نعت (سہ قافیتین) ۔۔۔ صادق اندوری (مرحوم)

 

معراج کی شب بالائے فلک انوارِ ہدایت آیا ہے

صف بستہ ہیں سب جن اور ملک گلزار حقیقت سجتا ہے

 

مانند تخئیل شکل نظر صرف ایک ہی لمحے میں اڑ کر

افلاک کی رفعت پر یکسر رہوارِ نبوت پہنچا ہے

 

بخشش کی امیدیں کیا معنی اس وقت تک اے انسانِ دنی

جب تک نہ ہو دل میں حبِ نبی پندار شفاعت بیجا ہے

 

اے ننگ ہوس اے ننگِ طلب ہے یہ ہی مناسب اور اغلب

کچھ نیکی کا سودا کر لے اب بازار شفاعت سستا ہے

 

تو سیعِ عمل بیکار نہ کر اے فکر کنندۂ دردِ جگر

جا راہ لگ اپنی چارہ گر، بیمارِ محبت اچھا ہے

 

مقبول خدا وہ بندہ ہے تقدیر کو اس کی کیا کہتے

کیا پوچھتا ہے اس کا جس نے دربارِ رسالت دیکھا ہے

 

بخشش کے لیے سلطان امم ہیں میری طرف مائل بہ کرم

صادق ہو مجھے کیا حشر کا غم اب بارِ ندامت ہلکا ہے

٭٭٭

3 thoughts on “نعت (سہ قافیتین) ۔۔۔ صادق اندوری (مرحوم)

  • صاحبِ کلام تو اللہ کو پیارے ہو چکے جناب اسامہ! آپ کے اشکالات کون دور کرے گا؟
    ترکیب "سہ قافیتین” بجائے خود محلِ نظر ہے۔ "ین” تثنیہ کا ہوتا ہے۔ دو قافیے! سہ یعنی تین کو قافیتین تو نہیں کہیں گے؛ قافیات یا قوافی البتہ قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔
    امید ہے کہ جنابِ مدیر "سہ قوافی” پر توجہ فرمائیں گے۔

    • متفق ہوں لیکن کیونکہ نعت والد مرحوم کی شائع شدہ کتاب سے لی تھی اس لئے میں نے اسی طرح شامل کر لی۔ ویسے ذو قافیتین تو ہوتا ہے لیکن گرامر کی رو سےاس میں بھی ذو کی ضرورت نہیں، لیکن عروض میں یہ اصطلاح عام ہو گئی ہے۔

  • کچھ فنی اشکالات ہیں جو اگر دور کردیے جائیں تو بندہ ممنون ہوگا۔
    سہ قافیتین سے کیا مراد ہے؟
    قافیتین کا مطلب دو قافیے ، اس لحاظ سے "سہ قافیتین” میں چھ قافیے ہونے چاہییں۔
    جبکہ اس نعت کا مطلع چہارقافیہ اور باقی اشعار سہ قافیہ ہیں۔
    علاوہ ازیں اصل اعتبار سب سے آخری قافیے کا ہوتا ہے ، مگر وہ اس نعت میں اتحاد روی سے محروم ہے۔

محمد یعقوب آسی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے