ندا فاضلی کی یاد میں … ستیہ پال آنند

 

ممبئی میں ندا فاضلی کا انتقال ہو گیا!

اپنے انتقال کی خبر آکاش وانی (آل انڈیا ریڈیو) پر سننے کے لیے تو وہ ہر وقت منتظر رہتا تھا۔ ممبئی میں میری آوارگی کے دنوں میں وہ کئی بار مجھ سے کہتا بھی تھا، "یار کوئی ایسا دن بھی آئے گا جب صبح جاگتے ہی میَں آکاش وانی کی شدھ ہندی میں یہ خبر سنوں گا، "کل رات اردو کے پرسدھ کوی اور فلم جگت کے ماننیہ گیت کار ندا فاضلی کا نِدھن ہو گیا….” اور میں کہتا اس خبر میں یہ تو نہیں کہا جائے گا …. "اس کا ساتھی ستیہ پال آنند اس سے چھ برس بڑا ہے لیکن اب تک زندہ ہے …..”

آج سوچتا ہوں کہ کل اس کی موت پر یہ خبر آکاش وانی سے انہی الفاظ میں سنائی گئی ہو گی، لیکن میرا اس سے چھہ برس بڑا ہونے کے باوجود اب تک زندہ ہونا اس خبر نامے کا حصہ نہیں ہو گا۔

مجھے لگتا ہے کہ وہ جینے مرنے کو زندگی نام کے سکے کے سیدھے الٹے دو رخ ہی سمجھتا تھا۔ اسی لیے تو اپنے باپ کی موت پر اس نے جو نوحہ لکھا اس کی آخری سطریں یہ تھیں :

تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا

مجھے معلوم ہے، تم مر نہیں سکتے

تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی ہے

وہ جھوٹا تھا

وہ تم کب تھے

کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہل کے ٹوٹا تھا

تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں

میں لکھنے کے لیے جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں

تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی پہ پاتا ہوں

بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے

وہ تمہاری لغزشوں، ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے

مری آواز میں چھپ کر

تمہارا ذہن رہتا ہے

مری بیماریوں میں تم

مری لا چاریوں میں تم

تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے

وہ جھوٹا ہے

تمہاری قبر میں میَں دفن ہوں

تم مجھ میں زندہ ہو

کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا!

مرنے کے لا یعنی قصوں سے کچھ پیچھے چلیں تو مجھے ممبئی کے وہ دن بھی یاد آتے ہیں، جب وہ اپنے منفرد طرز نگارش میں ایسی رومانی نظمیں لکھ رہا تھا، جو اس وقت کا چلن تھا کہ ا ن دنوں تک جدیدیت کا ریلا ترقی پسند تحریک کے خس و خاشاک کو بہا کر نہیں لے گیا تھا اور نامی گرامی شعرا بشمولیت فیض اور ساحر بھی اپنی نظموں میں انقلاب کے تصور کو محبوبہ کے تصور سے ہم آہنگ کر کے انہیں کچے ذہنوں کے لیے ایک رومانی شبیہ کا حامل بنا دیتے تھے۔ اس کی نظم یہ تھی:

آمنے سامنے دو نئی کھڑکیاں

جلتی سگرٹ کی لہراتی آواز میں

سوئی تاگے کے رنگین الفاظ میں

مشورے کر رہی ہیں کئی روز سے

شاید اب بوڑھے دروازے سر جوڑ کر

وقت کی بات کو وقت پر مان لیں

کھڑکیوں کے اشاروں کو پہچان لیں۔

لیکن ندا فاضلی بہت برسوں تک اس پڑاؤ پر نہیں رکا۔ اس کے اندر کا "سنت کوی” اسے میرا بائی، کبیر داس، سور داس اور رس کھان کی کھڑی بولی میں رچنا کی ہوئی بھگتی رس کی شاعری کی طرف کھینچ رہا تھا۔ اس نے خود لکھا ہے کہ گوالیار میں ایک بار وہ ایک مندر کے پاس سڑک پر گذر رہا تھا کہ اسے مندر میں گائے جا رہے بھگت سور داس کی بانی کے کچھ بول سنائی دیے، جو کرشن کی مہما کا بکھان کر رہے تھے۔ وہ رک گیا اور مبہوت سا کھڑا انہیں سننے لگا۔ یہ ’پد‘ (بند) کرشن لیلا کے اس باب میں سے تھے جب فراق کی ماری ہوئی رادھا، کرشن کی جدائی میں بے حال ’ردن‘ (آہ و زاری ) کرتی ہے۔

’کھڑی بولی‘ تو نہیں لیکن روزانہ کی بول چال کی زبان اس کی شاعری کی "سنت ویش بھوشا” (سادھوؤں کا بانا) بن گئی۔ اور اس کے بعد اس کی غزلیں، گیت، دوہے اور مختصر نظمیں اسی سادہ اور سلیس زبان میں لکھی گئیں۔ یہ تو رہا اس کے انداز بیان، اسلوب اور زبان کے استعمال کا منظر نامہ، لیکن اس واضح، صاف اور جچی تلی زبان کے ساتھ ساتھ جن موضوعات اور مضامین کو اس نے اپنایا، ان کا پیش خیمہ اس کے دوہوں کی صورت میں بہت پہلے ظاہر ہو چکا تھا۔ کچھ دوہے جو مجھے بہت پسند ہیں، وہ یہ ہیں :

بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالیشان

اللہ، تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان؟

جو صوفی کا قول ہو، یا پنڈت کا گیان

جتنی بیتے آپ پر، اتنا ہی سچ جان

اندر مورت پر چڑھے، گھی، پوری، مشٹھان

مندر کے باہر کھڑا ایشور مانگے دان

انڈیا میں اگر کسی اردو شاعر نے مذہبی یک جہتی، رواداری اور بھائی چارے کا پیغام صاف اور سلیس زبان میں لوگوں تک، صرف ادبی رسائل اور اخبارات کے توسط سے نہیں، بلکہ سینکڑوں کیا، ہزاروں مشاعروں میں اپنی گونجتی مترنم آواز میں پہنچایا ہے تو وہ ندا فاضلی ہے۔

بارہا ایسا ہوا ہے کہ منتظمین میں سے کچھ مذہبی لوگوں نے اس کی شاعری میں اس ’ننگے بوچے ‘ پیغام پر اعتراض کیا ہے، سامعین میں سے کچھ نے آوازے کسے ہیں۔ دہلی کے ایک مشاعرے میں صرف چار پانچ برس پہلے خود کش حملوں کے موضوع پر اپنی نظم پڑھتے ہوئے جب وہ اس بند پر پہنچا کہ ان حملہ آوروں کو حوروں والی جنت نہیں ملے گی، جہنم کے آتش کدے میں جھونکا جائے گا تو سامعین میں سے کچھ لوگوں نے اٹھ کر اس پر اسلام مخالف ہونے کا الزام لگایا اور اسے نظم ختم ہونے سے پہلے ہی منتظمین کے اصرار پر بیٹھنا پڑا۔ اب صرف تین چار برسوں کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ خود کش حملہ آوروں کو دوزخ میں جھونکے جانے کا یہ مضمون انڈیا اور پاکستان کے مشاعروں، اخباروں اور ادبی رسائل میں مشمولہ کالموں، اداریوں اور نظموں میں کھلے عام در آنے لگا ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ اسی طرح الہ آباد کے ایک مشاعرے میں اس کے ایک شعر میں اچھوت (ہری جن) لوگوں کا ذکر آیا جنہیں مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور ماضی بعید میں وید پاٹھ کو سننے کی سزا یہ تھی کہ ان کے کانوں میں سیسہ انڈیل دیا جائے تو کچھ ہندوؤں نے اٹھ کر شور مچایا تھا کہ ایک مسلمان شاعر کو کیا حق ہے کہ وہ ہندوؤں کے ریتی رواج پر منفی تبصرہ کرے۔

مجھے ایک نظم یاد آتی ہے جس میں اس کی مشاورت خود سے یہ تھی:

لکھو کہ

چیل کے پنجوں میں

سانپ کا سر ہے

لکھو کہ

سانپ کا پھن

چھپکلی کے اوپر ہے

لکھو کہ

چیونٹی جھینگر کی

دسترس میں ہے

لکھو کہ

جو بھی یہاں ہے

کسی قفس میں ہے

لکھو کہ

کوئی برا ہے

نہ کوئی اچھا ہے

لکھو کہ

/رنگ ہے جو بھی

نظر میں کچا ہے

جو ایک درد ہے سانسوں میں

وہ ہی سچا ہے

یہ ایک درد ہی

سنگھرش بھی ہے، خواب بھی ہے

لکھو کہ

یہ ہی اندھیرے کا ماہتاب بھی ہے

میرے انڈیا میں رہنے کے مہ و سال میں تو ہماری ملاقاتیں سال میں دو تین بار ضرور ہو جاتی تھیں۔ پنجاب اور ہریانہ کا مشترکہ دار الخلافہ ہونے کی وجہ سے چنڈی گڑھ میں تو وہ تقریباً ہر برس ہی یونیورسٹی میں یا یوم آزادی یا ری پبلک ڈے کے مشاعروں پر مدعو کیا جاتا تھا اور وہ یونیورسٹی کیمپس میں میرے گھر پر ہی قیام کرتا تھا لیکن میرے انڈیا چھوڑنے کے بعد یہ ملاقاتیں صرف اس کی امریکا یا کینیڈا آمد کے دنوں تک ہی محدود ہو گئیں۔ ان تیس پینتیس برسوں میں یہ ملاقاتیں بارہ پندرہ بار ہی ہوئی ہوں گی۔ اور بس۔ بہر حال اس کی کتابیں مجھ تک پہنچتی تھیں اور میری کتابیں اس تک ہمیشہ رسائی رکھتی تھیں۔ البتہ نہ اس نے کبھی میرے بارے میں اور نہ ہی میں نے کبھی اس کے بارے میں کچھ لکھا۔

آخری بات: "سونے کا دل اور چاندی کی زبان…” ایک بار ہمارے ایک مشترکہ دوست ساجد رشید نے کہا تھا، "لیکن یہ زبان کھنکتی بہت ہے !” اس کا اشارہ ندا فاضلی کی لطیفہ بازی کی حد تک پھیلی ہوئی اس زبان آوری سے تھا جس کی وجہ سے دوستوں کے بارے میں وہ عذب البیانی کی حد تک چلا جاتا تھا۔ یہ باتیں صرف زبان آوری تک ہی محدود نہ تھیں، اس کے قلم سے بھی زہر خند بن کر ٹپکتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے تحریر کردہ خاکے جو پہلے ’انقلاب‘ اور کئی دوسرے اخباروں اور رسالوں میں اشاعت پذیر ہوئے، جب کتابی صورت میں ’ملاقاتیں ‘ کے زیر عنوان چھپے تو سینیئر شعرا جن کا تعلق ممبئی کی فلمی زندگی سے تھا، بے حد خفا ہوئے۔ ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی نے اس سے رسم و راہ منقطع کر دی اور جن محافل یا مشاعروں میں اسے مدعو کیا جاتا، ان میں شرکت سے گریز کر نے لگے۔ اس کا کچھ تجربہ مجھے بھی ہوا لیکن یہ بات کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

اب ایک آخری نظم کی کچھ سطریں :

مسجدوں مندروں کی دنیا میں

مجھ کو پہچانتے کہاں ہیں لوگ

روز میں چاند بن کے آتا ہوں

دن میں سورج سا جگمگاتا ہوں

کھنکھناتا ہوں ماں کے گہنوں میں

ہنستا رہتا ہوں چھپ کے بہنوں میں

میں ہی مزدور کے پسینے میں

میں ہی برسات کے مہینے میں

میری تصویر آنکھ کا آنسو

میری تحریر جسم کا جادو

(نا مکمل)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے