واجدہ کا افسانوی سچ ۔۔۔ زبیر رضوی

وہ چہرے اور نام جو ماضی کے حوالے سے میرے حافظے میں روشن رہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق حیدرآباد تھا، وہ حیدرآباد جو جنوبی ہندوستان میں سب سے بڑی نوابی ریاست کا اور جس کی عمارتوں پر آصف جاہی خاندان کا پرچم لہرایا تھا۔ میں نے اس حیدرآباد کو اس وقت دیکھا تھا جب کنگ کوٹھی سے فراٹے بھرتی ہوئی آصف سابع میر عثمان علی خاں کی شاہی موٹر کار کو عابد شباب معظم جاہی مارکٹ اور پتھر گٹی کی وسیع و عریض سڑک پر دور و یہ کھڑی خلقت، بے حس و حرکت سانس روکے دیکھا کرتی تھی۔ سیٹیوں کے شور میں فورڈ کے بعد دنیا کا سب سے امیر نواب پل جھپکتے ہی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا، دور دیہ قطاریں ٹوٹ کر گلی کوچوں میں جب معمولی چہل پہل کی رونقیں بڑھا دیتیں۔ میر عثمان خان کی فراٹے بھرتی ہوئی کار اپنی رعایا کے ہونٹوں پر اپنے طلسماتی قصے کہانیاں چھوڑ جاتی ان قصے کہانیوں میں یاک عجیب سی ناقابل یقین خیال آفرینی ہوتی جس کے منہ اتنی باتیں یہ وقت ڈوبتے ہوئے سورج کی معدوم ہوتی ہوئی تمازت اور روشنی کا تھا، کنگ کوٹھی کے باہر کی طرف کھلتے آہنی پھاٹکوں کے کھلنے بند ہونے کی اوقات بدل چکے تھے سڑک پر چلتی پھرتی شیروانیاں اور ترکی ٹوپیاں پہنے مخلوق کو سیٹیوں کے شور سے ایک طرف کھڑے ہوئے ایک زندہ عہد کا آہ و بکا کے ساتھ رخصت کرنے کا اذن مل چکا تھا لیکن گھروں کی دیواروں پر یہ شعرا ابھی لکھا ہوا تھا۔

سلاطین سلف سب ہو گئے نذر اجل عثمان

مسلمانوںکا تیری سلطنت سے ہے نشاں باقی

سنا ہے کسی سر پھرے نے دوسرے مصرعے میں "مسلمانوں کا۔ کو یوں کر دیا تھا۔’مسلمانوں سے تیری سلطنت کا ہے نشاں باقی، تو اس کو دیوار میں زندہ تو نہیں چنوایا گیا مگر شہر بدر ضرور کر دیا گیا تھا۔ کنگ کوٹھی والوں نے سورج ڈوبنے کے منظر کو قصوں اور کہانیوں کو سر محفل سنانا اور کام کرنا شروع کر دیا کہ یہ وقت سچے قصے سنانے کا۔

آصف جاہی خاندان کے سچے کنگ کوٹھی کی چہار دیواری سے باہر آنے لگے تھے غلاف اترنے لگے تھے شیروانی اور دستاروں پر عجمی میل اور تیل جمی ہوئی تہیں نظر آنے لگی تھیں، رکشوں، بنڈیوں اور شکراموں پر پڑے پردے چلمنوں سے قصے اور کہانیوں کے چہرے باہر جھانکنے لگے تھے گھٹن اور حبس کے ماحول میں قصوں کے آثار پھوٹنے لگے تھے، گہرے پردوں میں رہنے والوں نے یہ احساس دلانا شروع کر دیا تھا کہ زندگی سے سرگرم معانقے اور جان پہچان کیلئے کھلے خیموں اور آنگنوں کی فضاء ضروری نہیں کہانی پس پردہ اور پس چلمن بھی رہ کر سنائی جاسکتی ہے۔ ہم ان قصوں کے سننے والوں میں تھے۔

شاذ تمکنت اور عوض سعید پس پردہ اور پس چلمن ایک زوال آمادہ معاشرے کا قصہ سنانے والی پردہ پوش آوازیں تھیں جیلانی بانو اور واجدہ تبسم کی۔ یہ دونوں جب اپنے پردہ دار گھروں میں پڑھنے اور سننے والوں کی آنکھوں سے اوجھل قصے کا تانا بانا بنا کرتی تھیں تو گھروں کی اونچی اونچی دیواروں کے باوجود کی آوازیں ہم تک پہنچ جایا کرتی تھیں۔ یہ قصے کنگ کوٹھی کی کوکھ سے جنم لینے والی معاشرت کے سچے قصے تھے۔ جنھیں پہلی ایک دلچسپ پیرا یہ بیان کے ذریعہ سننے والوں کی سماعت کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ ہم ان قصوں کے سچے کھوٹے ہونے کی دیر تک باتیں کرتے تعجب کرتے تھے کہ واجدہ اور بانو کو ہم اپنی سیر جہاں کرنے والی آنکھوں سے آج تک نہیں دیکھا انہیں یہ سارا افسانوی مواد ملتا کہاں سے ہے۔ عوض، دلیل کے طور پر وضاحت کرتا، عصمت، خدیجہ، ہاجرہ، قرۃ العین اور ممتاز شیریں نے بھی تو گھروں کے پردہ نشین ماحول میں بیٹھ کے لکھا تو معاشرے کا کالا سفید تو گھر گھر تاک جھانک کرتا ہوا قلم کی نوک پر آ کے ٹک جاتا ہے۔ مگر جی کچھ کچھ نہ مانتا اور مچل اٹھتا کہ نئے زمانے کے ان قصہ گویوں کو کسی صورت دیکھ تو لیا جائے مگر دیوانوں کا خواب خواب پریشان ہی رہا۔ دیواروں پر چھید کئے مگر دیواروں کے بیچ منہ نظر نہیں آیا۔

واجدہ کے سلسلے میں یہ ہم تینوں کے درمیان در پردہ ایک طرح کی زیادتیوں کے دن تھے جب واجدہ کا افسانہ "اترن” شائع ہوا تو پڑھنے والوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ واجدہ نے مقبولیت کے سارے راستے ایک جست میں پار کر لئے تھے ۔کنگ کوٹھی نے حیدرآبادی معاشرے کے جس چال چلن کی آبیاری کی تھی جن غلیظ اور بدبو دار موریوں پر عطر دان رکھے تھے ان کے بارے میں یہ جان کر لوگ حیران تھے کہ وہ سارے گٹر تھے واجدہ کے افسانوں نے ایک ایک کر کے اس معاشرے کی بداعمالیوں اور بد چلنیوں پر پڑے گہرے دبیز پردے ہٹانے شروع کر دئیے۔ جس کیلئے خاصی جرأت درکار تھی دور کے افسانوں میں جتنی لذتوں کے چٹخاروں نے واجدہ کے افسانوں کو فاصلے کی چیز بنا دیا ۔ہم تینوں پھر حیران تھے چار دیواری میں بیٹھ کر واجدہ اتنی تہہ داریوں کو الٹ پلٹ کے ایسا قیامت آفرین افسانہ لکھ کیسے لیتی ہے؟

ایک دن میں واجدہ کے بڑے بھائی اور اپنے دوست مظہر حسین قیصر سے پوچھ ہی لیا مظہر کا جواب تھا جس طرح چیونٹی پتھروں میں اپنا رزق تلاش کر لیتی ہے واجدہ بھی پردہ میں رہ کر اپنے افسانے کا رزق تلاش کر لیتی ہے۔ واجدہ کو اپنے گھر اور اپنے بھائیوں کی پوری حمایت حاصل تھی، واجدہ شمع گروپ واجدہ کو زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے کر اپنے لئے لکھتے رہنے کیلئے آمادہ رکھتا تھا۔ اسی دوران ادبی رسالوں نے واجدہ کے افسانوں کو توجہ سے دیکھا اور سنجیدگی سے پڑھا تو واجدہ کو ادبی رسائل کی طرف متوجہ کیا۔ واجدہ کو ادب کی شاہراہ پر اپنے خرام ناز سے تہلکہ بپا کرنا تھا سو واجدہ نے یہ بھی کر دکھایا۔

نہ جانے کیسے واجدہ کو ممبئی جا کر فلم بنانے کا خیال آیا مجھے یاد ہے واجدہ کے بھائی مظہر نے میرے پوچھنے پر کہا تھا "واجد کو بڑی تیز رفتاری سے ایک مقبول ترین افسانہ نگار کی شہرت مل گئی کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہوئی اس کے پاس اچھی کہانیوں کا ذخیرہ ہے وہ فلم بنائے گی تو کامیاب ہی رہے گی۔ لیکن مظہر اور خود واجدہ اور ان کے میاں کا اندازہ صحیح نہیں نکلا۔ یہ آفتاب کے ڈوبنے کا اشاریہ تھا۔

جب واجدہ کو پردے سے باہر دیکھنے کا پہلی بار موقع ملا تو وہ دلی تھی جہاں میں حیدرآباد سے آ کر باقاعدہ بس گیا تھا، یہ موقع ملا 1965-66 کے آس پاس جب خواجہ احمد عباس نے ممبئی کے افسانہ گروپ یعنی کرشن چندر، بیدی اور عصمت جیسی افسانہ نگاروں کی مدد سے ملک گھر میں مشاعرے کی طرح شام افسانہ کے پروگرام کی فضاء بنائی تھی دلی میں ایسا ہی پروگرام دلی کی میونسپل کمیٹی کے ٹاؤن ہال میں منعقد کیا گیا تھا افسانہ نگاروں میں ایک نام واجدہ تبسم کا بھی تھا حیدرآباد اور پھر دلی کے قیام کے اس عرصے میں واجدہ کی مقبول ترین افسانہ نگار والی شخصیت میں اور بھی قصے کہانی جڑے گئے تھے مثلاً یہ کہ واجدہ کبھی کبھی اپنے طرز عمل سے بڑی نارمل سی ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے ہندوستانی معاشرے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایبنارملٹی کو سیدھے سیدھے پاگل پن کے قریب ترین زمرے میں رکھ دیتا ہے۔ جبکہ کسی بھی فنکار کا ادیب کا ایبنارمل ہونا اس کے تخلیقی مزاج کے عین مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً پینٹر حسین کا ننگے پاؤں پھرنا اور افسانہ لکھنے کے اضطراب سے پہلے انور سجادہ کا رقص کرنے کی کیفیت میں ڈوب جانا۔

دلی میونسپل کمیٹی کا ٹاؤن ہال ادب اور شاعری کے شائقین سے بھر چکا تھا میں اور محمود ہاشمی اس زمانے میں ٹاؤن ہال سے کچھ دوری پر واقع بلی ماران کے پھاٹک حسام الین میں رہتے تھے یاد آتا ہے کہ ہم دونوں واجدہ تبسم کو دیکھنے کی للک میں ٹاؤن ہال پہنچے تھے بڑی بیتابی سے ہماری نگاہوں نے ہال کا جائزہ لیا نظر ڈائس پر ڈالی تو سمٹی سمٹائی خواجہ احمد عباس کے برابر میں واجدہ کو بیٹھے دیکھا تب تک واجدہ کی تصویریں رسالوں میں عام ہو چکی تھیں، واجدہ کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ افسانہ خوانی کا آغاز ہوا تو ہمارا اضطراب یہ تھا کہ جلدی سے واجدہ کو افسانے سنانے کی دعوت دے دی جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوا سامعین کی ایک بڑی تعداد واجدہ کی پرستار تھی۔ جب کچھ دیر بعد واجدہ کو اپنا تازہ افسانہ سنانے کی دعوت دی گئی اور نام پکارا گیا تو ٹاؤن ہال پہلی بار دھم دھم کرتی تالیوں سے گونجتا رہا تھا۔ اترن اور نتھ اترائی جیسی ہیجان خیز کہانیاں لکھنے والی واجدہ نے دوپٹے پر پلکوں کی چلمن گرا کے ارد گرد اسی طرح لپیٹا جیسے وہ نماز پڑھنے کے ارادے سے کھڑی ہوئی ہو۔ واجدہ نے آنکھوں پر پلکوں کی چلمن کو گرا یا اور عقیدت بھری آواز میں کہا۔ میں افسانہ نہیں نعت سناؤں گی، یہ کہہ کر واجدہ نے سینے پر ہاتھ باندھ لئے اور اسی سال ملک بھر میں ریلیز ہونے والی فلم مغل اعظم کی یہ نعت اسی دھن میں شروع کر دی۔

امت پہ کرم کیجئے یا شاہ مدینہ*

مجھے لگا تھا اس شام واجدہ کا افسانہ نہ سناکر نعت سنانا اپنے باطن میں ڈوب کر عرفان ذات کو پا لینے کا ایک ایسا عمل تھا جو کم کم ہی کسی کے حصے میں آتا ہے۔ معاشرے کی عشرت گاہوں کا جب سارا سیاہ سفید دھواں بن کر چراغوں کے بجھنے کی خبر دینے لگا تھا تو واجدہ نے خاموشی اختیار کر لی تھی شاید وہ دیدہ و شنیدہ معاشرہ کے سارا فاسد خون انجکشن کی سوئی میں بھر کر نالی میں بہا چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

* زبیر رضوی سے سہوہوا ہے۔ یہ نعت ہے ’بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ‘۔ ا ع

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے