جوتا نامہ ۔ ۔ ۔ ندا فاضلی

 

جوتا انسان اور زمینی رشتے کے بدلتے ادوار کی تاریخ کا بیانیہ ہے۔ سردی سے بچنے کے لئے روئی، اُون اور جانوروں کی کھالیں وجود میں آئیں۔ جب اللہ کی جنت میں آدم اور حوا نے شیطان کے بہکانے سے شجر ممنوعہ کا پھل کھایا اور پھر جب ایک دوسرے کو برہنہ پایا تو پہلے درختوں کے پتّوں سے اس برہنگی کو چھپایا پھر جب زمین کو بسایا تو طرح طرح سے شرم و حیا کا شعور جگایا۔ پھر گرمی آئی سورج کی حرارت نے سر کے اوپر چھپر اُٹھایا، برسات نے پانی سے بچنے کا گُر سکھایا۔ بھوک نے کبھی جڑی بوٹیوں کو کھایا کبھی جانوروں کو بھوجن بنایا۔ زمین کے کنکر پتھر نے جب پیروں کی نرم جِلد کو ستایا تو آدم زاد نے اس تکلیف سے بچنے کے لئے کبھی لکڑی سے کھڑاؤں بنائی اور کبھی جانور کی کھال سے پیروں کو کنکر پتھر کے زخموں اور دھوپ کی تیزی سے تلووں کو آرام پہنچایا۔ وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتوں نے دریا، پہاڑ، درختوں وغیرہ کو توڑ جوڑ کر سنسار سجایا۔ اس سنسار کی تہذیبی تعمیر میں ’ جوتے نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی کئی نشانیوں میں سے ایک کے، جوتے ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہاتھی آدمی سے کئی گنا لمبا چوڑا ہے، لیکن اُسے کبھی جوتے کی ضرورت نہیں پڑتی، شیر کو جنگل کا راجہ کہا جاتا ہے پورا جنگل اس کے اختیار میں ہوتا ہے لیکن وہ بھی آدمی اور عورت کی طرح نہ کسی چیز سے اپنے ننگے پن کو ڈھانپتا ہے، نہ بھوجن کے لئے شکار کی راہوں کو جوتوں سے ناپتا ہے۔ چڑیاں بھی اپنے پنجوں سے پھدکتی پھرتی ہیں۔ اور بزرگ مصّور مقبول فدا حسین کے پیر بھی اس انسانی ایجاد سے آزاد ہیں۔ وہ انسانوں کی طرح داڑھی ترشواتے ہیں، اپنے ڈیزائن کے کپڑے بھی سلواتے ہیں، مسلمان ہوتے ہوئے کبھی حسینی رامائن بناتے ہیں، کبھی بھارت ماتا کو آدی باسی کی طرح بے لباس دِکھاتے ہیں، پھر بھی سپریم کورٹ سے معافی پاتے ہیں۔ لیکن جوتا کبھی ان کی بے توجہی سے ناراض نہیں ہوا۔ لوگوں نے اپنے جوان اور بزرگ جوتوں کو لاکھ گھمایا پھرایا لیکن حسین کا گم شدہ جوتا، ان کے خلاف گواہی دینے کبھی نہیں آیا۔ لیکن اس احسان کے باوجود حسین صاحب نے اسے نہیں اپنایا۔ وہ ہٹّے کٹّے گھوڑوں کی ہی تصویر بناتے رہے۔ ان گھوڑوں کو نہ کبھی جوتا پہنایا اور نہ اس جوتے کو جس نے عدالت میں غیر حاضر ہو کر کیس میں ان کا ساتھ نبھایا، اسے کبھی اپنے پیروں سے نہیں لگایا۔ حسین جسمانی لحاظ سے بھلے ہی دھان پان ہوں لیکن ان کے گمشدہ یا طلاق شدہ جوتے کافی بلوان ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں کئی سیاسی جوتے ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ کبھی وہ جن سنگھی بن کر اُن پروار کرتے ہیں، کبھی آر ایس ایس کے روپ میں انہیں پریشان کرتے ہیں، کبھی ہندتوا کی شکل میں ان کو ڈراتے ہیں، لیکن ان سارے جوتوں کے سامنے حسین کے وہ وفادار جوتے جن کو کبھی ان کا قرب حاصل نہیں ہوا، حسین صاحب کی حفاظت ہی نہیں کرتے ہزاروں، لاکھوں کی بھیڑ کا اکیلے مقابلہ کرتے ہیں اوراس مقابلہ میں جیت بھی انہیں کی ہوتی ہے۔

بھارت میں قبل از تاریخ کے دور میں جوتا پہلی بار اساطیری حوالے میں ملتا ہے۔ اس وقت اس کا نام کھڑاؤں تھا اوراسے لکڑی سے بنایا جاتا تھا۔ رام کے پتا دشرتھ کی تین رانیاں تھیں۔ ان میں ایک کا نام کیکئی تھا۔ رام، پریوار میں سب سے بڑے ہونے کے ناطے راج گدّی کے حقدار تھے۔ لیکن کیکئی اپنے بیٹے بھرت کو دشرتھ کو تخت کا وارث بنانا چاہتی تھی۔ اس نے چالاکی سے دشرتھ سے ایک خواہش پوری کرنے کا وعدہ لے لیا تھا۔ اس نے دشرتھ کو وہ وعدہ یا د دِلا کر رام کو چودہ سال کے بن باس کے لئے مجبور کر دیا۔ رام پتا شری کے آدیش کو فرض مان کر محل چھوڑ کر چل دیئے۔ لیکن کیکئی کا بیٹا بھرت، اپنے بڑے بھائی کا عقیدتمند تھا۔ وہ رام کو محل چھوڑنے سے روک تو نہیں پایا۔ لیکن اس نے رام کی راج گدّی پر بیٹھنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس نے اپنی ماں کی مرضی کے خلاف، راج گدّی پر رام کی کھڑاؤں رکھ دیں اور وہ چودہ برس تک ان کے واپس آنے کا انتظار کرتا رہا۔ ایودھیا میں جوتوں کی علامتی حکومت کی یہ پہلی مثال ہے۔

جوتوں کا دُنیا کی ہر زبان میں الگ الگ نام ہیں۔ کہیں اسے ’ شو‘ کہا جاتا ہے کہیں موجڑی کے نام سے پکارا جاتا ہے، پاپوش اس کا نام ہے۔ کہیں جفت یا اس کا اسم ہے۔ کہیں زیر پائی مشہور ہے۔ کہیں کفش بولا جاتا ہے۔ اسی اعتبارسے جوتوں کے تعلق سے اردو لغت میں بہت سے محاوروں نے جنم لیا ہے۔ ان میں ایک محاورہ جوتیاں چٹخانا ہے۔ فسانۂ آ زاد میں اسے یوں استعمال میں لایا گیا ہے۔ جھوٹ بولنے والے، خوشامد کرنے والے …. تو مزے اڑائیں، اور علماء فضلاء جوتیاں چٹخائیں۔ مشہور نقاد اور شاعر صفدر آہ نے تباہ حالی کے معنی میں اسے نظم کیا ہے۔

آپ کے کوچے میں دشمن رات دن

جوتیاں پھرتے ہیں چٹخاتے ہوئے

جوتیاں چٹخانے کی طرح جوتیاں مارنا ذلیل کرنے کے معنی میں مستعمل ہے۔ خدائے سخن میر تقی میر کی ایک غزل کا مقطع ہے۔

اے میر غیر تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے

سیّد نہ ہووے پھر تو کوئی چمار ہووے

اسی طرح جوتے پر جوتا سوار کے معنی سفر درپیش ہونے کا شگون ہوتا۔ کبھی کبھی جوتا اُتارتے وقت ایک جوتا دوسرے پر چڑھ جاتا ہے۔ اس سے مراد جوتے والے کے آئندہ سفر سے ہوتی ہے۔ جوتی سے ہی ایک محاورہ جوتی جانے بھی بنتا ہے۔ کسی بات سے لاتعلق ہونے کے لئے اکثر خواتین اسے بولتی ہیں۔ قلق نے اپنی مثنوی میں اسے یوں نظم کیا ہے۔

جوتی جانے مری مجھے کیا کام

جس نے بلوایا ہے اسے دو پیام

’جوتیوں میں دال بٹنا‘ بھی محاورہ ہے۔ اس سے آپس میں پھوٹ پڑنے کا مفہوم لیا جاتا ہے۔ لڑائی، جھگڑا بھی اس کا مطلب ہوتا ہے معروف نے شعر میں اس محاورہ کو یوں باندھا ہے۔

جو بزم غیر میں منہ کا ترے اُگال بٹے

خدا کرے کہ وہاں جوتیوں میں دال بٹے

جوتی کی اَنی، یعنی جوتی کی نوک کے مفہوم میں خواتین بولتی ہیں۔ خواجہ حیدر علی آتش کے ہم عصر امام بخش ناسخ لکھنؤ کی زبان اوراس کے محاوروں کے پرستار تھے۔ ان کی شعری زبان سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔ آج کل یہ محاورہ متروک ہے۔

پھبتی یہ نئی ہے ماہِ نو پر

گویا تری جوتی کی اَنی ہے

جوتوں سے کئی تہذیبی رسموں کا بھی تعلق ہے۔ شادی بیاہ میں سالیاں ( دلہن کی بہنیں ) اکثر دولہا بھائی کا جو جوتا چھپا کر جوتا چھپائی کا نیگ مانگتی ہیں۔ بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے اوراس طرح دولہے سے منہ مانگا انعام لیا جاتا ہے۔ ایک دولہے اس رسم سے واقف تھے اس لئے احتیاطاً وہ ایک جوڑا پہن کر اوردوسرا ایک تھیلی میں چھپا کر لائے تھے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ خود دلہن نے اس طر ف اشارہ کیا اور لڑکیوں نے تھیلی کو بھی غائب کر دیا۔ اب دولہا میاں لاچار ہو گئے۔

دولہا کا جوتا جس نے چرایا

مُنہ مانگا اس نے انعام پایا

روی داس، جنہیں رے داس بھی کہا جاتا ہے۔ سنت کبیر اور میراں بائی کے دور کے سنت کوی تھے۔ دیگر سنت کویوں کی طرح ان کی جائے پیدائش اور تاریخ ولادت کا تعین میں مختلف رائیں ملتی ہیں۔ وہ ذات سے چمار تھے۔ اپنے باپ کے ساتھ جوتے بناتے تھے اوراسی محنت سے روٹی کماتے تھے۔ لیکن ان کا مزاج روحانی تھا۔ تجارت کے داؤ پیچ سے ناواقف تھے۔ سادھوسنتوں کو وہ اکثر مفت میں بھی جوتے پہنا دیا کرتے تھے۔ ان کی اس روِش سے نالاں ہو کر ان کے باپ نے انھیں گھر دوکان سے الگ کر دیا۔ ان کی شاعری میں رام رحیم دونوں ایک ہی نور کے نام تھے۔ میراں بائی انہیں کی چیلی کہی جاتی ہیں۔ رے داس کے کئی پدسِکھوں کے مقدس گرنتھ میں بابا فرید، کبیر، نام دیو کے ساتھ کافی تعداد میں شامل ہیں۔ رے داس کی بانی بھی کبیر کی طرح خدا کو رسوم کا پابند نہیں بناتی، ہر ذرے میں اس کا دیدار پاتی ہے۔ ان کے ایک پد کی لائنیں ہیں۔

تُرک مسیت( مسجد) اللہ ڈھونڈئی دہرے (مندر) ہندو رام گسائیں

روی داس ڈھونڈیا رام رحیم کوں، جہامسیت دہرانا ہیں ….

اردو میں میاں نظیر بھی سب دھرموں کی عزت کرتے تھے۔ وہ میر اور غالب کی طرح آگرے کے اشرافیہ میں سے نہیں تھے۔ ان کا سماجی طبقہ عام آدمی سے متعلق ہے۔ ہر لکھنے والے کی تخلیق میں اس کا سماجی طبقہ جھانکتا ہے۔ اسی لئے نظیر اردو شاعری کے مجموعی مزاج سے مختلف نظر آتے ہیں۔ اس میں نہ چاند میں محبوبہ نظر آتی ہے اور نہ عشق کو دماغی خلل سمجھاجاتا ہے۔ وہ محبوبہ اور عشق کے بجائے روٹی، مفلسی، ڈھونگی اور درویشی کی بات کرتے ہیں۔ روٹی کو موضوع سخن بنانے کے جرم میں انہیں ناقدین نے کبھی قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔ لیکن وقت کی تبدیلی نے ناقدین کے علم کو عوامی لاعلمی کے سامنے جھکا دیا اور نظیر کے بعد نظیر کو اردو شاعری کا غالب، میر، انیس کے ساتھ چوتھا ستون بنا دیا۔ نظیر کی مشہور نظم’ آدمی نامہ‘ میں جوتوں کے موضوع پر ان کا ایک بندیوں ہے۔

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں

بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں

پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآں اور نماز یاں

اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں

جو، ان کو تاڑتا ہے سوہے وہ بھی آدمی

مقبول فدا حسین کا گمشدہ جوتا، ایک لمبی تاریخ کا مسافر ہے۔ وہ رے داس کے ساتھ بھی تھا بعد میں میر و غالب کے عہد میں نئے رنگ روپ میں نظیر کے یہاں نظر آتا ہے۔ یہ جوتا کافی سفر مزاج سیلانی ہے۔ کبھی یہ بنارس میں رے داس کے مانڈور نامی گاؤں میں اتحاد و یگانگت کے گیت گاتا ہے۔ آگرے میں نظیر کے یہاں انھیں کوئی چراتا ہے۔

ممبئی میں یہ غیر حاضر ہو کر عدالت سے صحیح فیصلہ کرواتا ہے اور کبھی صدام کے بغداد میں ایک صحافی کے ہاتھ سے دُنیا کی سب سے بڑی طاقت کے منہ پر مارا جاتا ہے۔ بغداد نے اس جوتے کے ذریعے عالمی تاریخ میں ایک نیا باب جوڑا ہے۔ اس باب میں اس نے لکھا ہے جب لغت بے معنی ہو جاتی ہے۔ الفاظ گونگے ہو جاتے ہیں۔ سننے والے بہرے ہو جاتے ہیں، بولنے والے ہونٹ خاموش ہو جاتے ہیں تو جانور کی مری ہوئی کھال کا جوتا بولنے لگتا ہے۔ میری رائے ہے کہ ان اُچھالے ہوئے جوتوں کو بغداد سے برِصغیر کے تینوں علاقوں میں مدعو کیا جائے اور ان کے کئی کلونز بنائے جائیں اور بہ وقتِ ضرورت سیاست کو راستہ دکھانے کے کام میں لائے جائیں۔

کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے

جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے