فاطمہ ثریا بجیا:کیا کیا ہمیں یا د آیا جب یاد تیری آئی ۔۔۔ غلام ابن سلطان

 

اس عالمِ آب و گِل میں موجود ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے۔ آغاز سفر میں اس راستے میں ہزار ہا شجر سایہ دار اور بُو ر لدے چھتنار ہمیں آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے موجود ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ کٹھن راستوں پر چلتے چلتے جب سفر کی دھُول ہمارا پیرہن بن جائے تب بھی یہ مسافر نواز اثمار و اشجار سدا ان مقامات پر کھڑے چھاؤں بانٹتے رہیں۔ جب ہماری مسافت کٹ جاتی ہے اور ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ زیر و زبر ہو گیا۔ سیلِ زماں کی بلا خیز موجیں سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں۔ حیات و ممات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ ہماری روزمرہ زندگی کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ یہ ہے یہاں موت سدا زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موت سے کسی کو رستگاری نہیں اور ہم سب راہِ رفتگاں پر گامزن ہیں۔ سب لوگ کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ آج ایک شخص دائمی مفارقت دے گیا تو اس کے بعد کل ہمیں اپنی باری بھرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھنے والوں کے الم نصیب لواحقین نالہ، فریاد، آہ اور زاری کر کے اس منظر غم و اندوہ کے ٹل جانے کی التجا کرتے ہیں لیکن گُل چین ازل کو کب ترس آتا ہے۔ شہ رگ کی طر ف بڑھتے ہوئے اجل کے ہاتھ کو آج تک کون روک سکا ہے۔ کاتب تقدیر کی طرف سے اجل کے ہاتھ میں ہر روز ایک پروانہ تھما دیا جاتا ہے اس پروانے میں جس کا بھی نام رقم ہوتا ہے وہ زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتا ہے، یوں چشم کے مُرجھا جانے کا سانحہ ہو جاتا ہے۔ وہ ہستیاں جو ہمارے دل میں بستی تھیں، ہماری آنکھیں انھیں دیکھنے کے لیے تر ستی رہتی ہیں ۔ اس جان لیوا صدمے پر پس ماندگان کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں۔ اس ناقابل تلافی نقصان پر ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں اور ہماری آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی ہے۔ کچھ عظیم شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے سانحہ ارتحال پر روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشتہ ٔ ا جل نے دائمی مفارقت دینے والی شخصیت کی روح قبض کرتے وقت بد قسمت سوگواروں سے قوت گویائی بھی چھین لی ہے۔ ان الم نصیبوں کی زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں، سینہ و دِل پر یاس و ہراس کے کالے بادل مقدر کی سیاہی بن کر اُمڈ آتے ہیں، سانس اُکھڑنے لگتی ہے اور دِل ڈوبنے لگتا ہے۔ آنکھیں پتھرا کر سُو کھے چشموں کے مانند نمی سے محروم ہو جاتی ہیں۔ ان کے بعد پُورا شہر سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ حبس کے اس جان لیوا موسم میں ہر ٹھکانہ محبس لگتا ہے۔ داخلی اعتبار سے انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ نہاں خانۂ دِل میں موجود ماضی کی حسین یادوں کا قصرِ عالی شان زمیں بوس ہو گیا ہے۔ اب اپنے رنج و غم کی حکایاتِ خونچکاں کا احوال کسے سنایا جائے کہ دلِ شکستہ کا حال توجہ سے سننے اور دلاسا دینے والی مونس ہستی اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہی۔ بِچھڑنے والی ہستی کے زندہ در گور احباب حالات کا جبر سہتے ہوئے اپنی قبر میں آہ و فغاں کی سکت نہیں رکھتے۔ دُور بہت ہی دُور اپنی الگ بستیاں بسانے والی ہستی سے جا ملنے کی تڑپ لیے بے بسی کے عالم میں دِل تھامے سانس گِن گِن کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ فاطمہ ثریا بجیا کا شمار ایسی ہی عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جن کی دائمی مفارقت پر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ اور جذبات کی تہی دامنی دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم

پاکستانی ادبیات کے افق پر ضو فشاں وہ ماہتاب جس کی چاندنی گزشتہ آٹھ عشروں سے ہر سُو پھیلی تھی عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔ وہ بصیرت سے لبریز وہ آنکھیں جنھوں نے یکم ستمبر سال 1930کی صبح کر ناٹک میں پہلی بار اس عالمِ آب و گِل کو دیکھا تھا، وہ دس فروری سال 2016کی شام کراچی میں ہمیشہ کے مُند گئیں اور اس کے ساتھ ہی اردو ادب میں تانیثیت کے ایک درخشاں عہد کی تابانیاں بھی ماند پڑ گئی۔ کراچی کے” گزری شہر خموشاں ” کی زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ فاطمہ ثریا بجیا کے عظیم خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے محترمہ زاہدہ حنا نے روزنامہ ایکسپریس، لاہور میں چودہ فروری 2016 کو شائع ہونے والے اپنے مقبول کالم "نرم گرم” میں ’بجیا بہت یاد آئیں گی‘ کے عنوان سے لکھا ہے :

"ان کے خاندانی پس منظر پر نگاہ کیجیے تو فاطمہ ثریا بجیا کے بزرگ بر صغیر کی اشرافیہ میں شمار کیے جاتے تھے۔ یہ خاندان ایران سے ہندوستان آیا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوا، اس خاندان کی علمی اور معاشرتی حیثیت مثالی تھی۔ ان کا گھرانہ ثقافت کے حوالے سے معروف تھا۔ قاضی مقصودحسین کے فرزند قمر مقصود حمیدی کی شادی آگرہ کی ایک افسر خاتون سے انجام پائی۔ دونوں خاندان شرف اور اعزاز کے حامل تھے۔ قمر مقصود حمیدی کے گھر میں ایک ننھی پری کا اضافہ ہوا۔ نانا نے بچی کا نام فاطمہ رکھا۔ نانی نے اس وقت کی افغان ملکہ ثریا کے نام پر ثریا خاتون نام رکھا۔ یوں اس بچی کو فاطمہ ثریا کہا جانے لگا۔ 1948میں سقوط حیدر آباد دکن کے بعد قمر مقصود حمیدی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے اور اپنے ساتھ ہزاروں کتابیں لائے کہ اس زمانے میں کتابیں سب سے بڑی دولت سمجھی جاتی تھیں۔

وہ ایک جمے جمائے خاندان کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ چند برس کی ایک تلخ شادی شدہ زندگی گزار کر گھر واپس آئیں تو کبھی بھُولے سے بھی اس رنج و الم کا ذکر نہ کیاجسے انھوں نے صبر و ضبط سے جھیلا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی ’بجیا‘ بنیں اور پھر پورے شہر اور ملک کی’ بجیا‘ بن گئیں۔ ”   (1)

اردو ادب اور فنون لطیفہ کو اپنے خون جگر سے تابانی عطا کرنے والی اس جلیل القدر ادیبہ کی زندگی کی عظیم کہانی لوحِ جہاں پر انمٹ نقوش ثبت کر گئی۔ فاطمہ ثریا بجیا نے بچوں کے پروگرام، ڈرامہ نگاری اور ناول نگاری میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا۔ سال 1966میں پاکستان ٹیلی ویژن مرکز اسلام آبادسے پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے سے بہ حیثیت اداکارہ فنون لطیفہ کے شعبے میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والی اس نابغۂ روزگار خاتون نے پاکستانی خواتین کو خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیا۔ یہ ڈرامہ آغا ناصر نے لکھا تھا اور وہی اس کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ اس ڈرامے میں ان کی عمدہ کار کر دگی کی بنا پر انھیں جو شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی اس سے متاثر ہو کر انھیں کئی اور ڈراموں میں کام کرنے کی پیش کش کی گئی۔ جلد ہی انھوں نے قومی نشریاتی اداروں کے لیے نئے ڈرامے لکھنے اور مقبول ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اے آر خاتون کے ناول آرزو، زینت، شمع، افشاں اور عروسہ کی ڈرامائی تشکیل کر کے اردو ڈرامے کی ثروت میں اضافہ کیا۔ فاطمہ ثریا بجیا کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان میں دس سال کی عمر کو پہنچنے والے بچے بھی قلم و قرطاس کے ساتھ تخلیق ادب کا عہد استوار کر لیتے ہیں۔ وہ انور مقصود، احمد مقصود، مقصود حمیدی، زہرہ نگاہ، مسز کاظمی، سارہ نقوی اور زبیدہ طارق کی بڑی بہن تھیں۔ سب بہن بھائیوں نے زندگی بھر اپنی بڑی بہن کے ہر حکم کی تعمیل کی اور ہر مشورے پر عمل کیا۔ ان کے تدبر اور فہم و فراست کی بنا پر انھیں سندھ میں خواندگی میں اضافے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر مقرر کیا گیا۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی پروگراموں میں بہ حیثیت میزبان بھی خدمات انجام دیں ۔ ان کے یہ پروگرام بہت مقبول ہوئے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں سال 1996میں پرائڈ آف پر فارمنس اور سال 2012میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ فاطمہ ثریا بجیا کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں جاپان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ملا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے اپنا پہلا ڈرامہ "مہمان” لکھنے کے بعد انھوں نے تین سو سے زائد ڈرامے لکھے جن میں سے کچھ مشہور ناولوں کی ڈرامائی تشکیل پر مبنی ہیں۔ ان کے مقبول ڈرامے درج ذیل ہیں :

شمع(اے۔ آر خاتون)، افشاں (اے۔ آر خاتون)، عروسہ (زبیدہ خاتون)، زینت(مرزا قلیچ بیگ کے سندھی ناول سے ترجمہ)، انا، آگہی، آبگینے، بابر، تاریخ و تمثیل، گھر ایک نگر، فرض ایک قرض، پھُول رہی سرسوں، تصویرِ کائنات، اساوری، سسی پُنوں، تصویر(اے۔ آر خاتون)، انار کلی، آب گینے، التتمش، جسے پیار چاہیے

پاکستان میں خواتین کی محافل میلاد کے انعقاد کے سلسلے میں فاطمہ ثریا بجیا کا شمار ان محافل کی بنیاد گزاروں میں ہو تا ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن سے ادبی پروگرام "اوراق”پیش کیا جس نے قارئین میں زندگی کی حقیقی معنویت اجاگر کرنے اور مسائل زیست کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نو نہالانِ وطن کی دلچسپیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھوں نے بچوں کی نفسیات کی روشنی میں کئی مفید پروگرام پیش کیے۔ خواتین کو بالعموم آرائش و زیبائش سے گہری دلچسپی ہوتی ہے، ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے لیے فاطمہ ثریا بجیا نے "آرائش خم و کاکل "کے نام سے ایک پروگرام ترتیب دیا جسے خواتین نے بہت پسند کیا۔ ستائش اور صلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے فاطمہ ثریا بجیا زندگی بھر لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا اور حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی۔ انھوں نے ایک شان استغنا سے خود داری، عزت نفس اور انا کا بھرم بر قرار رکھا۔ بے لوث محبت، بے باک صداقت، خدمت میں عظمت اور ایثار و دردمندی ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔

فاطمہ ثریا بجیا نے کسی تعلیم ادارے میں کبھی داخلہ نہ لیا بل کہ اپنے گھر ہی میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو زبان میں جو استعداد حاصل کی وہ ان کے ذوقِ سلیم اور اکتساب کا واضح ثبوت ہے۔ اے۔ آر خاتون (امۃ الرحمٰن خاتون)سال 1900میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ اپنے گھر ہی میں تعلیم حاصل کی اور ان کی تحریریں اپنے عہد کے مقبول ادبی مجلے "عصمت "میں شائع ہونے لگیں۔ ان کا پہلا اردو ناول "شمع ” سال 1929میں شائع ہوا۔ اے۔ آر خاتون کے ناول تصویر، افشاں ، فائقہ، چشمہ، رُمانہ اور ہالہ قارئین میں بہت مقبول تھے۔ اے۔ آر خاتون نے چوبیس فروری سال 1965کو لاہور میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا اور اسی شہر بے مثال میں لا زوال اسلوب کی حامل یہ ادیبہ آسودۂ خاک ہے۔ اے۔ آر خاتون کی بیٹی زبیدہ خاتون کے ناول بھی بہت مقبول ہوئے۔ فاطمہ ثریا بجیا کو ان دونوں ماں بیٹی کے ناول بہت پسند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی تہذیب، گھریلو ماحول اور مشترک خاندان کے مسائل کی جس خوش اسلوبی کے ساتھ ان خواتین نے لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

فاطمہ ثریا بجیا نے ڈراموں میں کر دار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر بہت توجہ دی۔ انھوں نے نئے خیالات، نئے اسالیب اور نئے موضوعات کے انتخاب سے اپنے ڈراموں کو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مالا مال کر دیا۔ ان کے ڈرامے اس قدر مقبول ہوئے کہ ان میں کام کرنے والے سب اداکار شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ ان کے مشہور ڈراموں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے :

سال 1970کے اواخر میں پاکستاں ٹیلی ویژن مرکز کراچی سے پیش کیے جانے والے ڈرامے "افشاں ” نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ فاطمہ ثریا بجیا نے اے۔ آر خاتون کے ناول "افشاں ” کی جس محنت، لگن اور مہارت سے ڈرامائی تشکیل کی اس کے معجز نما اثر سے یہ ڈرامہ اب بھی بہت مقبول ہے۔ یہ ڈرامہ ایم ظہیر کی ہدایت میں پیش کیا گیا۔ اس میں زینی عمر نے افشاں کا یاد گار کردار ادا کیا۔ اس ڈرامے میں شکیل، قاضی واجد، شفیع محمد، طاہرہ واسطی، ابراہیم نفیس، رضوان واسطی، قربان جیلانی، بیگم خورشید مرزا، عرش منیر، آغا وحید الرحمٰن، بینش حسن، عذرا شیروانی، محمود علی، عشرت ہاشمی، رشید عمر تھانوی، سبحانی با یونس، عائشہ خان، مظہر فاروق اور قطرینہ حسین کی فقید المثال اداکاری نے ناظرین کے ذہن پر انمٹ نقوش ثبت کیے۔

اے۔ آر خاتون کے ناول "شمع”کی ڈرامائی تشکیل فاطمہ ثریا بجیا نے کی۔ ہدایت کار قاسم جلالی نے اسے پاکستان ٹیلی ویژن مرکز کراچی سے سال 1970میں پیش کیا۔ اس ڈرامے میں جن اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ان میں غزالہ کیفی، جاوید شیخ، انور اقبال، بیگم خورشید مرزا، عشرت ہاشمی، ذہین طاہرہ، عرش منیراور رضوان واسطی شامل تھے۔

فاطمہ ثریا بجیا نے سال 1992میں اے۔ آر خاتون کی بیٹی زبیدہ خاتون کے ناول "عروسہ”کی ڈرامائی تشکیل کی۔ یہ ڈرامہ بھی پاکستان ٹیلی ویژن مرکز کراچی سے قاسم جلالی کی ہدایات میں پیش کیا گیا۔

اس ڈرامے میں مشی خان نے عروسہ کا کردار ادا کیا اور اپنی بے مثال اداکاری سے ناظرین کے دل جیت لیے۔ ان کے ساتھ عدنان صدیقی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ دوسرے ممتاز اداکاروں میں شکیل، عشرت ہاشمی، سلطانہ ظفر، مظہر فاروق، نیلوفر عباسی، شمع جو نیجو، اور عائشہ خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ ڈرامہ عرسہ کو سال 1992کاسب سے مقبول اور کامیاب ڈرامہ سمجھا جاتا ہے۔

اے۔ آر خاتون کے ایک اور ناول "تصویر”کی ڈرامائی تشکیل فاطمہ ثریا بجیا نے کی۔ اس ڈرامے میں قیصر نظامانی، عابدہ زکی، عدنان جیلانی، جویریہ عباسی، رابعہ نورین، ڈاکٹر عمرانہ مسعود اور تنویر جمال نے فن اداکاری میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا۔

زندگی کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد فاطمہ ثریا بجیا نے نے تقدیر کے حتمی فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی ابدی آرام گاہ میں بسیرا کر لیا۔ ان کی رحلت ایک بہت بڑا قومی نقصان ہے جس کی تلافی صدیوں تک نہ ہو سکے گی۔ انھوں نے عملی زندگی میں اپنے جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطا کر کے جہاں اپنے لیے تزکیہ نفس کی ایک صورت تلاش کر لی تھی وہاں نئی نسل تک ان خیالات کی منتقلی کی خاطر انھوں نے مقدور بھر جد و جہد کی۔ موجودہ دور کی ظلمت میں وہ عصری آگہی کی مشعل تھا م کر انسان شناسی اور انسانیت نوازی کا علم بلند رکھنے پر اصرار کرتی تھیں۔ پاکستان میں تانیثیت کی پُر جوش حمایت کرنے والی ا س پر عزم اور با ہمت خاتون نے عصری آگہی پروان چڑھانے کا جو لائحہ عمل مرتب کیا وہ سماج، معاشرے، گوٹھ، گراں، دیہات، قصبات، شہروں اور ارضِ وطن تک محدود نہ تھا بل کہ اس کی سر حدیں پوری دنیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ دنیا بھر کے انسانوں بالخصوص خواتین کی عزت اور وقار کے لیے کوشاں رہیں۔

فاطمہ ثریا بجیا سے ملنے والے ان کے اعلیٰ اخلاق اور اخلاص سے بہت متاثر ہوتے۔ ان کے حسن سلوک اور اپنائیت کی وجہ سے خواتین انھیں اپنی مونس اور محسن سمجھتی تھیں۔ ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ خواتین کو انھوں نے منفرد اسلوب اپنانے کا مشورہ دیا اور تقلید کی مہلک روش سے بچنے کی تلقین کی۔ تخلیقِ ادب میں وہ موضوعات کی جدت، تنوع اور ندرت کی قائل تھیں۔ انھوں نے پامال راہوں سے بچتے ہوئے اپنے لیے جو الگ طرز فغاں ایجاد کی وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طرزِ ادا بن گئی۔ وہ ایک وسیع المطالعہ خاتون تھیں ، عملی زندگی کے تجربات، مشاہدات، علمی و ادبی محفلوں میں بھر پور شرکت، گھر میں تہذیبی و ثقافتی امور کی نگہداشت اور ارفع خاندانی پس منظر نے ان کے ذوق سلیم کی نمو میں اہم کردار ادا کیا۔ ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں معائر کی جانچ پرکھ میں انھیں جو اختصاصی مہارت حاصل تھی اس کا ایک عالم معترف تھا۔ وہ تخلیق کار اور قاری کے فکر و خیال کی دنیا کی دریافت پر توجہ مرکوز رکھتی تھیں۔ وہ تخلیق کار سے یہ توقع رکھتی تھیں کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اپنے اور قاری کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اتر جانے کی صلاحیت سے متمتع ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہی کامرانی تخلیقی فعالیت کے ثمر بار ہونے کی دلیل ہے۔

مشرقی تہذیب و ثقافت سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو ان کا سب سے بڑا اعزاز و امتیاز سمجھاجاتاہے۔ وہ پاکستان کے سیاسی، معاشرتی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی ارتقا کی وہ چشم دید گواہ تھیں۔ زندگی کی برق رفتاریوں نے درخشاں اقدار و روایات کو جو ضعف پہنچایا ہے، اسے دیکھ کر وہ بہت دِل گرفتہ تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ اس خطے کی تہذیبی و ثقافتی میراث کو نئی نسل کو منتقل کرنے کی مساعی میں تیزی لائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ شرح خواندگی میں اضافے کو نا گزیر خیال کرتی تھیں۔ وہ اقوام و ملل کے عروج و زوال کی داستانوں کو تاریخ کے مسلسل عمل کا حصہ قرار دیتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ تہذیب و ثقافت کا معاملہ قوموں کے عروج و زوال سے بالکل الگ ہے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے اقوام کے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں لیکن تہذیب کے چاند کو کبھی گہن نہیں لگ سکتا۔ وہ اس بات پر زور دیتی تھیں کہ ارضِ پاکستان میں تہذیبی و ثقافتی بالیدگی کو یقینی بنا کر ہر قسم کے چیلنج کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں مشرقی تہذیب و ثقافت، مشترکہ خاندان کے مسائل، شہری اور دیہاتی زندگی کے ارتعاشات اور زندگی کی نا ہمواریوں کو جس بے باکی سے موضوع بنایا وہ ان کی بصیرت اور حب الوطنی کی دلیل ہے۔ انھوں نے کبھی جاہ و منصب یا شہرت کی تمنا نہ کی ہر حال میں مشیت ایزدی کے سامنے سر جھکا دیا۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر انھوں نے جس استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کیا وہ ان کی مستحکم شخصیت کا ثبوت ہے۔ پاکستان میں ادب اور فنون لطیفہ کی ترقی میں ان کا کردار ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔ تعلیم نسواں کے حوالے سے ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ فاطہ ثریا بجیا اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یادیں ہر سُو فضا میں گردش کر رہی ہیں جو ہمیں متوجہ کر کے کہتی ہیں کہ جانے والوں سے دلوں کے ربط کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں

جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی

٭٭

مآخذ

1۔ زاہدہ حنا: "بجیا بہت یاد آئیں گی” کالم ’نرم گرم‘ روزنامہ ایکسپریس، لاہور، اتوار، 14فروری، 2016، صفحہ 12۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے