میں کائنات کی ابتدائی حالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ابتدائی وقتوں میں کائنات کے منتشر حالت میں ہونے کا امکان ہو گا یعنی انتشار وقت کے ساتھ گھٹتا رہا ہو گا، آپ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو جڑتا ہوا دیکھیں گے، تاہم چیزوں کا مشاہدہ کرنے والا شخص ایسی کائنات میں رہ رہا ہو گا جہاں بے ترتیبی وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہو گی، میں یہ دلیل دوں گا کہ ایسی ہستیاں وقت کے ایسے نفسیاتی تیر کی حامل ہوں گی جس کا رخ پیچھے کی طرف ہو، یعنی وہ مستقبل کے واقعات یاد رکھیں گے اور خاص کے واقعات ان کو یاد نہیں آئیں گے، جب گلاس ٹوٹا ہو گا تو وہ اسے میز پر پڑا ہوا یاد رکھیں گے مگر جب وہ میز پر ہو گا تو انہیں اس کا فرش پر پڑا ہوا ہونا یاد نہیں ہو گا۔
انسانی یادداشت کے بارے میں گفتگو کرنا خاصہ مشکل کام ہے کیونکہ ہمیں تفصیل سے یہ معلوم نہیں کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے، تاہم ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کمپیوٹر کی یادداشت کیسے کام کرتی ہے، اس لیے میں کمپیوٹر کے لیے وقت کے نفسیاتی تیر پر بحث کروں گا، میرے خیال میں یہ فرض کرنا مناسب ہے کہ کمپیوٹر کے لیے تیر وہی ہے جو انسانوں کے لیے ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو سٹاک ایکسچینج میں آنے والے کل(to-morrow) کی قیمتیں یاد رکھنے والے کمپیوٹر کے ذریعے بہت فائدہ ہوتا۔
کمپیوٹر کی یادداشت بنیادی طور پر ایک آلہ ہے جس میں موجود عناصر دو حالتوں میں سے کسی میں بھی رہ سکتے ہیں، ایک سادہ مثال گنتارہ (Abacus) ہے (یہ گنتی سکھانے کا آلہ ہوتا ہے جس میں ایک چوکھٹے کے اندر تاروں پر گولیاں لگی ہوتی ہیں) اپنی سادہ ترین شکل میں یہ چند تاروں پر مشتمل ہوتا ہے، ہر تار پر موجود دانے کو دو میں سے کسی ایک مقام پر دکھایا جا سکتا ہے، کمپیوٹر کی یادداشت میں کچھ درج کیے جانے سے پہلے یادداشت بے ترتیب حالت میں ہوتی ہے، جس میں دو ممکنہ حالتوں کے لیے مساوی امکانات ہوتے ہیں (گنتار کے دانے اس کے تاروں پر بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں) جس نظام کو یاد رکھنا ہو یا یادداشت اس کے ساتھ باہمی عمل کرتی ہو اور نظام کی حالت کے مطابق یہ کوئی ایک یا دوسری حالت اختیار کرتی ہے (گنتار کا ہر دانہ تار کے دائیں یا بائیں طرف ہو گا) اس طرح بے ترتیب حالت ترتیب میں آ جاتی ہے، تاہم یادداشت صحیح حالت میں ہونا یقینی بنانے کے لیے توانائی کی ایک خاص مقدار استعمال کرنی ضروری ہے (مثلاً دانے کو حرکت یا کمپیوٹر کو طاقت دینے کے لیے ) یہ توانائی حرارت کے طور پر صرف ہوتی ہے اور کائنات میں بے ترتیبی کو بڑھاتی ہے، یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ بے ترتیبی میں اضافہ ہمیشہ خود یادداشت میں ترتیب کے اضافے سے زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ کمپیوٹر کو ٹھنڈا رکھنے والے پنکھوں کی خارج کردہ حرارت کا مطلب ہے جب کمپیوٹر اپنی یادداشت میں کچھ درج کرتا ہے تو پھر بھی کائنات کی مجموعی بے ترتیبی بڑھتی ہے، کمپیوٹر وقت کی جس سمت میں ماضی کو یاد رکھتا ہے وہی ہے جس میں بے ترتیبی بڑھتی ہے۔
وقت کی سمت کا ہمارا موضوعی احساس (Subjective Sense) احساس وقت کا نفسیاتی تیر ہمارے دماغ کے اندر وقت کے حر حرکی تیر سے متعین ہوتا ہے، بالکل کمپیوٹر کی طرح ہم چیزو کو اسی ترتیب میں یاد رکھتے ہیں جس میں انٹروپی یا ابتری بڑھتی ہے، اس سے حر حرکیت کا دوسرا قانون غیر اہم ہو جاتا ہے، بے ترتیبی وقت کے ساتھ بڑھتی ہے کیونکہ وقت کو ہم اسی سمت میں ناپتے ہیں جس میں بے ترتیبی بڑھتی ہے، آپ اس سے زیادہ محفوظ شرط نہیں لگا سکتے۔
مگر وقت کا حر حرکی تیر آخر موجود کیوں ہے ؟ یا دوسرے لفظوں میں وقت کے ایک کنارے پر کائنات کو انتہائی با ترتیب حالت میں کیوں ہونا چاہیے ؟ اس کنارے پر جسے ہم ماضی کہتے ہیں؟ یہ ہر زمانے میں مکمل بے ترتیبی کی حالت میں کیوں نہیں رہتی؟ آخر یہی کیوں زیادہ امکانی نظر آتا ہے ؟ اور وقت کی سمت جس میں بے ترتیبی بڑھتی ہے وہی کیوں ہے جس میں کائنات پھیلتی ہے۔
عمومی اضافیت کے کلاسیکی نظریے میں یہ پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کائنات کیسے شروع ہوئی ہو گی، کیونکہ تمام معلوم سائنس کے قوانین بگ بینگ کی اکائیت پر ناکارہ ہو گےگ، یوں کائنات ایک بہت ہموار اور با ترتیب حالت میں شروع ہو سکتی ہو گی، اس کے نتیجے میں وقت کے متعین شدہ حر حرکی اور کائناتی تیر حاصل ہوئے ہوں گے جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں مگر یہ اتنی ہی اچھی طرح ایک بہت متلاطم اور بے ترتیب حالت میں بھی شروع ہو سکتی ہو گی، اس صورت میں کائنات پہلے ہی ایک بالکل بے ترتیب حالت میں ہو گی، اس طرح بے ترتیبی وقت کے ساتھ بڑھ نہیں سکے گی، یا تو یہ برقرار رہے گی جس صورت میں وقت کا کوئی تیر معین شدہ حر حرکی تیر نہیں ہو گا یا پھر بے ترتیبی کم ہو گی، جس صورت میں وقت کا حر حرکی تیر کائناتی تیر کی مخالف سمت کی طرف ہو گا ان امکانات میں سے کوئی بھی ہمارے مشاہدے کے مطابق نہیں، بہر حال جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کلاسیکی عمومی نظریہ خود اپنے زوال کی پیشین گوئی کرتا ہے، جب مکان – زمان کا خم بڑھ جاتا ہے تو کوانٹم تجاذب کے اثرات اہم ہو جائیں گے اور کلاسیکی نظریہ کائنات کی ایک اچھی تشریح نہیں رہے گا، کائنات کا آغاز سمجھنے کے لیے تجاذب کا کوانٹم نظریہ استعمال کرنا پڑے گا۔
جیسا کہ ہم پچھلے باب میں دیکھ چکے ہیں تجاذب کے کوانٹم نظریے میں کائنات کی حالت کا تعین کرنے کے لیے یہ بتانا پڑے گا کہ ماضی میں مکان – زمان کی حد پر کائنات کی ممکنہ تواریخ کیسا طرزِ عمل اختیار کرتیں، جو کچھ ہم نہ جانتے ہیں اور نہ جان سکتے ہیں اسے بیان کرنے کی مشکل سے صرف اس طرح بچا جا سکتا ہے کہ تواریخ کسی حد کے نہ ہونے کی شرط کو پورا کرتی ہوں، وہ اپنی وسعت میں متناہی ہوں مگر کسی حد، کنارے یا اکائیت کی حامل نہیں، اس صورت میں وقت کا آغاز مکان – زمان کا ایک ہموار اور یکساں نقطہ ہو گا اور کائنات نے اپنا پھیلاؤ ایک بہت ہموار اور با ترتیب حالت میں شروع کیا ہو گا، وہ مکمل طور پر یکساں نہیں ہو گی، کیونکہ اس طرح کوانٹم نظریے کے اصولِ غیر یقینی کی خلاف ورزی ہو گی، پارٹیکلز کی رفتاروں اور کثافت میں معمولی کمی بیشی ضرور تھی، تاہم کوئی حد نہ ہونے کی شرط کا مطلب تھا کہ کمی بیشی اصولِ غیر یقینی کے مطابق کم سے کم تھی۔
کائنات ایک تیز رفتار یا افراطی دور میں شروع ہوئی ہو گی جس میں اس نے اپنی جسامت بہت تیزی سے بڑھائی ہو گی، اس پھیلاؤ کے دوران کثافتی کمی بیشی شروع میں معمولی رہی ہو گی، مگر بعد میں اس میں اضافہ شروع ہو گیا ہو گا، جن خطوں میں کثافت معمول سے کچھ زیادہ ہو گی ان کا پھیلاؤ اضافی مادیت اور تجاذبی قوت سے سست ہو گیا ہو گا، ایسے خطے پھیلنا چھوڑ دیں گے اور ڈھیر ہو کر کہکشائیں، ستارے اور ہمارے جیسی مخلوق تشکیل دیں گے، کائنات ایک ہموار اور با ترتیب حالت میں شروع ہوئی ہو گی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متلاطم اور بے ترتیب ہوتی گئی ہو گی، اس سے وقت کے حر حرکی تیر کی تشریح ہو گی۔
لیکن اگر کبھی کائنات نے پھیلنا چھوڑ دیا اور سمٹنا شروع کر دیا تو پھر کیا ہو گا؟ کیا حر حرکی تیر الٹ جائے گا اور بے ترتیبی وقت کے ساتھ گھٹنے لگے گی، اس طرح ان لوگوں کے لیے جو پھیلاؤ سے لے کر سکڑنے کے دور تک باقی رہے ہوں گے ہر قسم کی سائنس فکشن (Science Fiction) کی طرح کے امکانات سامنے آئیں گے، کیا وہ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو جڑتا ہوا دیکھیں گے ؟ کیا وہ اس قابل ہوں گے کہ آنے والے کل کی قیمتیں یاد کر کے سٹاک مارکیٹ سے فائدہ حاصل کر سکیں گے ؟ یہ فکر کچھ عملی سی معلوم ہوتی ہے کہ کائنات کے دوبارہ زوال پذیر ہونے پر کیا ہو گا؟ کیونکہ وہ کم از کم دس ارب سال تک سمٹنا شروع نہیں کرے گی؟ لیکن اگر یہ معلوم کرنے کی جلدی ہو تو اس کا بھی ایک طریقہ ہے، بلیک ہول میں چھلانگ لگانا، ایک ستارے کا ڈھیر ہو کر بلیک ہول بنانا کچھ ایسا ہی ہے جیسا پوری کائنات کے ڈھیر ہونے کے مراحل، چنانچہ اگر کائنات کے سمٹنے کے دور میں بے ترتیبی کم ہوتی ہے تو اس سے بیلک ہول کے اندر بھی کمی تو توقع کی جا سکتی ہے، اسی طرح شاید بلیک ہول میں گرنے والا خلا نورد جوئے میں رقم جیت لے گا کیونکہ اسے شرط لگانے سے پہلے یاد ہو گا کہ گیند کہاں رکھا تھا (مگر بدقسمتی سے وہ خود سویوں (spaghetti) کی شکل اختیار کرنے سے پہلے زیادہ کھیل نہیں سکے گا اور نہ ہی وہ اس قابل ہو گا کہ ہمیں حر حرکی تیر کے الٹنے کے بارے میں بتا سکے یا ا پنی جیتی ہوئی رقم ہی بینک میں رکھوا سکے کیونکہ وہ تو بلیک ہول کے واقعاتی افق کے پیچھے پھنس چکا ہو گا)۔
پہلے تو مجھے یقین تھا کہ جب کائنات دوبارہ ڈھیر ہو گی تو بے ترتیبی کم ہو جائے گی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ جب کائنات دوبارہ چھوٹی ہو گی تو اسے ہموار اور با ترتیب حالت میں واپس جانا پڑے گا، اس کا مطلب ہو گا پھیلتے ہوئے فیز (phase) کا وقت الٹ سکڑتے ہوئے فیز کی طرح ہو گا، سکڑنے والے فیز میں لوگ اپنی زندگی ماضی کی طرف گزار رہے ہوں گے، یعنی پیدا ہونے سے پہلے مرجائیں گے اور کائنات سمٹنے کے ساتھ ساتھ کم عمر ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ تصویر پُر کشش ہے کیونکہ اس کا مطلب ہو گا کہ پھیلتی اور سکڑتی ہوئی ہیئتوں کے درمیان ایک عمدہ تشاکل ہے، تاہم اسے کائنات کے بارے میں دوسرے تصورات سے الگ آزادانہ طور پر اختیار نہیں کیا جا سکتا، سوال یہ ہے کہ کیا یہ کسی حد کے نہ ہونے سے مشروط ہے یا یہ اس شرط سے مطابقت نہیں رکھتا؟ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ابتداء میں میرا خیال تھا کہ کوئی حد نہ ہونے کی شرط کا یقیناً یہ مفہوم تھا کہ سکڑتے ہوئے فیز میں بے ترتیبی کم ہو گی، سطح زمین سے مشابہت نے مجھے کچھ غلط راستے پر ڈال دیا تھا، اگر کائنات کے آغاز کو قطبِ شمالی کے مترادف سمجھا جائے تو کائنات کا انجام بھی آغاز جیسا ہونا چاہیے کیونکہ قطبِ جنوبی بھی قطبِ شمالی جیسا ہے، تاہم شمالی اور جنوبی قطبین فرضی وقت میں کائنات کے آغاز اور انجام سے مطابقت رکھتے ہیں مگر حقیقی وقت میں آغاز اور انجام ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں، پھر میں خود اپےج کیے ہوئے کام کی وجہ سے بھی گمراہ ہوا جو میں نے کائنات کے سادہ ماڈلوں پر کیا تھا جس میں پھیلتے ہوئے فیز کا وقت الٹ کر ڈھیر ہوتے ہوئے فیز جیسا نظر آتا ہے، بہر حال میرے ایک رفیقِ کار پنسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈون پیج (don page) نے نشاندہی کی کہ کوئی حد نہ ہونے کی شرط (No Boundary Condition) کے لےئ ضروری نہںe تھا کہ سکڑتا ہوا فیز لازمی طور پر پھیلتے ہوئے فیز (Expanding Phase) سے وقت کے اعتبار سے الٹ ہو، اس کے علاوہ میرے ایک شاگرد ریمنڈ لافلیم (Ramond Laflamme) نے یہ دریافت کیا کہ کچھ زیادہ پیچیدہ ماڈل میں کائنات کا ڈھیر ہونا اس کے پھیلاؤ سے خاصہ مختلف تھا، میں سمجھ گیا کہ میں نے غلطی کی تھی، کوئی حد نہ ہونے کی شرط کا مطلب تھا کہ بے ترتیبی در حقیقت سمٹنے کے دوران بھی مسلسل بڑھتی رہے گی، وقت کے حر حرکی اور نفسیاتی تیر بلیک ہول کے اندر یا کائنات کے سمٹنے پر الٹ نہیں جائیں گے۔
جب آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ ایسی غلطی کر چکے ہیں تو آپ کیا کریں گے ؟ کچھ لوگ کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ وہ غلط ہیں اور اپنی بات کی حمایت میں مسلسل نئے اور متضاد دلائل ڈھونڈتے رہتے ہیں جیسا کہ ایڈنگٹن (Eddington) نے بلیک ہول کے نظریے کی مخالفت میں کیا تھا، کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اول تو انہوں نے غلط نقطۂ نظر کی کبھی حمایت ہی نہیں کی یا اگر کی بھی تھی تو دکھانے کے لیے کہ یہ صحیح نہیں تھا، مجھے تو یہ بات بہت تیز اور کم پریشان کن معلوم ہوتی ہے کہ تحریری طور پر اپنے غلط ہونے کا اعتراف کر لیا جائے، اس کی ایک اچھی مثال آئن سٹائن تھا جس نے کائنات کے ایک ساکن ماڈل بنانے کی کوشش میں کائناتی مستقل متعارف کروایا تھا اور بعد میں اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا۔
وقت کے تیر کی طرف لوٹتے ہوئے یہ سوال برقرار ہے کہ ہم حر حرکی اور کائناتی تیروں کو ایک ہی سمت کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں بے ترتیبی وقت کی اس سمت میں کیوں بڑھتی ہے جس میں کائنات پھیلتی ہے ؟ اگر یہ یقین کر لیا جائے کہ بظاہر کوئی حد نہ ہونے کی شرط کے مطابق کائنات پھیلے گی اور پھر دوبارہ سمٹے گی تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سکڑتے ہوئے فیز کی بجائے پھیلتے ہوئے فیز میں کیوں ہوں۔
اس کا جواب بشری اصول کی بنیاد پر دیا جا سکتا ہے، سکڑتے ہوئے فیز میں ایسی ذہین مخلوق کے وجود کے لیے حالات سازگار نہیں ہوں گے جو یہ سوال پوچھ سکے کہ بے ترتیبی اس سمت میں کیوں بڑھ رہی ہے جس میں کائنات پھیل رہی ہے ؟ کوئی حد نہ ہونے کی تجویز کے مطابق کائنات کے ابتدائی مراحل میں افراط کا مطلب ہے کائنات کا پھیلاؤ جو اس فیصلہ کن شرح کے بہت قریب ہو گا جس پر وہ دوبارہ ڈھیر ہونے سے محفوظ رہ سکے اور اسی باعث وہ بہت طویل عرصے تک دوبارہ ڈھیر نہیں ہو گی، اس وقت تک تمام ستارے جل کر تمام ہو چکے ہوں گے اور ان میں پروٹون اور نیوٹرون شاید ہلکے پارٹیکلز بھی تابکاری میں زوال پذیر ہو چکے ہوں گے، کائنات تقریباً مکمل طور پر بے ترتیب حالت میں ہو گی، وقت کا کوئی مضبوط حر حرکی تیر نہیں ہو گا، بے ترتیبی زیادہ نہیں بڑھ سکے گی کیونکہ کائنات پہلے ہی تقریباً مکمل طور پر بے ترتیبی کی حالت میں ہو گی، تاہم با شعور زندگی کے عمل پذیر ہونے کے لیے وقت کا ایک مضبوط حر حر کی تیر ضروری ہے، زندہ رہنے کے لیے انسانوں کو غذا استعمال کرنی پڑتی ہے جو توانائی کی با ترتیب شکل ہے پھر اسے حرارت میں تبدیل کرنا پڑتا ہے جو توانائی کی بے ترتیب شکل ہے، اسی لیے کائنات کے سکڑتے ہوئے فیز میں با شعور زندگی کا وجود ممکن نہیں ہے، یہی اس بات کی تشریح ہے کہ ہم اپنے مشاہدے میں وقت کے حر حرکی اور کائناتی لہروں کو ایک ہی سمت میں اشارہ کرتے ہوئے کیوں دیکھتے ہیں، کائنات کا پھیلاؤ بے ترتیبی میں اضافے کا باعث نہیں بلکہ کوئی حد نہ ہونے کی شرط ہی بے ترتیبی میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور با شعور زندگی کے لیے حالات صرف پھیلتے ہوئے فیز ہی میں سازگار بناتی ہے۔
مختصر یہ کہ سائنس کے قوانین اگلی یا پچھلی سمتوں میں امتیاز نہیں کرتے، وقت کے کم از کم تین تیر ایسے ہیں جو ماضی کو مستقبل سے ممیز کرتے ہیں، حر حرکی (Thermodynamic) تیر یعنی وقت کی سمت میں بے ترتیبی بڑھتی ہے، نفسیاتی تیر یعنی وقت کی سمت میں ہم ماضی کو یاد رکھتے ہیں مستقبل کو نہیں، اور کائناتی تیر یعنی وقت کی سمت جس میں کائنات سمٹتی نہیں پھیلتی ہے، میں یہ بتا چکا ہوں کہ نفسیاتی تیر بنیادی طور پر حر حرکی تیر جیسا ہی ہے، یعنی یہ دونوں ہمیشہ ایک ہی سمت میں اشارہ کریں گے، کائنات کے لیے کوئی حد نہ ہونے کی تجویز وقت کے ایک متعین شدہ حر حرکی تیر کی موجودگی میں پیشین کوئی کرتی ہے، کیونکہ کائنات لازمی طور پر ایک ہموار اور با ترتیب حالت میں شروع ہوئی ہو گی، اور ہم اپنے مشاہدے میں حر حرکی تیر کو کائناتی تیر کے موافق اس لیے دیکھتے ہیں کہ با شعور مخلوقات صرف پھیلتے ہوئے فیز ہی میں موجود رہ سکتی ہیں، سکڑتا ہوا فیز نا موزوں ہو گا کیونکہ یہ وقت کے کسی مضبوط حر حرکی تیر کا حامل نہیں ہو گا۔
کائنات کی تفہیم میں نسلِ انسانی کی ترقی نے مزید بے ترتیب ہوتی ہوئی کائنات میں ترتیب کا ایک چھوٹا سا گوشہ قائم کیا، اگر آپ اس کتاب کا ہر لفظ یاد کر لیں تو آپ کی یادداشت میں تقریباً بیس لاکھ ٹکڑے درج ہوں گے اور آپ کے دماغ کی ترتیب میں تقریباً بیس لاکھ اکائیوں کا اضافہ ہو گا، تاہم یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ غذا کی شکل میں با ترتیب توانائی کے کم از کم ایک ہزار حرارے (calories) بے ترتیب توانائی میں تبدیل کر چکے ہوں گے جو حرارت کی شکل میں آپ اپنے ارد گرد کی فضا کو جذب کرنے کے لیے حمل حرارت (convection) اور پسینے کی شکل میں دیتے ہیں، اس میں کائنات کی بے ترتیبی میں تقریباً بیس ملین ملین ملین ملین اکائیوں کا اضافہ ہو گا جو آپ کے دماغ کی ترتیب میں تقریباً دس ملین ملین ملین گنا زیادہ ہو گی، یہ اس صورت میں ہو گا اگر آپ اس کتاب میں موجود ہر چیز کو یاد کریں، میں اگلے باب میں اپے یہ مسائل کچھ مزید سلجھانے کی کوشش کروں گا اور یہ بتاؤں گا کہ کس طرح لوگ جزوی نظریات کو ملا کر ایک جامع نظریہ وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کائنات میں ہر چیز پر محیط ہو۔
٭٭٭